معاملات کو ذاتی طور پر کیسے نہ لیا جائے
اگر کوئی آپ سے کہے کہ فلاں شخص آپ کے خلاف برا کہہ رہا ہے تو آپ کا پہلا ردِ...
Read moreاگر کوئی آپ سے کہے کہ فلاں شخص آپ کے خلاف برا کہہ رہا ہے تو آپ کا پہلا ردِ...
Read moreرابرٹسن سمتھ کے خیال میں قربانی کی رسم قدیم مذہب کی اساس تھی وہ کہتا ہے کہ قربانی وہ نذرانہ...
مجھ سے کسی نے کومنٹ میں پوچھا کہ آپ کے ہاتھ میں جو ٹیٹو ہے اسکا کیا مطلب ہے اور...
اُردو میں ایک ضربِ المثل ہے کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ مگر اس سے آگے بتانا بھول جاتے ہیں...
ایک گھنے پھل دار درخت سے اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق اپنی اپنی ضرورت اور حثییت کے مطابق کوئی نہ...
اردو زبان کے ممتاز دانش ور اور صاحب طرز شاعر اصغر یگانہ 12 فروری 1938ء کو موضع دھم، ریاست کپور...
سادہ اوربے فیض شب وروز میں بنے بنائے راستوں سے گزرتے ہوئے، الجھے سوالوں میں مزید الجھتے ہوئے دنوں میں،...
مجھے لگتا ہے کہ مجلہ ”بساط“ Bisaat کے ساتھ وادیئ نیلم کے فرہاد کا نام ایسے جُڑ جائے گا جس...
چند روز بعد حسام اور نتاشا باقی طلباء کے ہمراہ تفریح گاہ سے لوٹ آئے تھے۔ چونکہ "بڈھے شہباز" کی اہلیہ نے ان کی عدم موجودگی میں طغرل کی اکتاہٹ دور کرنے کی خاطر اس کا ساتھ دیا تھا اس لیے وہ کبھی کبھار ملاقات کرنے ان کے کمرے میں چلا جاتا تھا۔ ایسی ہی ایک ملاقات سے لوٹنے کے بعد وہ رضائی اوڑھ کر لیٹا ہوا تھا کہ "بڈھے شہباز" نے آ کر دروازہ کھولا تھا اور اول فول بکنے لگا تھا۔ طغرل کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔ لگتا تھا کہ اسے کوئی غلط فہمی ہو گئی تھی کہ وہ اس کی بیوی کے ساتھ دست درازی کر کے آیا تھا۔ وہ غیرت کا مظاہرہ کرنے کے لیے طغرل کے ساتھ دست و گریبان ہونے آیا تھا۔ اس سے پہلے کہ طغرل اس کا جواب دینے کے لیے بستر سے بلند ہوتا حسام نے کاریڈور سے آ کراسے پکڑ لیا تھا اور گھسیٹا ہوا، بے عزت کرتے ہوئے اس کے کمرے تک چھوڑ آیا تھا۔ شاید "بڈھا شہباز" پیے ہوئے تھا۔ اس کے بعد طغرل ان میاں بیوی سے کبھی نہیں ملا تھا۔
ایک روز ہوسٹل کے ایک اور کمرے میں طغرل کی ملاقات میر شہباز کے ساتھ ہوئی تھی۔ طغرل سمیت سب پیے ہوئے تھے۔ طغرل نے پیار کے کسی پرتشدد انداز میں اس کے گلے میں پڑے مفلر کو بل دے کر اس کی گردن کے گرد کس دیا تھا مگر وہ کمال تعظیم سے برداشت کرتا رہا تھا۔ ایسا کرنے کی وجہ کیا تھی اس کے بعد ان دونوں کو کچھ بھی یاد نہیں رہا تھا۔
حسام اور نتاشا نے طغرل کو روس کی معروف سرکس دکھانے کے لیے اس پرتشدد ملاقات سے اگلے روز کے ٹکٹ خریدے ہوئے تھے۔ حسام نے بتایا تھا کہ سرکس اس ہوسٹل کے نزدیک واقع ہے جہاں میرشہبازرہتا تھا۔ طغرل حسام کے بتائے ہوئے پتے پر میرشہباز سے ملنے چلا گیا تھا۔ میرشہباز اپنے کمرے میں لیٹا ملا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ وہ کسی "نئی لڑکی" کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کے کمرے میں بیئر کے کریٹ رکھے ہوئے۔ ان دونوں نے بیئر پینا شروع کر دی تھی۔ طے یہ تھا کہ طغرل مقررہ وقت پر سرکس کی عمارت کے باہر حسام اور نتاشا سے آ ملے گا اور وہ پھر سرکس دیکھیں گے۔ آب جو پینے کے دوران میرشہباز نے طغرل سے کہا تھا کہ بندروں، کتوں کا تماشا دیکھ کر آپ کو کیا لطف آئے گا؟ بہر حال وہ سرکس کے باہران دونوں سے ملا تھا اور سرکس کی عمارت میں داخل ہو کر ان کے ساتھ بیٹھا بھی تھا مگر الکحل کے اثر سے اسے ہرچیز دو دو چار چار دکھائی دے رہی تھی اور جونہی جانوروں کے کرتب شروع ہوئے تھے وہ جھلاتے ہوئے سرکس سے نکل کر ایک بار پھر میرشہباز کے پاس پہنچ گیا تھا۔ پھر سے بیئر کے دور شروع ہو گئے تھے۔ کہیں رات گئے وہ حسام کے کمرے میں پہنچا تھا اور دھڑام سے گر کر سو رہا تھا۔
