سید فخرالدین بلے۔ ایک خوش فکر شاعر۔ دیدہ ور ادیب اور بزرگ صحافی
سادہ اوربے فیض شب وروز میں بنے بنائے راستوں سے گزرتے ہوئے، الجھے سوالوں میں مزید الجھتے ہوئے دنوں میں،...
Read moreسادہ اوربے فیض شب وروز میں بنے بنائے راستوں سے گزرتے ہوئے، الجھے سوالوں میں مزید الجھتے ہوئے دنوں میں،...
Read moreگذشتہ دنوں مشتاق احمدیوسفیؔ کےایک مضمون کےمشمولات، اردوکانفرنس میں ضیامحی الدین کےاسی مضمون سےایک اقتباس کی پڑھنت کےاندازاورحاضرین کےداددینےکےاطوارایک تنقیدکانشانہ...
سید فخرالدین بلے فیملی اور محسن نقوی، داستانِ رفاقت ولادت : 5۔ مٸی 1947 . ڈیرہ غازی خان شہادت :...
افسانہ : انقلاب ۔ افسانہ نگار : زيب سندھی ۔ اردو ترجمہ : آکاش مغل انتخاب : ظفر معین بلے...
(پلڈاٹ (پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی) رپورٹ) اہم جھلکیاں: 2022 جمہوریت کے لیے مایوس کن سال تھا۔ اقتدار...
حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیھا کی منظوم سوانح زندگی منظرِ عام پر آ گئی ، دوہزار تیئیس کی...
چھتر آزاد کشمیر کے ضلع مظفرآباد کا ایک نہایت اہم علاقہ ہے۔ چھتر کو دو حصوں میں منقسم کر کے...
پاکستانی سپاہیوں، آئی ایس آئی کے افسران، پولیس اہلکاروں اور عام شہریوں پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے...
وہ چند روز کے لیے سڑک کے راستے مغربی یورپ کےکچھ ملکوں کی سیرکرنے نکلا تھا۔ اظفر ان اسفار میں اس کے ہمراہ تھا۔ اسے لگا تھا اگرروس پاکستان سے بہتر تھا تو یورپ روس سے کہیں بہتر۔ جب گاڑی پولینڈ سے جرمنی میں داخل ہوئی تھی توسڑک اتنی ہموار ثابت ہوئی تھی کہ کافی یا چائے کا کپ چلتی گاڑی میں چھلک نہ پائے۔ اسے جرمنی میں پاکستانی نوجوانوں کو کوڑے کے تھیلے اٹھا کرٹرک میں ڈالتے دیکھ کر دکھ ہوا تھا۔ اسے حیرت ہوئی تھی کہ ایمسٹرڈیم میں کیفے باروالے نے چرس سے بھرے دوسگریٹ انہیں بیچے تھے، جب انہوں نے جھجھکتے ہوئے کہا تھا کہ کہاں بیٹھ کر پئیں تواس نے لا پرواہی سے کہا تھا جہاں جی کرے، بارکے اندریا باہر بچھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ کر۔ دن کے بارہ بجے تھے، طغرل اوراظفرسڑک کے کنارے بچھی کرسیوں پر بیٹھ کر چرس بھرا "جوائنٹ" پی رہے تھے۔ ساتھ ہی ایک یورپی جوان شخص بیٹھا شغل کر رہا تھا۔ اس نے پوچھا تھا: کہاں سے آئے ہو؟ طغرل نے بتایا تھا: روس سے۔ اس نے پوچھا تھا: کب تک قیام ہوگا؟ طغرل نے کہا تھا: رات کو پیرس کے لیے روانہ ہونا ہے۔ کس ذریعے سے؟ اس نے پوچھا تھا۔ ہم ٹوربس پر ہیں، طغرل نے بتایا تھا۔ یہ جوان شخص برطانیہ سے تھا جس کا کہنا تھا کہ وہ ہر ہفتے "حیش" پینے کی خاطرایمسٹرڈیم پہنچتا تھا۔ اس نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ "حیش کوکیز" لے لو، جسے کھا کر تم لوگ بس میں بیٹھے ہو گے مگر "پرواز" کروگے۔ طغرل نے اس کی بات نہیں مانی تھی۔
