(Last Updated On: فروری 1, 2022)
وفات:
٭… حافظ محمد شفیع اوکاڑوی (ممتاز عالمِ دین )
2 فروری 1930ء۔حافظ محمد شفیع اوکاڑوی اہلسنت والجماعت کے ممتاز عالمِ دین اور سیاستدان جنہوں نے تبلیغِ اسلام کے سلسلے میںمختلف ممالک کا سفر کیا اور متعدد دینی کتابیں لکھیں۔ مرکزی جماعتِ اہلِ سنت کے بانیان میں شمار ہوتے ہیں ۔مسلسل چالیس برس تک ہر رات حافظ محمد شفیع اوکاڑوی مذہبی تقاریر فرماتے رہے ہیں۔ محمد شفیع اوکاڑوی کی علمی استعداد،حُسنِ بیان، خوش الحانی اور شانِ خطابت نہایت منفرد اور ہر دل عزیز تھی۔ ہر تقریر میں ہزاروں، لاکھوں افراد کے اجتماعات ہوتے تھے۔ ماہِ محرم کی شبِ عاشورہ میں ملک کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع، مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی کے خطاب کی مجلس کا ہوتا تھا۔ پاکستان کا کوئی علاقہ شاید ہی ایسا ہو جہاں مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی نے اپنی خطابت سے قلب و جاں کو آسودہ نہ کیا ہو۔ دِین و مسلک کی تبلیغ کے لیے مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی نے شرقِ اوسط، خلیج کی ریاستوں، بھارت، فلسطین، جنوبی افریقہ، ماریشس اور دوسرے کئی غیر ملکی دَورے کیے۔ صرف جنوبی افریقہ میں 1980ء تک محمد شفیع اوکاڑوی کی تقاریر کے ساٹھ ہزار کیسٹس فروخت ہوچکے تھے۔ دوسرے ممالک میں فروخت ہونے والی کیسٹس کی تعداد بھی کم نہیں اور اب محمد شفیع اوکاڑوی کی تقاریر کی وڈیو کیسٹس بھی پھیل رہی ہیں۔20 اپریل 1984ء کو آخری خطاب جامع مسجد گُلزارِ حبیب ؐ میں نمازِ جمعہ کے اجتماع سے کیا۔ اسی شب تیسری بار دل کا شدید دَورہ پڑا اور قومی ادارہ برائے امراضِ قلب میں داخل ہوئے۔ تین دن بعدمنگل، 21 رجب المرجب 1404 ھ ،بمطابق 24 اپریل 1984ء کی صبح 55 برس کی عمر میں اذانِ فجر کے بعد دُرود و سلام پڑھتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جاملے۔25 اپریل 1984 کو نشتر پارک، کراچی میں علامہ سید احمد سعید کاظمی کی امامت میں ظہر کی نماز کے بعد لاکھوں افراد نے حضرت خطیبِ پاکستان کی نمازِ جنازہ ادا کی۔
٭… حسنین ( نامور فلمی ہدایت کار)
2 فروری 2003ء کو پاکستان کے نامور فلمی ہدایت کار حسنین لاہور میں وفات پاگئے۔ حسنین کی بطور ہدایت کار پہلی فلم نوکر تے مالک تھی جو 1982ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے 50 سے زیادہ فلموں کی ہدایات دیں جن میں دو استاد، سجن دشمن، طاقتور، انسانیت کے دشمن، آسمان، وطن کے رکھوالے، چاہت،شمع، انسانیت، زمین آسمان، دلاں دے سودے، بابا جی، دیور بھابی، غلامی، سہاگن، ایک ہی راستہ، راجپوت، لیڈر، ایک جان ہیں ہم، جادوگرنی، نگاہیں، گلفام، نائلہ، عاشقی، محبوبہ، حنا، انجمن، چاندی، عروسہ، وردی، فرشتہ، نہلا دہلا، آن ملو سجناں، چلتی کا نام گاڑی، جمیلہ، گولڈن گرل، اکو دس نمبری، گھائل، عمر مختار اور کرم داتا کے نام سرفہرست ہیں۔ حسنین نے 4 فلموں میں بہترین ہدایت کار کے نگار ایوارڈز حاصل کئے تھے جن میں ان کی پہلی فلم نوکر تے مالک کے علاوہ وطن کے رکھوالے، چاہت اور انسانیت کے نام شامل تھے۔ حسنین لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔
پیدائش:
٭… منور ظریف ( نامور مزاحیہ اداکار)