طغرل چونکہ اپنی بیوی کے ساتھ اختلافات اور جھگڑوں کے تشنج سے بچنے کے لیے ملک چھوڑ کر یہاں آیا تھا اس لیے وہ جب کچھ زیادہ چڑھا لیتا تھا تو اس کے سارے دکھ مغز کے کسی نہاں خانے سے برآمد ہو کر لطف آمیزی کو اکثر لطف شکنی میں بدل دیا کرتے تھے۔ ویسے بھی شراب خانہ خراب ایک خاص حد تک برداشت کی جا سکتی ہے۔ اس حد کو پار کر جانے سے شراب اپنے پینے والے کو برداشت کرنے سے انکاری ہو جاتی ہے۔ الکحل کی کیمیا سے مقابلہ کرنا عقلمندی ہے ہی نہیں۔ دوسرے یہ کہ "شراب نا آشنا" معاشرے کے افراد شراب نوشی کے کلچر سے نہ تو شناسا ہیں اور نہ ہی ہم آہنگ۔
روسی وادکا کا اثر سر چڑھ کر بولتا تھا اور طغرل کی اکثر حسام سے ٹھن جایا کرتی تھی۔ وہ بیچارہ تو اس کی آسائش کی خاطر جو کچھ اس سے بن پڑتا تھا کیا کرتا تھا مگر طغرل کو بھی تو اپنا نزلہ گرانے کے لیے وہی میسّر تھا۔ ایسی ہی ایک چپقلش کے بعد طغرل کہیں اور جانے کے لیے جب اس کے کمرے سے نکل کر لفٹ تک گیا تھا تو اس کے دماغ نے کچھ کام کیا تھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ کیوں کسی اور کے پاس جا کر اپنے میزبان کی مہمان نوازی کو داغدار کرنے کی حماقت کر رہے ہو اور وہ لوٹ آیا تھا۔
میری آنکھوں میں لہو کے کچے ڈوروں کا یہ جال
وادکا کی دین" ہے یا "آنسووں کا انتقال"
آنکھ میں پیچھے کہیں پر پردہ اعصاب پر
تیری یادوں کے جھماکے، اس طرح جل بجھ رہے ہیں
جیسے برقی ویلڈنگ ۔ ۔ ۔
کاش میری آنکھوں میں پیچھے کہیں
سوچوں پہ ہرجائی پنے کے کالے موٹے لینز ہوتے
میں کبھی بھی رت جگے سے، مے کشی سے
اور گریاں باری سے واقف نہ ہوتا
اور شکی لوگوں کے شک کا نہ ہوتا احتمال
طغرل کو حالات ہرجائی پن کی جانب دھکیل رہے تھے ورنہ وہ تو گذشتہ تیرہ برس سے ایک ہی در کے سنگ آستاں پر سجدہ ریز تھا۔ بلعم باعور کی تمام عبادت خاک میں مل رہی تھی۔ عزت غیر ملک کے ایک دارالحکومت میں پامال ہو رہی تھی مگر اس بارے میں جاننے والا تھا بھی کون ؟ ایک حسام اور دوسری نتاشا۔ وہ اپنے جھگڑوں کی کسی کو ہوا تک نہیں لگنے دیتے تھے۔ اس رات جب طغرل کہیں اور جانے کی خاطر اٹیچی کیس میں کپڑے ٹھونس رہا تھا، اسے احساس ہوا تھا کہ بہت سے کپڑے میلے ہو چکے ہیں۔ اگلی صبح کو ہوشمندی کے عالم میں اس نے حسام سے کہا تھا کہ شست شوئی کا کوئی بندوبست کیا جانا چاہیے۔ اس نے جواب دیا تھا کہ کل بعد ازسہ پہرچلیں گے۔
بعد از سہ پہر حسام نے میلے کپڑوں کو ایک رگ سیک میں ٹھونس کر پیٹھ پر لاد لیا تھا اور وہ دونوں پیدل چلتے ہوئے شست شوئی (کپڑے دھونے ) کی ایک "ہال" نما دکان تک پہنچے تھے جس کے داخلی دروازے پرہی ایک عورت نے ہاتھ جھلاتے ہوئے جھلاہٹ کے انداز میں کہا تھا کہ دکان بند ہو چکی ہے۔ غالبا" چھٹی کا دن تھا ، دکان کو مندرج معمول کے مطابق پانچ بجے بند ہونا تھا مگر ابھی پانچ بجنے میں دس پندرہ منٹ باقی تھے۔ حسام نے طغرل سے کہا تھا کہ آپ یہاں ٹھہریں، میں ابھی آتا ہوں۔ چند منٹ بعد وہ سستے سے تین پھول بمع پتیوں بھری دنٹھلوں کے لے کر آ گیا تھا۔ اس نے جھلائی ہوئی عورت کو وہ پھول پیش کرکے اس کے گال پر بوسہ دیا تھا تو عورت نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ میلے کپڑے جلدی سے وہاں رکھے ہوئے ایک دھاتی ڈبے میں ڈھیر کر دو، ساتھ ہی اس نے جلدی سے ایک رسید بنا دی تھی اور ان کے نکلتے ہی دروازہ بند کرکے اندر "زکریتو" یعنی بند ہے کی پھٹی آویزاں کر دی تھی۔