انہوں نے کشتی میں بیٹھ کر نہروں کی سیر کرتے ہوئے، ہینیکن بئیر کے کئی کئی کین چڑھا لیے تھے۔ جب دواڑھائی بجے کے نزدیک طغرل کا ایک دیرینہ دوست جو دارالحکومت کے نواحی قصبے میں رہتا تھا، اس سے ملنے پہنچا تھا اورانہیں کھانا کھلانے ایک ہندوستانی ریستوران میں لے گیا تھا تو طغرل اتنا "ٹن" تھا کہ ڈھنگ کی کوئی بات نہ ہو سکی تھی۔ البتہ کھانا کھانے کے بعد نشہ ڈھیلا پڑا تھا۔ طغرل، طغرل کا دوست اور اظفر، ٹور کے ساتھی مردوں اور عورتوں کے ساتھ ایمسٹر ڈیم کا "ریڈ لائٹ ایریا" دیکھنے چلے گئے تھے، اس جگہ کو دیکھنے کی خاطرعورتوں کے علاوہ سیاحت کی غرض سے ماں باپ کے ساتھ آئے ہوئے نوعمر بچے بھی موجود تھے۔ یہاں کسبیاں اپنے کوٹھوں کو آفس کہتی ہیں۔ کام کے اوقات کارمقررہیں اورعمرڈھلنے کے بعد انہیں باقاعدہ پنشن ملتی ہے۔ پیشہ ور عورتوں کا باقاعدگی کے ساتھ طبی معائنہ ہوتا ہے۔ دلال یہاں بھی ہیں لیکن وہ غنڈے نہیں بلکہ دفتروں کے دربان ہیں۔ بتایا گیا کہ ان خواتین میں امریکہ کی یونیورسٹیوں کی کچھ طالبات بھی تھیں جو اپنی تعلیم کے اخراجات اکٹھے کرنے آئی تھیں اورکچھ وقت "کام" کرنے کے بعدامریکہ میں اپنی یونیورسٹیوں میں لوٹ جائیں گی کیونکہ یہاں ان کی کمائی امریکہ کے پانچ ساڑھے پانچ ہزار ڈالر کے مساوی ہوتی تھی۔ طغرل نے کہا تھا، "مجھے یہ سب غیر انسانی اور مشینی لگتا ہے" اس کے دوست نے کہا تھا، "اس میں کیا غیر انسانی ہے، ایک کا کام ہے اور دوسرے کی ضرورت، جس کا کام ہے وہ معاوضہ لے کردوسرے کی ضرورت پوری کر دیتا ہے" طغرل کو اپنے اس انسان دوست یار کی بات کچھ عجیب لگی تھی۔
وہ جب وہاں سے لوٹے تھے تو قریبا" دس بجے تھے، بس کو رات کے بارہ بجے پیرس کے لیے روانہ ہونا تھا۔ کھانا تو ویسے ہی وہ پیٹ بھرکرکھا چکے تھے۔ طغرل اور اظفر ایمسٹر ڈیم کی بڑی نہر کے ساتھ ساتھ ٹہلنے لگے تھے۔ اظفرکویاد آیا تھا کہ ایک بھرا ہوا سگریٹ اب بھی اس کی جیب میں محفوظ تھا۔ وہ پینے کو تھے کہ طغرل کو سامنے سے دو پولیس والے آتے دکھائی دیے تھے۔ طغرل نے گھبرا کر کہا تھا، " اظفر دھیان کرو، پولیس والے آ رہے ہیں" اظفر بھی ٹھٹھکا تھا، پھر اس نے بے اختیار کہا تھا،" طغرل صاحب یہاں چرس پینا قانونی ہے" اور دونوں کے قہقہے چھوٹ گئے تھے۔ وہ کش لینے لگے تھے، اتنے میں پولیس والے نزدیک سے گذرے تھے۔ ان دونوں نے ان دونوں کو خوش دیکھ کر ماتھے تک ہاتھ اٹھا کر سلیوٹ کیا تھا اورمسکرائے تھے۔ کیا آزادی تھی، سبحان اللہ!