2 فروری 1940ء پاکستان کے نامور مزاحیہ اداکار منور ظریف لاہور کے گنجان آباد علاقے قلعہ گجر سنگھ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے بڑے بھائی ظریف اپنے زمانے کے معروف مزاحیہ اداکار تھے۔ مگر وہ نہایت کم عمری (صرف 34 سال کی عمر) میں 30 اکتوبر 1960ء کو وفات پاگئے تھے۔ ظریف کے انتقال کے بعد منور ظریف نے فلمی دنیا کا رخ کیا۔ بطور مزاحیہ اداکار انہیں سب سے پہلے فلم ’’اونچے محل ‘‘میں کاسٹ کیا گیا مگر’’ اونچے محل ‘‘سے پہلے 14 جون 1961ء کو منور ظریف کی ایک اور فلم’’ ڈنڈیاں ‘‘ریلیز ہوگئی اور یوں’’ ڈنڈیاں‘‘ منور ظریف کی پہلی فلم قرار پائی۔ منور ظریف ایک بہت باصلاحیت اداکار تھے۔ انہوں نے اپنی بے ساختہ اداکاری کی وجہ سے بہت جلد فلمی دنیا میں اپنا مقام بنالیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ اُردو اور پنجابی فلموں کی ضرورت بن گئے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے 15 سالہ فلمی کیریئر میں انہوں نے 321 فلموں میں کام کیا۔ یعنی اوسطاً ہر سال ان کی21 فلمیں ریلیز ہوئیں۔ منور ظریف کی پہلی سپر ہٹ فلم ’’ہتھ جوڑی ‘‘تھی جو 4 دسمبر 1964ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور اپنی ہر فلم میں اپنی جگتوں اور بے ساختہ فقروں سے لبریز اداکاری کی وجہ سے پنجابی فلموں کے سب سے بڑے مزاحیہ اداکار کے طور پر تسلیم کئے جانے لگے۔ رفتہ رفتہ ان کی شخصیت کو سامنے رکھ کر فلمیں لکھی جانے لگیں۔ ’’بنارسی ٹھگ، جیرا بلیڈ، رنگیلا اور منور ظریف، نوکر ووہٹی دا، خوشیاں، شیدا پسٹل، چکر باز، میراناں پاٹے خاں، حکم دا غلام، نمک حرام،بندے دا پتر اور آج دامہینوال‘‘ ان کی ایسی ہی لاتعداد فلموں میں سے چند کے نام ہیں۔ ان کی آخری فلم’’ لہودے رشتے ‘‘تھی جو 1980ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ منور ظریف نے رنگیلا کے ساتھ بھی متعدد فلموں میں کام کیا۔ ان دونوں اداکاروں کے بے ساختہ فقرے اور جگتیں، فلم بینوں کے ذہن میں آج بھی محفوظ ہیں۔ منور ظریف نے 1971ء میں فلم’’ عشق دیوانہ ‘‘میں پہلی مرتبہ خصوصی نگار ایوارڈ حاصل کیا۔ اس کے بعد انہیں فلم ’’بہارو پھول برسائو‘‘ اور ’’زینت ‘‘میں بہترین مزاحیہ اداکار کے نگار ایوارڈ ملے۔ 29 اپریل 1976ء کو منور ظریف دنیا سے رخصت ہوئے۔ لاہور میں بی بی پاک دامن کے قبرستان میں آسودہ ٔخاک ہیں۔
٭… ارفع کریم (آئی ٹی ایکسپرٹ )
2 فروری 1995ء ارفع کریم، دنیا کی کم ترین پاکستانی مائیکرو سافٹ سند یافتہ۔دنیا کی کم عمرترین آئی ٹی ماہر‘ ارفع کریم 2 فروری 1995 ء کو فیصل آباد کے چک 4-ج.ب، رام دیوالی میں پیدا ہوئی تھیں۔ اُنہوں نے 2004 میں صرف 9 سال کی عمر میں مائیکروسافٹ سرٹیفائڈ پروفیشنل کا امتحان پاس کرکے دنیا کی کم عمر ترین آئی ٹی اسپیشلسٹ کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ جس کے بعد مائیکروسافٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس نے ارفع کریم کو خصوصی طور پر امریکہ بلا کر ان سے ملاقات کی تھی۔ 2005ء میں انہیں وزیر اعظم شوکت عزیز نے فاطمہ جناح گولڈ میڈل اور 2006ء میں صدر پرویز مشرف نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور سلام پاکستا ن یوتھ ایوارڈ عطا کیا تھا۔ ارفع کریم کو 22 دسمبر2011ء کو مرگی کے دورے کے بعد طبیعت بگڑنے پر لاہور کے سی ایم ایچ ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں وہ تین ہفتے تک کومے کی حالت میں رہیں اور 14جنوری 2012ء کی شب انتقال کر گئیں۔