دوکانداری کا یہ انداز طغرل کے لیے بالکل انوکھا تھا۔ دراصل جب تک ذاتی منفعت پیش نظر نہ ہو لوگوں کے لیے کیا جانے والا کام محض یکسانیت بن کر رہ جاتا ہے چنانچہ لوگ کام کو مصیبت سمجھتے ہوئے اس سے جتنی جلدی ممکن ہو سکے مختلف حیلے بہانے بنا کر جان چھڑانے کی سعی کرنے لگتے ہیں۔ کپڑے دھونے والی دکان کی ملازمہ کو دیے گئے تین سستے پھول اورایک غیر جذباتی بوسہ اس کا شخصی مفاد بن گئے تھے یوں اس نے اپنے طور پر اوقات کار کی بندش کا اعلان کیے جانے کے باوجود ان کے میلے کپڑے دھونے کی خاطر قبول کر لیے تھے۔ مقررہ دن جب وہ دھوئے ہوئے کپڑے وصول کرنے گئے تھے تو اس عورت نے بڑی حیرت سے پوچھا تھا کہ ان کپڑوں میں ایک دوہری قسم کا عجیب و غریب پردہ کیا ہے۔ وہ اس سے بھی زیادہ حیران ہوئے تھے کہ پردہ وہ کس لباس کو کہہ رہی تھی۔ حسام نے بندھا ہوا بنڈل کھڑے کھڑے کھول لیا تھا۔ ان دنوں یہاں پیکٹ نہیں ہوتے تھے اس لیے ہرچیز اورخاص طور پر کپڑے، خاکی رنگ کے موٹے کاغذ میں لپیٹ کر سیڑھ سے باندھ کر دینے کا رواج تھا۔ جب بنڈل کھول کر اس سے استفسار کیا تھا کہ کس پارچے کو وہ پردہ کہہ رہی تھی تو اس نے ان میں سے طغرل کی شلوار نکال کر دکھا دی تھی جسے اس نے پردے کی مانند ہی استری کر دیا تھا۔ اس کے لیے اس قسم کی "چیز" بالکل ہی نئی شے تھی اس لیے اسے اس پر پردہ ہونے کا گمان ہوا تھا۔ جب حسام نے اسے بتایا تھا کہ یہ انکے "قومی لباس" کا زیریں جزو ہے تو وہ خاصی شرمندہ دکھائی دینے لگی تھی۔
کچھ روز بعد طغرل کی لائی گئی دو جیکٹوں کے پیسے مل گئے تھے جو ان کی قیمت خرید سے اڑھائی گنا زیادہ تھے۔ دو ایک روز پہلے جب وہ اس لڑکے سےملنے گئے تھے جو طغرل سے اس کے ملک کے ہوائی اڈے پر ملا تھا تو اس کی رہائش والے علاقے کے ایک کھوکھے میں طغرل نے "شیوازریگل" کی بوتل پڑی دیکھی تھی جس کی قیمت دس پندرہ ڈالر کے مساوی روبلوں سے زیادہ نہیں تھی۔ پیسے جیب میں آتے ہی اس نے حسام سے کہا تھا چلو شیواز لے کر آتے ہیں۔ طغرل کو وادکا ویسے بھی پسند نہیں آ رہی تھی۔ کھوکھے تک جاتے جاتے ان دونوں نے بیئر کی دو دوبوتلیں حلق سے اتار لی تھیں۔
شیواز کی بوتل خرید لی تھی۔ طغرل کو پیشاب کی حاجت نے ضیق کیا ہوا تھا۔ حسام نے کہا تھا، ویسے تو سرعام فراغت پر قدغن ہے، جرمانہ ہو سکتا ہے مگر لوگ بڑی بڑی جھاڑیوں کی آڑ میں حاجت رفع کر لیتے ہیں، آپ بھی جھاڑیوں کا فائدہ اٹھائیے، میں سڑک کے کنارے کھڑا ہو کر نگرانی کرتا ہوں۔ طغرل جھاڑیوں کے بیچ اترتے ہی تیزی سے پلٹ آیا تھا۔ اس کے منہ پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ حسام نے پوچھا تھا، "کیا ہوا؟"۔ طغرل نے پست آوز میں حسام سے کہا تھا،"وہاں جھاڑیوں بیچ ایک شخص مرا پڑا ہے"،حسام کے منہ سے نکلا تھا ،"کیا؟" پھر وہ پھلانگتا ہوا جھاڑیوں میں گیا تھا اور چند لمحے بعد لوٹ کر طغرل سے کہا تھا،" آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ وہ کوئی لاش نہیں بلکہ نشے میں دھت شخص ہے جو خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے"۔ طغرل شرمسار تو ہوا تھا لیکن مدہوش انسان کے پہلو میں "شاشیدن" سے اجتناب کیا تھا اور خاصی دور جا کر سہل ہوا تھا۔
وسکی کے ساتھ گوشت کا ہونا لازمی ہے لیکن باوجود تلاش بسیار کے گوشت دستیاب نہیں ہو سکا تھا۔ کمیابی کا دور تھا جو مل جاتا تھا اسی پر اکتفا کرنا ہوتا تھا۔ انہیں قیمہ ہی میسّرآ سکا تھا۔ ہوسٹل میں پہنچ کر ٹونٹی کے یخ پانی میں وہسکی ملا کر پی تھی اور قیمے و ڈبل روٹی کے ٹکڑے کھا کر لذت لینے کی سعی کی تھی۔
