بہت پرانی بات ہے۔ شکیل عادل زادہ کے سب رنگ کے ایک شمارے میں سمپورن سنگھ گلزار کی شارٹ سٹوریز سے انتخاب کچھ کہانیاں شائع ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک کہانی کا عنوان “پندرہ آدمی” اور ایک کردار بوڑھا درگا داس ہمیں یاد ہیں۔
80 کی دہائی کےمشرقی پنجاب میں جاری دنگوں کےپس منظر میں لکھی اس کہانی میں ایک شخص ارد گرد جمع ہوئےلوگوں کو اخبار کی شہ سرخی پڑھ کر سنا رہاہےکہ ایک بس کو کرانتی کاریوں نےروک کر مسافروں کو بس سےاتارشناخت پریڈ کے بعد ایک قوم کے پندرہ آدمیوں کو الگ کیا اور گولیوں سے اڑاکر فرار ہوگئے۔
اخبار کی خبر میں لفظ پندرہ آدمیوں کی تکرار سے اوب کر پاس بیٹھا بوڑھا درگا داس بڑبڑاتا ہوا اٹھتا ہے “یہ اخبار والے نے کیا پندرہ آدمی پندرہ آدمی کی رٹ لگا رکھی ہے۔ آدمی تو وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔ ایک بھی آدمی ہوتا تو یہ سب کیوں ہوتا!”
درگا داس تو چادر کی بکل مار آہستہ آہستہ چلتا منظرسےفیڈ آوٗٹ ہوجاتاہےمگرہمارےآدمیوں کی گنتی ہےکہ ختم ہونےمیں ہی نہیں آتی۔ گئی رات پنجاب اوربلوچستان کی سرحدکےکچھ اندرموسٰی خیل کےعلاقےمیں ان گنت گاڑیوں کوروک کر شرپسندوں نےشناختی کاغذات کی بنیادپرتئیس آدمیوں،معاف کیجیےگالوگوں کوالگ کیااورگولیوں سےاڑا گاڑیوں کوجلا کرغائب ہوگئے۔
ہم اس بحث میں نہیں پڑیں گے کہ روکی گئی تمام گاڑیوں کے مسافروں میں کوئی آدمی بھی تھا یا نہیں ۔ یہ ضرور ہے کہ اس تخریبی کارروائی سمیت بلوچستان میں ہوئے دیگر دہشت گردی کے واقعات کے بعد سوشل میڈیا پر ہر دفعہ کی طرح ایک بینڈ ویگن چل پڑ ی ہے۔ اور طوفانی چال چلتی اس بینڈ ویگن پر بھی گستاخی معاف کوئی آدمی نہیں ہے۔ رات کو دہشت گردوں کی شناخت پریڈ کےبعد جان ہار جانے والے پنجابی کہلائےاور بچ جانےوالےبلوچی اسی طرح سوشل میڈیا کی بینڈ ویگن پربھی یاتو پنجاب کے حمایتی سوار ہیں یااپنی اچھلتی عزتیں سنبھالتےدہشت گرد ہونےکاطوق گلےمیں ڈالتے بلوچی۔ آدمی کوئی بھی نہیں ہے۔
کچھ لوگ طعنہ زن ہیں کہ بلوچوں کے حقوق کی آواز اٹھانے والوں کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی سرزمین پر قتل ہونے والے پنجابی کیوں نظر نہیں آتے۔ ان کی زبان پر اب کیا آبلے پڑگئے ہیں؟ کچھ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ پنجاب کو اپنی حاکمیت کا طعنہ دینے والی باقی قومیتوں کو ان مظلوم پنجابیوں کی لاشیں کیوں نظر نہیں آتیں! ایک کثیر تعداد لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ پنجابی اس ارضِ وطن کی سب سے مظلوم قوم ہے اور ایسے وقت میں جبکہ پنجابی قتل ہوگئے ہیں پٹ سیاپا کیوں نہ ڈالا جائے۔ اس سارے واو رولے میں یہ تو سب کو یاد ہے کہ تئیس لوگ جو مارے گئے وہ پنجابی تھے، جو گاڑیاں جلادی گئیں کیا وہ بھی سب کی سب پنجابی تھیں یا ان میں کوئی ٹرک، بس یا مزدا بلوچ بھی تھا؟