٭… شوکت تھانوی ( نامور مزاح نگار‘ شاعر اور صحافی)
2 فروری 1904ء‘ اردو کے نامور پاکستانی مزاح نگار‘ شاعر اور صحافی شوکت تھانوی کی تاریخ پیدائش ہے۔ جناب شوکت تھانوی کا اصل نام محمد عمر تھا اور وہ بندرابن ضلع متھرا میں پیدا ہوئے تھے۔آبائی وطن تھانہ بھون ضلع مظفر نگر تھا اور اسی نسبت سے تھانوی کہلاتے تھے۔ وہ ایک طویل عرصے تک لکھنو میں مقیم رہے جہاں انہوں نے مزاح نگاری‘ شاعری اور صحافت کے میدانوں میں جھنڈے گاڑے۔ 1930ء میں نیرنگ خیال کے سالنامے میں ان کا مشہور مزاحیہ افسانہ‘‘ سودیشی ریل‘‘ شائع ہوا جس کے بعد ان کا شمار اردو کے صف اول کے مزاح نگاروں میں ہونے لگا۔ قیام ِپاکستان کے بعد جناب شوکت تھانوی پاکستان منتقل ہوگئے اور پہلے کراچی اور پھر راولپنڈی میں مقیم ہوئے جہاں وہ روزنامہ جنگ راولپنڈی کے مدیر مقرر ہوئے تھے۔روزنامہ جنگ میں ان کے کالم ’’وغیرہ وغیرہ‘‘ اور پہاڑ تلے بھی قارئین میں بے حد مقبول تھے۔ جناب شوکت تھانوی کی تصانیف میں موج تبسم‘ بحر تبسم‘ دنیائے تبسم‘برق تبسم، سیلاب تبسم‘ سودیشی ریل‘ قاعدہ بے قاعدہ‘ نیلوفر‘ جوڑ توڑ‘ سنی سنائی‘ خدانخواستہ‘ بارخاطر، ان کی خودنوشت سوانح ’’مابدولت‘‘ اور خاکوں کا مجموعہ شیش محل شامل ہیں۔ شوکت تھانوی4 مئی 1963ء کو لاہور میں وفات پاگئے اور وہیں حضرت میاں میر کے قبرستان میں سپرد ِخاک ہوئے۔
٭… انتظار حسین ( ناول نگار، افسانہ نگار اور تنقید نگار)
2 فروری2016ء۔انتظار حسین اردو کے ایک ناول نگار، افسانہ نگار اور تنقید نگار تھے، انہوں نے ایک داستان اور آپ بیتی طرز پر دو کتابیں لکھیں۔حکومت فرانس نے ان کو ستمبر 2014ئمیں آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز عطا کیا۔ انتظار حسین کا انتقال 2 فروری 2016ء کو 92 سال کی عمر میں لاہور کے ایک ہسپتال میں ہوا۔انتظار حسین 7 دسمبر 1923ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ کالج سے بی اے کیا۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور میں قیام پزیر ہوئے جہاں جامعہ پنجاب سے ایم اے اردو کرنے کے بعد وہ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔ پہلا افسانوی مجموعہ ’’گلی کوچے‘‘ 1953ء میں شائع ہوا۔ روزنامہ مشرق میں طویل عرصے تک چھپنے والے کالم ’’لاہور نامہ‘‘ کو بہت شہرت ملی۔ اس کے علاوہ ریڈیو میں بھی کالم نگاری کرتے رہے۔ افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔
٭… محمد خالد اختر ( نامور ادیب )
2 فروری2020ء۔ اردو کے نامور ادیب محمد خالد اختر 23 جنوری 1920ء کو الہ آباد تحصیل لیاقت پور ضلع بہاولپور میں پیدا ہوئے۔ ان کی تصانیف میں ان کا ناول چاکیواڑہ میں وصال سرفہرست ہے جسے اس کے اسلوب کے باعث فیض احمد فیض نے اردو کا اہم ترین ناول قرار دیا تھا۔ محمد خالد اختر کی دیگر تصانیف میں 2011ء، کھویا ہوا افق، مکاتب خضر، چچا عبدالباقی، لالٹین اور دوسری کہانی اور یاترا کے نام شامل ہیں۔ 2001ء میں انہیں دوحہ قطر میں عالمی اردو ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ ٭2 فروری 2002ء کو اردو کے نامور ادیب محمد خالد اختر کراچی میں وفات پاگئے۔ محمد خالد اختر کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
٭٭٭