1991 میں اس ملک کی پولیس کا غیر ملکیوں کی جانب رویہ احترام اور تعظیم کا تھا۔ غیر ملکیوں خاص طور پر تیسری دنیا کے باسیوں کو تو پولیس والے یونہی سیلیوٹ بھی کر دیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کے ایسے رویے کی وجہ تھی کہ ان ملکوں سے یا تو حصول علم کی خاطر طالب علم آیا کرتے تھے یا پھر تیسری دنیا کی برادر کمیونسٹ یا سوشلسٹ پارٹیوں کے اراکیں ایک طرح سے سرکاری دوروں پر آتے تھے۔ اب تیسری دنیا بالخصوص پاکستان اور ہندوستان کے "ایجنٹوں" (انسانی سمگلروں) نے ان غریب ملکوں کے نوجوانوں کو "آگے بھجوانے" کی خاطر ماسکو اور یوکرین کے دارالحکومت کیو (کیف) کو اپنے گڑھ بنا لیا تھا۔ اب سڑکوں اور سٹیشنوں پرغیرطالب علمانہ حلیوں اور اطوار والے لوگ زیادہ دکھائی دینے لگے تھے۔ طغرل فی الحال اس قبیہہ کاروبار میں ملوّث لوگوں اور یورپ جانے کے خواہاں عوام سے شناسا نہیں تھا کیونکہ اس کی دنیا یونیورسٹی کے طالبعلموں تک ہی محدودو تھی۔
پولیس والوں کی نظریں تیز ہوتی ہیں وہ اگر ان دنوں کسی کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرتے بھی ہونگے تو ایسے ہی مشکوک لوگوں کے ساتھ کرتے ہونگے مگر آہستہ آہستہ ان کے چہروں اور انداز سے سبھوں کے لیے تعظیم و احترام مفقود ہوتی دکھائی دینے لگی تھی۔ وہ اب سیلیوٹ کرنے کی بجائے یا تو پہلو بدل لیا کرتے تھے یا خشمگیں نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے۔
اکتوبر آ گیا تھا۔ ہوا سرد ہونے لگی تھی۔ طغرل اب کچھ اکتا سا گیا تھا۔ بچوں، گھراور ملک کی یاد ستانے لگی تھی۔ وہ اب واپس جانا چاہتا تھا۔ اس کے ٹکٹ کی مدت ختم ہو چکی تھی، اسے نیا ٹکٹ خریدنا تھا۔ طلباء کے لیے اب بھی ٹکٹ سستے تھے۔ طغرل طالب علم نہیں تھا لیکن اس کی عمر کے طالبعلم یہاں کم نہیں تھے چنانچہ محمد نام کے ایک نائیجیرین طالبعلم کو ٹکٹ بنوانے کا کہا۔ اس نے "محمد" کے نام سے ٹکٹ بنوا لیا تھا جسے طغرل اپنے نام کے پہلے حصے کی بنیاد پر استعمال کر سکتا تھا۔ ایروفلوٹ کی بزنس کلاس کا یہ ٹکٹ طغرل کو صرف ایک سو ڈالر یعنی تب کے 3200 پاکستانی روپوں میں پڑا تھا۔ مزیدار بات یہ کہ ٹکٹ یک طرفہ نہیں بلکہ ریٹرن ٹکٹ تھا اور چھ ماہ کے لیے "ویلڈ" بھی۔ حسام طغرل کو چھوڑنے اس کے ساتھ ہوائی اڈے تک گیا تھا اور طغرل پہلی بار ملک عزیز لوٹ آنے کی خاطر طیارے مییں سوار ہو گیا تھا۔
کراچی کے ہوائی اڈے سے باہر آتے آتے، طغرل کی ملک لوٹ آنے کی شدید خواہش اور سب یادیں ایک تہائی مندمل ہو چکی تھیں۔ ماسکو سے آنے والوں سے محض وادکا کی ایک بوتل ملنے کی امید میں زبان لٹکائے، ناکوں کی پھننگوں پر اٹکی عینکوں کے اوپر سے مسافروں کو ایسے جھانکتے ہوئے جیسے وہ مجرم ہوں کسٹمز والے، نقص نکالنے کی سوچ سوچتے ہوئے امیگریشن والے اور اسی قبیل کے دوسرے اہلکار اسے اب بالکل بھی اپنے نہیں لگ رہے تھے۔ نسبتا" بہتر اورمتمدن رویوں کے حامل روسی اہلکاروں سے تقابل کرکے یہ مدقوق اور مجہول افراد کائنات کے زیریں حصے کے کسی منحوس سیارے کی مخلوق سے مماثل دکھائی دے رہی تھی۔
جونہی وہ ہوائی اڈّے کی عمارت سے باہر آیا تھا تو جہاں گرم ہوا نے اس کا بہیمانہ استقبال کیا تھا وہاں جھپٹتے ہوئے ٹیکسی والے، شلوار قمیصوں میں ملبوس کام میں مشغول ہونے کا بہانہ کرتے ہوئے لوگ، باچھوں سے خون کی مانند بہہ کر باہر آنے والے پان کے مواد کو گرگٹوں کی طرح زبانوں سے چاٹ کر واپس دہانوں کے اندر لے جاتی ہوئی مخلوق اور پان کی پیکوں کی پچکاریاں اوپر سے کانوں کے پاس سے میزائلوں کی طرح اڑتی ہوئی بھیانک مکھیاں، بس سب کچھ ہی تو اسے برا لگا تھا۔
