سید عباس رضا زیدی۔ گیارہ سالہ ادیب، شاعر، کمسن اسکالر اور کتاب دوست
چھٹی جماعت کا طالب علم گیارہ سالہ عباس رضا زیدی لگ بھگ دو ہزار کتب کی ورق گردانی کر چکے...
Read moreچھٹی جماعت کا طالب علم گیارہ سالہ عباس رضا زیدی لگ بھگ دو ہزار کتب کی ورق گردانی کر چکے...
Read moreسروائیکل کینسر: سیکس اور دو ماہواریوں کے درمیان خون کے غیر معمولی اخراج کو نظر انداز نہ کریں ____ کینسر...
رابرٹسن سمتھ کے خیال میں قربانی کی رسم قدیم مذہب کی اساس تھی وہ کہتا ہے کہ قربانی وہ نذرانہ...
مجھ سے کسی نے کومنٹ میں پوچھا کہ آپ کے ہاتھ میں جو ٹیٹو ہے اسکا کیا مطلب ہے اور...
بہت سے لوگ یہ شکایت کرتے ہوئے مونچھوں کو وٹ دیتے ہیں کہ چاند پر تو ہوا نہیں ہے پھر...
ایک گھنے پھل دار درخت سے اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق اپنی اپنی ضرورت اور حثییت کے مطابق کوئی نہ...
اردو زبان کے ممتاز دانش ور اور صاحب طرز شاعر اصغر یگانہ 12 فروری 1938ء کو موضع دھم، ریاست کپور...
سادہ اوربے فیض شب وروز میں بنے بنائے راستوں سے گزرتے ہوئے، الجھے سوالوں میں مزید الجھتے ہوئے دنوں میں،...
ایک ابہام اس وقت جنم لیتا ہے جب مصنف پر خود بھی اس کا مافی الضمیرواضح نہیں ہوتا۔ میراجی کی نظم ’’طالب علم‘‘ ایسے ابہام کی مثال ہے۔ اس نظم کے ابتدائی مصرعوں میں جن کرداروں کو متعارف کروا کرشعری تجربے کے ابلاغ کی کوشش کی گئی ہے۔ ان میں فکری و معنوی سطح پر کئی بعد شاعر کی منتشر خیالی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ نظم کے اختتام تک شاعر خود اس بات سے ناواقف ہو جاتا ہے کہ آخر وہ کہنا کیا چاہتا ہے۔ بنیادی متن میں بہت سے ذیلی متون کی شمولیت سے ابہام جنم لیتا ہے اور نظم کا ابلاغ شاعر کی ذہنی پیچیدگیوں اور الجھنوں کی نذر ہو جاتا ہے۔
ایک قسم کا ابہام اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کچھ ایسے خیالات تخلیق کار کے ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں جو دورانِ تخلیق اس وقت ظہور پذیر ہوتے ہیں جب تخلیق کار کا ذہن فوری طور پر ان کی ترسیل کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ میراجی کی نظم’’تن آسانی‘‘ میں اس قسم کا ابہام ہے۔
بعض اوقات دو یا دو سے زیادہ متبادل معنی کی یکجائی متن کی تفہیم میںدشواری کا سبب بنتی ہے اور ابہام جنم لیتا ہے۔ میراجی کی نظم ’’ایک تھی عورت‘‘ میں اس قسم کا ابہام موجود ہے۔ اس نظم میں میراجی نے اپنی قوت متخیلہ کو بروئے کار لاتے ہوئے چند ایسی بصری تمثالیں وضع کی ہیں جن کے ذریعے دو سے زیادہ متبادل معنی کی یکجائی نظم میں ابہام کا پیشِ خیمہ ثابت ہوئی ہے۔ اس قسم کا ابہام قاری کو ایک تناظر میں متن کی تعبیر پر آمادہ کرتا ہے۔
مضمون کے آخر میں احتشام علی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جدید اردو نظم کی شعریات کو اب ایسے نئے تنقیدی پیمانوں پر پرکھنے کی اشد ضرورت ہے جو نظموں کی تفہیم ایک نئے تناظرمیں کر سکیں۔ تنقید کے جدید نظریات اور رجحانات کی روشنی میں میراجی کی نظموں کا مطالعہ میراجی کے علمی وفکری سفر کے نئے منطقے دریافت کرنے کا سبب بھی بنے گا اور ان کے کلام کے ابلاغ کے مسئلے کو بھی حل کرے گا۔ اس طرح میراجی کے کلام کی تفہیم سہل ہو جائے گی اور اس کی معنویت میں اضافہ ہو گا۔