صاحبو، اس ارضِ وطن میں لاشیں گرنا تو کوئی نئی بات نہیں، مختلف صوبوں، مختلف قوموں اور مختلف مذاہب اور مذہبِ اسلام کے اندر مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والوں کی لاشیں گرتی رہی ہیں، گر رہی ہیں اور خاکم بدہن یہ سلسلہ تھمتا نظر نہیں آتا۔ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ جب بلوچستان کی سرزمین پر دہشت گردی کا واقعہ ہو تو پنجابی ۔ بلوچی بحث شروع ہوجاتی ہے۔ شانگلہ ، بشام یا پھر چلاس کی سرحد پر ان گنت دفعہ اسی بلیو پرنٹ کی کارروائی کے بعد پنجابی۔ پٹھان کی بحث کیوں نہیں چھڑتی بلوچستان کی سرزمین پر ہوئی دہشت گردی سے جس کی ذمہ داری بشمول بی ایل اے دوسری دہشت گرد تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں، بلوچی مین حیث القوم کیوں زیرِ بحث آتے ہیں۔ یہ تو بالکل ایسے ہے جیسے پنجابیوں کو کہا جائے کہ وہ سارے طالبان یا پھر سپاہِ صحابہ یا پھر لشکرِ جھنگوی کے دہشت گرد ہیں، یا خیبر پختونخواہ جس نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے کے لوگوں کو طعنہ مارا جائے کہ وہ سارے کےسارے طالبان ہیں۔ جس طرح سارے کے سارے سندھی کچے کے علاقے کے ڈاکو نہیں ہیں، سارے مہاجر ایم کیو ایم اور حقیقی کے عسکری ونگ کے دہشت گرد نہیں ہیں بالکل ایسے ہی ہمارے بلوچ بہن بھائی اسی ملک کے شہری ہیں۔ وہ علیحدگی پسند نہیں ہیں۔ بی ایل اے علیحدگی پسند ہے اور دوسری دہشت گرد تنظیمیں جو وہاں موجود ہیں بالکل ایسے ہی جیسے وہ یا ان جیسی اور دوسرے صوبوں میں موجود ہیں۔ ان کا مقابلہ ہم پاکستانی بن کر ہی کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور شناخت محض انتشار ہے اور کچھ نہیں
بات لمبی ہوگئی۔ نہ تو ہم کوئی دفاعی یا سیاسی تجزیہ کار ہیں اور نہ ہی ہماری نظر حالاتِ حاضرہ پر رہتی ہے کہ ہم خبروں پر تبصرہ کرتے پھریں۔ہم تو سیدھے سادے ایک بےضرر کہانی کار ہیں۔ گزری شب کاواقعہ اپنےگلزار کی لکھی کہانی کے تناظر میں یاد آگیا تو کچھ دل کی باتیں لکھ ڈالیں۔ ہمارے پڑھنے والوں کو جو باتیں بری لگیں یا کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو ہم معافی کےطلبگار ہیں۔ ہاں مگر جاتے جاتے یہ ضرور کہیں گے کہ جس طرح آج کی تاریخ میں پنجابی ایک مظلوم قوم ہےویسےہی جب اگلی جبری گمشدگی، اگلی غیر اعلانیہ حراست کابم ان لوگوں پر گرے گا تو ہمارے یہ مظلوم بلوچی بھائی اپنے پلے کارڈ اٹھائے سڑکوں پر نکلیں گے تو وہ بھی پنجابیوں کی طرح کے مظلوم ہی ہوں گے۔ انہیں تب بلوچستان میں ہوئی دہشت گردی کا طعنہ مت دیجیے گا۔ ان کا بی ایل اے سے اتنا ہی لینا دینا ہے جتنا ایک پختون کا طالبان سے یا ایک سندھی کا کچے کے ڈاکووٗں سے یا پھر ہم پنجابیوں کا پنجابی طالبان یا پھر لشکرِ جھنگوی یا پھر سپاہِ صحابہ سے۔ بلوچ ویسے بھی مظلوم قوم ہے۔ بہت زیادہ ضد پر آجائیں تو بس اپنے مقتولوں کے جنازے سامنے رکھ کر وزیرِ اعظم کی عافیت کی یقین دہانی کی آس پر بیٹھ جاتے ہیں۔ انہیں تو وقت کا وزیرِ اعظم بھی منہ نہیں لگاتا کہ یہ سالے ہوتے کون ہیں ایک منتخب وزیرِ اعظم کو اپنے مقتولوں کے لاشوں سے بلیک میل کرنے والے! ہنہ!
معنی کے کیا معنی ہیں؟
پشاور پختون خوا سے عثمان علی کا اصرار ہے کہ انھیں بتایا جائے: ’’معنی کے کیا معنی ہیں؟‘‘ سوال سن...