طغرل ٹیلیکس کے ذریعے عاصم کو اپنی آمد کے بارے میں مطلع کر چکا تھا۔ عاصم اسے لینے پہنچا ہوا تھا۔ اس کی کار میں سوار ہو کر کچھ سکون ملا تھا کیوں کہ کار ایرکنڈیشنڈ تھی لیکن اس کے گھر کی جانب جاتے ہوئے کار کے شیشوں کے باہر دکھائی دینے والے اکثر مناظر طغرل کو شاق گذر رہے تھے۔ طغرل جھنجھلایا ہوا بڑبڑا رہا تھا اور عاصم نے مسکراتے ہوئے کہا تھا،" بس ایسا ہی ہے چاچا جی"۔ ملک عزیز میں بدتر حالات کے ساتھ عمومی صلح جوئی کا یہ فقرہ جیسے سارے جھنجھٹوں سے بری الذمہ ہونے کا جواز تھا۔ عاصم اسے اپنی چھوٹی بیگم کے کلفٹن کے ایک ماڈرن اپارٹمنٹ میں لے گیا تھا جو اندر سے کسی یورپی اپارٹمنٹ کی مانند لگتا تھا۔ حسین بیوی، صاف ستھرے صحت مند بچے، مکمل طور پر بند گھر۔ ہر کمرے میں ایر کنڈیشنر نصب اور چلتا ہوا مطلب یہ کہ اس کا اپارٹمنٹ روس کے زندان نما اپارٹمنٹوں سے کہیں بہتر تھا۔ پینٹ بوشرٹ میں ملبوس بنگلہ دیشی نوجوان باورچی اظہر کا موجود ہونا آبادکارانہ عہد اور جاگیردارانہ معاشرے کی یاد تازہ کر رہا تھا۔
طغرل رات بھر کا جاگا ہوا تھا۔ متحرک، پرشور اور روشن جگہیں اس کی نیند کی دشمن تھیں۔ ہر جگہ اور ہر حالت میں سو جانے والون پراس کا رشک ہمیشہ قائم و دائم رہا۔ اس نے کمرے کے دبیز پردے سیدھے کیے تھے اور ایرکنڈیشنر چلا کر اچھی خاصی دیر تک سویا تھا۔ دن کے کوئی تین بجے بیدار ہوا تھا۔ اظہر نے میز پر کھانا لگا دیا تھا۔ عاصم کی چھوٹی بیگم اور دونوں بچے طغرل کے جاگنے کا انتظار کر رہے تھے۔ اس کے ڈائننگ ٹیبل پر پہنچنے کے بعد ان سب نے دوپہر کا کھانا کھانا شروع کیا تھا۔ طغرل سناتا رہا تھا اور اس کے بھتیجے کی چھوٹی بیگم اپنی مخصوص مسکراہٹ اور چمکتی ہوئی آنکھیں جمائے، اس کی باتوں پر جی، جی، جی ہاں، اچھا کہتے ہوئے سنتی رہی تھی۔ اس کے اس انہماک اور طغرل کی خوش بیانی کے تسلسل کو ایک بچے نے طغرل کو "دادا ابو" کی صدا دے کر توڑا تھا۔ اگرچہ طغرل اور عاصم تقریبا" ہم عمر تھے مگر رشتے کے حوالے سے طغرل بچوں کا دادا ہی لگتا تھا ناں۔ بچے کی پکار پر جونہی وہ متوجہ ہوا تو بچے نے کہا تھا،" دادا ابو آپ لزرڈ کا سوپ لیں گے؟" اس شرارتی کو شاید اس کی ماں یا اس کے باپ نے بتایا تھا کہ طغرل کو چھپکلیاں بہت بری لگتی ہیں۔ بچے کی ماں کا قہقہہ چھوٹ گیا تھا اور طغرل نے آخ آخ کہتے ہوئے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ دونوں بچے معصومانہ انداز میں ہنسے چلے جا رہے تھے۔ چھوٹی بیگم نے اپنی ہنسی پر قابو پا لیا تھا اور مسکراتے ہوئے بولی تھی،"دادا ابو، کھانا تو ختم کریں ناں"۔ طغرل اصل میں کھانا کھا چکا تھا چنانچہ اس نے اس کی تسلی کرا دی تھی۔ بچے کو شاید معلوم نہیں تھا کہ طغرل کو کتے سے کس قدر خوف آتا ہے اور چپچپاہٹ سے اسے کتنی الجھن ہوتی ہے ورنہ بچہ اسے بوکھلانے کی خاطر اور بھی کئی حرکتیں کر سکتا تھا۔
عاصم دیر گئے اپنے دفتر سے لوٹا تھا۔ رات کو وہ دونوں بہت دیر تک باتیں کرتے رہے تھے۔ اس نے عاصم سے کہا تھا کہ وہاں ٹریڈ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسے کراچی آنے والے اپنے غیر ملکی شرکائے کار سے بات چیت کرنے کا موقع دے تاکہ اسے تجربہ حاصل ہو اورعاصم کو تسلی رہے۔ عاصم نے کہا تھا پہلے اپنے بچوں کے پاس ہو آو جب لوٹ کر آؤ گے تو دیکھ لیں گے۔ چند روزعاصم کے ہاں قیام کرنے کے بعد طغرل ریل گاڑی کے ذریعے لاہور روانہ ہو گیا تھا۔ اس نے ٹیلیفون پر اپنی اہلیہ کو مطلع کر دیا تھا کہ وہ کس ریل گاڑی کے ذریعے پہنچے گا۔