میراجی کے حوالے سے دونایاب تحریریں بھی اس شمارے کی خصوصی پیش کش ہیں پہلی تحریر ’’تعارف‘‘ کے عنوان سے محمود ہاشمی کی ہے۔ ان کے خیال میں میراجی کی شخصیت میں کئی براعظموں کی ادبی تحریکات، شخصیات اور افکار و خیالات جمع ہیں۔ میراجی، غالب کے بعد فن کی نجات اور نئی زندگی بخشنے والا، اردو اب کا دوسرا محور ہے۔ اقبال اپنے عروج او رمیراجی اپنے آغاز میں ایک دوسرے کے ہم عصر ہیں لیکن وہ دونوں ایک دوسرے سے ناآشنا رہے۔
وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ:
’’میراجی کی شخصیت، علامہ کے تناظر میں، بے حد عجیب نظر آتی ہے۔ آنے والی نسل، میراجی کے اسلوب کو، میراجی کے طرزِ احساس کو، میراجی کے نظریہ شعر کو قبول کرتی ہے اور علامہ کا اثر۔۔۔ ان کے اپنےArena (میدان) سے باہر نہیں نکل پاتا علامہ ایک پروقار ’’یادگار‘‘ کانقش بن جاتے ہیں اور میراجی آنے والوں کا ہمسفر۔۔۔ میراجی ہنوز نئے آنے والوں کا ہم سفر ہے۔‘‘(۴۵(
ان کے مطابق علامہ کے فلسفہ شعر کی بنیاد ایک پوری ملت کے ماضی، حال اور مستقبل پر تھی۔ ان کی شاعری کا کینوس مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا تھا۔ جبکہ میراجی کی شاعری ان کی شخصیت کا عریاں اظہار ہے اور اس کا کینوس بادی النظر میںبہت وسعت بھی نہیں رکھتا۔
محمود ہاشمی ایک سوال اٹھاتے ہیں کہ میراجی میںوہ کون سی پر پُراسرار قوت ہے، جو آج کی شاعری سے، اس کے رشتے کو کمزور نہیںہونے دیتی؟وہ خود ہی جواب بھی دیتے ہیں کہ آج کے جدید ذہن او رعمومی بورژ وا معاشرتی فکر کے درمیان جو کش مکش ہے اسی کش مکش کا محور، میراجی کی ذات ہے۔ اُن کی شاعری اسی کش مکش میں اظہار کی علامتی کامیابی کو نمایاں کرتی ہے اور یہ رشتہ اس وقت تک کمزور نہیں ہو سکتا جب تک تخلیق کو آزادانہ اظہار تصور کیا جا تا رہے گا۔
دوسری تحریر اخلاق احمد دہلوی (میراجی کے دوست) کی لاہور کے ڈاکٹر اے۔ ڈی۔ فرزوق سے اتفاقیہ ملاقات کے دوران گفتگو ہے۔ اے ڈی۔ فرزوق میراجی کے کلاس فیلو تھے۔ اس گفتگو کا ذکر اخلاق احمد دہلوی نے اپنے مضمون ’’میراجی کا اخلاق‘‘ میں بھی تفصیلاً کیا ہے۔ ڈاکٹر رشید امجد نے بھی اپنی کتاب ’’میراجی شخصیت اور فن‘‘ میں اس کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔
اس کے بعد جدید ادب (میراجی نمبر) پر مختلف تبصرے ہیں۔ عبداللّٰہ جاوید کا تبصرہ سب سے بھرپور ہے۔ ڈاکٹر محمد شفیع چوبدار کا تبصرہ بھی خاصے کی چیز ہے۔ عامر سہیل، مدثر بلال اور ارشد خالد کے تبصرے مختصر لیکن جاندار ہیں۔ انگریزی میںڈاکٹر امجد پرویز کا تبصرہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔
شعبۂ اردو پنجاب یونیورسٹی لاہور کی جانب سے فیض صدی اور میراجی صدی کے سلسلے میں ایک روزہ قومی سیمینار کی روداد اقراء اسلم اور مدثر جمیل نے تحریر کی ہے۔ عالمی اردو کانفرنس کراچی کے زیرِ اہتمام میراجی سیشن ہوا۔ اس سیشن کی رپورٹس بھی اس شمارے میں شامل ہیں۔
’’حقیقت حال‘‘ کے عنوان سے جو حصہ ’’نایاب‘‘ میں شامل ہے۔ اس میں ایک مضمون ’’میراجی جنسی مریض یا جینیئس‘‘ کے عنوان سے ظفر سید کا ہے۔ یہ مضمون بی بی سی کی ویب سائٹ پر ۲۵ دسمبر ۲۰۱۲ء میں شائع ہوا۔ یہی مضمون ۲۷ دسمبر ۲۰۱۲ء کو دہلی کے روزنامہ ہمارا مقصد نے شائع کیا۔
اس مضمون میں وہ لکھتے ہیں:
’’دو ہزار دس فیض صدی تھی۔ دو ہزار گیارہ راشد صدی، دو ہزار بارہ منٹو صدی۔ اس دوران اردو کے ان گراں ڈیلوں پر درجنوں کتابیں تحقیقی و تنقیدی کتابیں چھاپی گئیں، پُر مغز سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کی گئیں، الیکٹرانک میڈیا نے خصوصی پروگرام ترتیب دیے، ادبی رسالوں نے خاص نمبر چھاپے۔
لیکن اس تمام ہائو ہو میں کسی کو ایک نام یاد ہی نہ رہا، یا اگر یاد بھی رہا تو محض سر سے بوجھ اتار نے کی مانند۔ وہ نام جس نے اردو میں جدیدیت کی داغ بیل ڈالی۔۔۔ یہ میراجی ہیں۔‘‘(۴۶(
میراجی صدی کے آغاز سے پہلے ہی میراجی پر کام ہونا شروع ہو گیا تھا۔ وہ کام سر سے بوجھ اتارنے کی مانند نہیں بلکہ سچے دل سے ہونے لگا تھا۔ ’’عکاس‘‘ انٹرنیشنل اسلام آباد کے شمارہ ۱۴ میں مطالعۂ خاص کے عنوان سے میراجی کا ایک مختصر مگر عمدہ گوشہ (ستمبر ۲۰۱۱ء میں) ارشد خالد صاحب نے شائع کیا۔ ۲۰۱۱ء میں میراجی صدی شروع ہونے سے پہلے انٹرنیٹ پر ایک بلاگ قائم کیا گیا۔
http://poetmeeraji.blogspot.com/
اس بلاگ پر کسی بھی ویب سائٹ سے زیادہ میراجی سے متعلق مواد موجود ہے۔ ۲۰۱۱ء میں مصر سے میراجی پر ایم اے کا مقالہ لکھا گیا۔ ۲۰۱۲ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اشفاق رضانے ’’ اردو میں میراجی شناسی‘‘ کے عنوان سے اپنا ایم فل کا مقالہ مکمل کیا۔ ۲۰۱۲ء میں راقمۃ الحروف نے خود پی ایچ ڈی کی رجسٹریشن ’’اردو میں میراجی شناسی کی روایت کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے عنوان کے تحت کرائی۔ جدید ادب جرمنی کا میراجی نمبر شائع ہوا۔ اس سے پہلے بھی میراجی پر کافی کام ہو چکا ہے۔ ۲۰۱۲ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں میراجی پر سیمینار ہوا۔ کراچی کی اردو کانفرنس میں میراجی سیشن ہوا۔ اس کے علاوہ نایاب کا میراجی نمبر، دنیا زاد میں میراجی کا گوشہ شائع ہوا۔ ڈیلی ڈان کی ۴ نومبر ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں میراجی کے متعلق پانچ مضامین ایک ساتھ شائع ہوئے۔ یہ میراجی پر ہونے والے کام کی ایک اجمالی جھلک ہے یہ سارا کام انتہائی عقیدت و احترام سے سر انجام پایا ہے۔ ظفر سید کی تحقیق کی خامی ہے یا پھر علمی بددیانتی کہ وہ میراجی پر ہونے والے اتنے سارے کام سے بے خبر رہے۔ ویسے بھی اس مضمون میں میراجی سے متعلق کوئی خاص بات نہیں۔ انہوں نے جن باتوں کا ذکر کیا ہے وہ تمام جدید ادب جرمنی کے میراجی نمبر میں موجود ہیں۔ سعید شباب صاحب، مدیر نایاب نے نایاب کے میراجی نمبر میں ہی ’’سب کے اپنے میراجی‘‘ کے عنوان کے تحت میراجی پر ہونے والے مثبت او رمنفی دونوں طرح کے کارناموں کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ آئندہ انشاء اللّٰہ میراجی شناسی کا مثبت انداز سامنے لایا جائے گا اور میراجی کی روح اور میراجی کے چاہنے والے لازماً اس سے خوش ہوں گے۔ یہ ادبی دیانت داری بھی ہو گی۔
…………………………………………
“اُردو زبان میں لکھا گیا محترمہ قانتہ خدیجہ کا ناول ’’تم ساتھ ہو جب اپنے‘‘ اب پنجند ویب سائٹ اور...
( تاریخ وفات: 15وفات نومبر 2020 ) میناؔ نقوی اس جہان آب و گل سے چل بسیں جذبۂ نسواں کی...
✒️ "ن۔۔۔۔۔نئیں۔۔۔نئیں۔۔۔! اوں۔۔۔اوں۔۔۔۔! مجھے عیدی کےپورے پیسے چاہیے!" دس سالہ محمد تفہیم الدین یہ کہتا ہوا بس روئے جا رہا...