اس سے پہلے کی رات انہیں بلجیم کے شہر اینٹ ورپ جسے وہاں اینٹ ورپن کہتے ہیں، کے ایک ہوٹل میں بسرکرنی پڑی تھی۔ وہ ٹیلفون کرنے کے لیے رات کے ساڑھے دس بجے کے قریب ہوٹل سے نکل گئے تھے۔ ایک مقامی سفید فام سے پبلک کال آفس کے بارے میں پوچھا تھا۔ اسے شاید انگریزی زبان نہیں آتی تھی،مگر ہاتھ کان پررکھ کے کیا جانے والا ٹیلیفون کا اشارہ سمجھ گیا تھا۔ اس نے اشارے سے راستہ دکھا دیا تھا مگر ساتھ ہی انگوٹھے سے گردن کاٹنے کا اشارہ کرکے پتہ نہیں کیا بتانا چاہا تھا کہ راستے میں غنڈے ہیں یا پی سی او والے زیادہ پیسہ لے کر ہلاک کرتے ہیں۔ پی سی او جوملا وہ پاکستانی نوجوانوں کا تھا جنہوں نے بہت اصرار کے بعد فون کرنے کے پیسے لیے تھے۔
طغرل نے اظفر سے کہا تھا کہ بلجیم کی بئیر بہت مشہور ہے، پینی چاہیے۔ ایک انگریزی بولنے والا مقامی نوجوان مل گیا تھا۔ اس نے قریب ہی اینٹ ورپن کی بیسٹ بیئربارکا راستہ دکھایا تھا۔ وہاں ایک گنجا، سنجیدہ، معنک شخص تھا جو بیئر لینے کے لیے صبر کرواتا تھا۔ پہلے شیشے کے گلاسوں کو ٹھنڈے برف پانی کی ٹونٹی کے نیچے تین سے چارمنٹ تک رکھتا تھا، بار باران میں بھرا گیا پانی الٹاتا تھا۔ ایسے کوئی آٹھ گلاس اس نے رکھے ہوئے تھے۔ جو گلاس اس کے مطابق ٹھنڈا ہوتا اس میں بیئرانڈیل کر دے دیتا تھا۔ بیئر انڈیلنے کے ساتھ ہی گلاس کی سطح پرنمی سے بوندیں ابھرنے لگتی تھیں۔ ایک گاہک نے جلدی کرنے کا اشارہ کیا تھا تو اس خاموش طبع بیئرفروش نے اسے ہاتھ سے راستہ ناپنے کو کہا تھا۔ طغرل اور اظفر چپ کھڑے باری کا انتظار کرتے رہے تھے۔ بیئر کا ویسا ذائقہ اور لطف نہ کبھی پہلے طغرل کو آیا تھا اور نہ کبھی اس کے بعد جب تک جب طغرل نے پینا یکسر ترک نہیں کردی تھی۔
ماورائیت کے حوالے سے طغرل کی سوچ میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آ سکی تھی۔ کونیات اور متوازی نفسیات پڑھنے کے بعد بھی اس کی تشکیک میں شاید ہی کمی آئی تھی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“اُردو زبان میں لکھا گیا محترمہ قانتہ خدیجہ کا ناول ’’تم ساتھ ہو جب اپنے‘‘ اب پنجند ویب سائٹ اور...
( تاریخ وفات: 15وفات نومبر 2020 ) میناؔ نقوی اس جہان آب و گل سے چل بسیں جذبۂ نسواں کی...
✒️ "ن۔۔۔۔۔نئیں۔۔۔نئیں۔۔۔! اوں۔۔۔اوں۔۔۔۔! مجھے عیدی کےپورے پیسے چاہیے!" دس سالہ محمد تفہیم الدین یہ کہتا ہوا بس روئے جا رہا...