وہ اسے سٹیشن پر لینے پہنچی ہوئی تھی۔ طغرل کی موجودگی میں اس نے گاڑی تبدیل کر لی تھی اور خود چلا کر لائی تھی۔ طغرل نے اپنی بیوی اور اپنے ملازم کے ساتھ ہاتھ ملایا تھا اور دونوں بچوں کو بازووں میں بھر کر پیار کیا تھا۔ جب اس کی بیوی نے ایک ڈیڑھ سال پہلے اس سے کہا تھا کہ اسے کار چلانا سکھا دے تو اس نے انکار کر دیا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ مناہل، جی ہاں اس کی بیوی کا نام مناہل تھا، مردوں سے بڑھ کر فعال خاتون تھی اوراگراس نے کار چلانا سیکھ لیا تو وہ کچھ زیادہ ہی مرد ہو جائے گی اور پھر کچھ بعید نہ ہوگا کہ وہ مرودوں والے "کام" بھی کر گذرے۔ اس کے انکار کو وہ بھلا کہاں خاطر میں لاتی تھی اس نے ایک شریف سید زادے کی شاگردی کرکے کار چلانا سیکھ لی تھی مگر طغرل اس کے ساتھ کبھی نہیں بیٹھا تھا وہ خود ہی گاڑی چلایا کرتا تھا لیکن آج اس نے اسے ہی کار چلانے دی تھی۔ مناہل نے ٹیپ ریکارڈر میں جو پہلا گیت لگایا وہ تھا:
میں پسند ہوں کسی اور کی
مجھے چاہتا کوئی اور ہے
ساتھ ہی کہا تھا ‘سنو کتنی اچھی غزل ہے‘ غزل تو اسے کوئی اتنی اچھی نہیں لگی تھی پر کھٹکی ضرورتھی کیونکہ اسے لگا تھا کہ سرآئینہ تو اب اس کا عکس ہی باقی بچا ہے، پس آئینہ کوئی اور لگتا ہے۔ اس نے طنزا" کہا تھا،" خیر تو ہے کہ ایسی غزلیں اچھی لگنے لگی ہیں تمہیں؟"۔ مناہل نے تنک کر کہا تھا،" کسی کو کوئی بھی غزل اچھی لگ سکتی ہے"۔ وہ سب گھر پہنچ چکے تھے۔ شام تک اسے ایسے لگنے لگا تھا جیسے وہ کہیں گیا ہی نہیں تھا۔ پرانے ساتھی ملنے آنے لگے تھے۔ ان کے لیے تو وہ زائرتھا جو ماسکو کی زیارت کرکے لوٹا تھا۔ وہ انہیں وہاں کے بارے میں بتاتا رہا تھا۔ ان کے سوالوں کے جواب دیتا رہا تھا۔ پھر رات ہو گئی تھی۔ بچے سو گئے تھے۔ میاں بیوی تنہا تھے۔ مناہل نے کہا تھا،" تم دوبارہ مت جانا"۔ اس نے پوچھا تھا ،"کیوں؟" اور ساتھ ہی کہا تھا کہ وہ عاصم کے ساتھ کاروبار میں شامل ہونے کا وعدہ کر چکا ہے اور یہ بھی کہا تھا کہ اس کے کام میں بھلا کیا رکھا ہے۔ ممکن ہے تجارت سے کچھ ہاتھ آ جائے۔ لیکن مناہل نے اس کے نہ جانے پر زور دیتے ہوئے جھجھکتے ہوئے کہا تھا،" میں ڈرتی ہوں"۔ جھجھک اور خوف دونوں ہی مناہل کی شخصیت کے انگ نہیں تھے۔ طغرل نے حیران ہو کر کہا تھا "کس سے ڈرتی ہو؟"
"اپنے آپ سے" اس کے اس جواب کو طغرل نے محض شاعرانہ تعلی اور فلسفیانہ انداز پر محمول کرتے ہوئے نظر انداز کر دیا تھا۔ ان کے لمس میں ایک دوسرے کے لیے وہ حدت باقی نہیں رہی تھی جو پہلے ہوتی تھی یا جسے ساڑھے تین ماہ کی جدائی کے بعد ہونا چاہیے تھا۔ دوچار روز تو امن سے گذرے پھر وہی توتکار شروع ہو گئی تھی۔ مناہل کے چیخنے چلانے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔ ان کے بیٹے کی عمر تب گیارہ سال تھی جو ایسے ہی ایک ہنگامے کے دوران ڈرائنگ روم کے صوفے پر اکیلا بیٹھا سسکیاں بھر کر رو رہا تھا۔ جب طغرل اسے تسلی دینے کی خاطر اس کی طرف بڑھا تھا تو اس نے تند لہجے میں کہا تھا،"تم یہاں نہ آیا کرو" کچھ اور بھی کہا تھا مگر طغرل بچے کے منہ سے اپنے لیے آپ کی بجائے تم کا صیغہ سن کر بھونچکا گیا تھا۔ اسے اندازہ ہوا تھا کہ میاں بیوی کی چپقلش نے بچوں کے ذہنوں پر منفی اثرات راسخ کرنا شروع کر دیے تھے چنانچہ اسے فی الواقعی میدان سے ہٹ جانا چاہیے۔ یہ سوچ ممکن ہے کہ غلط تھی مگر تب یہی سوچ تھی۔ زوجہ نے شدو مد کے ساتھ طلاق کا تقاضا کرنا شروع کر دیا تھا۔ طغرل نے ایک بار پھر "دیکھیں گے" کہہ کر ٹال دیا تھا۔
طغرل اپنے رویوں میں انتہا پسند واقع ہوا تھا۔ یہ انتہا پسندی ہرگز وہ نہیں تھی جس کا آجکل زیادہ ذکر ہوتا ہے یعنی مذہبی یا کسی بھی طرح کی نظریاتی انتہا پسندی بلکہ ایک اور نوع کی انتہا پسندی تھی جس کا اسے گیان بھی تھا۔ ویسے تو انتہا پسندی کسی بھی طرح کی ہو اچھی نہیں لگتی لیکن جس کے ساتھ یہ بلا چمٹ جاتی ہے وہ اس سے جان بمشکل ہی چھڑا پاتا ہے۔ یہ رویہ اس کی ذات کا حصہ بن چکا تھا۔ وہ کسی سے تب تک کوئی وعدہ نہیں کرتا تھا جب تک اسے یقین نہ ہو کہ وہ اسے نبھا سکتا ہے مگر جب وعدہ کر لیتا تھا تو اسے نبھانے کی پوری سعی کرتا تھا بلکہ نبھاتا تھا۔ وہ معاشرے کے لاگو کردہ فرائض کو نہیں مانتا تھا مگر جس بات کو وہ فرض تسلیم کر لیتا تھا اس کی ادائیگی سے گریز اس کا شیوہ نہیں تھا چنانچہ وہ عاصم سے کیے گئے وعدے کے مطابق چند روز بعد واپس کراچی چلا گیا تھا، وہاں عاصم کے ساتھ دفتر جانے لگا تھا اور اس نے اسے کاروباری بات چیت میں شامل کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ عمل ایک ڈیڑھ ماہ چلا تھا اور طغرل کو تسلی ہو گئی تھی کہ وہ اس میدان میں اتنا برا نہیں رہے گا۔ 25 جنوری 1992 کو وہ ایک بار پھر روس کے دارالحکومت کے لیے روانہ ہو گیا تھا۔ نقد رقم اس بار بھی اس کے ہمراہ نہیں تھی۔ اس کی جگہ وہ چمڑے کی دس پندرہ جیکٹیں ساتھ لیتا گیا تھا۔ اس کے ذمے لگایا گیا تھا کہ ان جیکٹوں کی فروخت سے ہونے والی آمدنی کے پیسے سے ماسکو میں ایک کمپنی رجسٹر کرا لے۔
لاہور میں قیام کے دوران اس کی حسب معمول نفیسہ کے ساتھ ملاقات رہی تھی۔ نفیسہ اس کی اور اسکی بیوی کی دوست تھی جو ایک اعلٰی سرکاری عہدے پر مامور تھی۔ اس نے اس سے پوچھا تھا کہ تم وہاں حامد سے نہیں ملے۔ حامد نفیسہ کا شوہر تھا۔ اس نے کہا تھا نہیں تو نفیسہ نے بتایا تھا کہ وہ اب ماسکو میں موجود ہے اور "ہیومن ریسورسز" کا کام کرتا ہے۔ طغرل نے تفصیل میں جانا اس لیے ضروری خیال نہیں کیا تھا کیونکہ ایک تو اس کا پیارا دوست انظر بھٹی ایک زمانے میں وفاقی وزارت برائے مین پاور اینڈ ہیومن ریسورسس میں سیکشن آفیسر رہ چکا تھا، جس کے ہاں اس نے کئی بار کئی کئی روز تک قیام کیا تھا اوراس کی وزارت کے بارے میں اس سے پوچھتا رہا تھا۔ دوسرے اس کے جاننے والوں میں دو ایک ڈرائیور اور ایک دو قاصد قسم کے سرکاری اہلکار تھے جو خود کو "اجنٹ" کہا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ ٹریول ایجنسیوں کے ایجنٹ کے طور پر مزدوروں کو متحدہ عرب امارت کے لیے "بک" کرتے ہیں چنانچہ وہ یہی سمجھا تھا کہ یہ کوئی قانونی کام ہے جس میں سروس چارجز لے کر لوگوں کو قانونی طور پر غیر ملکوں میں ملازمتوں میں کھپانے کا کام کیا جاتا ہے۔
ماسکو کے ہوائی اڈے پر جہاں حسام اور نتاشا اس کے لیے گرم جیکٹ لیے اسے لینے آئے ہوئے تھے وہاں حامد بھی کالا اوور کوٹ پہنے، پان پراگ مسالہ چباتے ہوئے ایک نوجوان کے ہمراہ طغرل کو لینے کی خاطر مسکراتا ہوا موجود تھا۔ طغرل نے اس کا حسام کے ساتھ تعارف کراتے ہوئے اس کے ساتھ جانے سے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا،"مجھے حسام کے ساتھ جانا ہے اس لیے نفیسہ اور تمہارا دونوں کا ازحد شکریہ"۔ حامد نے اسے اگلے روز شام کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی تھی اور حسام نے اس کا پتہ لکھ لیا تھا۔ وہ ٹیکسی میں سوار ہو کر حسام کے ہوسٹل پہنچ گئے تھے۔ راستے میں دبئی ایر پورٹ کی ڈیوٹی فری شاپ سے وہ "آتش" خرید ہی لایا تھا اس لیے وہ اس کی آمد کو "سیلیبریٹ" کرتے ہوئے نیند کی وادی میں اترگئے تھے۔
صبح بیدار ہوئے تھے۔ ناشتے سے فراغت کے بعد حسام نے بتایا تھا کہ اس نے ایک کمرہ کرائے پر لے لیا ہے جو ایک عورت کے کوارتیرے ( کوارٹرکی نسبت سے روسی زبان میں اپرٹمنٹ یا اپرتمان کو کوارتیرا کہا جاتا ہے) کے گھر کے دو کمروں میں سے ایک ہے۔ اس کمرے کو بطور رابطہ دفتر کام میں لایا جا سکے گا البتہ مالکہ مکان سے یہ بات بھی ہو چکی ہے کہ بوقت ضرورت وہاں کبھی کبھار رات بھی بسر کی جا سکے گی۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ ایک دو روز بعد وہ طغرل کو کمرہ دکھا لائے گا کیونکہ آج شام تو انہیں حامد صاحب کے ہاں جانا تھا۔
ویسے تو دنیا جہاں کی خواتین اور لڑکیاں کسی کے ہاں جانے کے لیے بناؤ سنگار کرتی ہی ہیں مگر روسی لڑکیاں کچھ زیادہ ہی بن ٹھن کر جاتی ہیں۔ نتاشا "منی اسکرٹ" پہن کر ہمارے ساتھ گئی تھی۔ حامد نے ایک کمرے میں جسے وہ بطور ڈرائنگ روم استعمال کرتا تھا، میز پر جانی واکر بلیک لیبل وہسکی کی بوتل اور خشک پھل وغیرہ پہلے سے سجا کر رکھے ہوئے تھے۔ وہ بڑے ہی تپاک کے ساتھ ملا تھا۔ نتاشا سے ملتے ہوئے اس کی آنکھ میں طغرل کو میل دکھائی دیا تھا، تھوڑی ہی دیر بعد ان سب نے پہلا جام لے لیا تھا۔ حامد باورچی خانے میں جا کر پکتے ہوئے کھانے کو بھی دیکھ لیتا تھا پھر ان کے ساتھ بیٹھ کر اگلا جام بھی پی لیتا تھا۔ آدھ پونے گھنٹے بعد دو چار جام لینے کے بعد جب حامد کو تھوڑی سی چڑھ گئی تو اس کی کمینگی نے اس کی زبان کے راستے سر باہر نکالا تھا۔ وہ ہاتھ کی پشت سے اپنی باچھوں کو صاف کرتا ہوا، مسکراتے ہوئے اٹھا تھا اور دروازے سے نکل کر باورچی خانے کے لیے مڑتے ہوئے اپنی مسکان کو مزید کمینہ کرتے ہوئے طغرل سے مخاطب ہوا تھا:
یار، اس لڑکی کو کہو اپنی ٹانگیں ڈھانپ لے۔ اس کی ننگی رانیں دل خراب کر رہی ہیں"۔
ایک تو طغرل اور حسام نتاشا سمیت اس کے ہاں مہمان تھے، دوسرے اس کے ہاں "آگے" جانے والے کچھ پاکستانی نوجوان بھی بیٹھے ہوئے تھے، تیسرے حسام ایک لڑاکا قبیلے سے تھا اوپرسے شیعہ بھی۔ ہردوطرح سے خونخوار، جاگیردارانہ غیرت اور نخوت کا مرقع۔ حامد کے منہ سے یہ گھٹیا فقرہ ادا ہوا ہی تھا کہ وہ تیندوے کی مانند حامد پر جھپٹ پڑنے کی خاطر اٹھا تھا۔ طغرل معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے حسام کے سامنے آ کر اسے بازووں کی گرفت میں لے کر حامد پر پھٹ پڑا تھا اور اسے سخت سست کہا تھا۔ حامد بوکھلا کر آئیں بائیں شائیں کرنے لگا تھا اور اس نے حسام سے فوری معافی مانگ لی تھی۔
نتاشا کو سمجھ ہی نہیں آ سکا تھا کہ یہ دال کا ابال کیا تھا۔ طغرل نے جب اسے انگریزی زبان میں بتایا کہ حامد نے اس کی گوری اور سڈول رانوں کے بارے میں کیا کہا تھا تو اس نے جہاں ایک طرف حامد کے رویے کی مذمت کی تھی وہاں دوسری طرف یہ تاویل بھی دی تھی کہ چلو کیا ہوا، آخر کار وہ ایک تنہا مرد ہے اور پھر اس نے پی بھی ہوئی ہے۔ جب طغرل نے یہی بات سب کے سامنے سب کی مشترکہ زبان میں کہی تو حامد بری طرح جھینپا تھا اور نتاشا سمیت تینوں مہمانوں نے زوردار قہقہہ بلند کر دیا تھا۔ پاکستانی نوجوان بھی مسکرا رہے تھے۔ ماحول خوشگوار ہو گیا تھا۔ حامد نے اب کھانا پیش کر دیا تھا۔ حامد خوش خوراک شخص تھا اور لذیذ کھانے تیار کرنے کا شوقین بھی۔ مزیدار کھانا کھانے کے بعد بھی وہ کچھ دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے تھے پھر ہوسٹل روانگی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“اُردو زبان میں لکھا گیا محترمہ قانتہ خدیجہ کا ناول ’’تم ساتھ ہو جب اپنے‘‘ اب پنجند ویب سائٹ اور...
( تاریخ وفات: 15وفات نومبر 2020 ) میناؔ نقوی اس جہان آب و گل سے چل بسیں جذبۂ نسواں کی...
✒️ "ن۔۔۔۔۔نئیں۔۔۔نئیں۔۔۔! اوں۔۔۔اوں۔۔۔۔! مجھے عیدی کےپورے پیسے چاہیے!" دس سالہ محمد تفہیم الدین یہ کہتا ہوا بس روئے جا رہا...