ان کا نام محمد انوار الدین تھاوہ 4دسمبر1928کو سرگودھا کی تحصیل بھلوال کے قصبہ میانی میں پیدا ہوئے تھے اردو ادب کی اس باکمال شخصیت کے بارے میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ دراصل وہ سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ ہولڈر تھے
بلکہ اس سے بھی پہلے کی بات ھے اور ہے تو سیاسی بات لیکن الف لیلےٰ کی کہانی جیسی۔عوام جو ہمیشہ سادہ لوح ہوتے ہیں یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ مارشل لا کیا ہوتا ھے۔۔
میں نے ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ مارچ 1959 میں جب مجھے پشاور یونیورسٹی نے ڈگری دی تو صدر جنرل ایوب خاں نے کنووکیشن کی صدارت کی تھی ۔مارشل لا کو صرف 5 ماہ ہوۓ تھے چنانچہ جملہ حاضرین بشمول راقم الحروف کی دہشت سے “پتلونیں گیلی نہیں تو ڈھیلی ضرور ہو رہی تھی
یہ باڑہ مارکٹ ھے۔آپ میں بہت ہونگے جو میری طرح اسمگل کیا ہوا الیکٹرانکس کا سامان۔۔خصوصا” روسی ٹی وی اور خواتین کے ساتھ غیر ملکی ریشمی کپڑا خریدنے کا جرم کرنے اس بازار میں گۓؑ ہوں گے اور وہاں دنبے کے گوشت کی مرحوم کی چربی میں بنی آدھی کچی پکی کڑھایؑ بھی کھایؑ ھوگی ۔۔
سال گزشتہ ی طرح امسال بھی پہلے خواص کا “ادبی میلہ” سجایا گیا جس کے بارے میں یہ ناچیز اپنے تاثرات ارسال کر چکا کہ اس میں ادب کا بس نام تھا جو تھا وہ سیاست تھی ۔ہم عوام کیلۓ “کتاب میلہ” چند دن کے فرق سے سجایا گیا
زندگی کا سفر تمام ترعین توقعات کے نصاب پرپورا اترے۔۔،ایسا کویؑ خواب پرست بھی نہیں سوچتا۔۔ فیس بک پرخوبیؑ اتفاقات کے ساتھ خرابیؑ حادثات نہ ہو۔۔ یہ بھی ممکن نہیں۔۔کچھ سن رکھا تھا کہ یہ بھی وہی دنیا ہے جہاں ؎ ایک چہرے پر کٰؑ چہرے سجا لیتے ہیں لوگ۔۔ اور جنس بدل جانے کی خبریں تو صداقت پرمبنی ہوتی ہیں لیکن یہاں ؎ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔۔ پارسایؑ کے دعوے دھرے رہ جاییں گے اور کسی داڑھی مونچھوں والی حسینہ کی جلوہ نمایؑ نے عقل و خرد کو زیر دام کر لیا توسمجھو ؎ اس عاشقی میں عزت سادات بھی گیؑ۔۔ بالون کی سفیدی کے ساتھ منہ کالا ہوا تو نصف صدی ساتھ چلنے پر مجبور زندگی کی گاڑی کا دوسرا پہیہ جام نہ ہو جاۓ ۔یہ بھی جان لو
ایک تعلیم یافتہ لبرل امن پسند انسانیت دوست شخص کی حیثیت سے میرا جواب ھوگا۔۔۔یس۔۔ کرنل ناصر جیسا۔۔کرنل قذافی جیسا۔۔کپٹن اتاترک جیسا۔۔ فرانس کے جنرل ڈی گال جیسا۔۔امریکی جنرل آیزن آور جیسا۔۔۔———————————- یعنی جنرل اعظم جیسا۔۔۔۔ وعدے اور ارادے کے مطابق بحالیات ک کام سمیٹنے اور کورنگی کا شہرآباد کرنے کے بعد۔۔ (یا شاید اس سے پہلے)۔۔جنرل اعظم نے کہا”اور کیا حکم ہے میرے آقا؟”۔آپ نے وہ لطیفہ تو سنا ہوگا کہ میرے جیسے کسی “کم مایہ و کم ہمت وکم عقل” شخص کو الہ دین کا چراغ مل گیا ۔جو کام اسے بتایا جاے وہ پلک جھپکتے میں کرے اور پھر سامنے آکھڑا ہوا اور یہ سوال کرے کہ اور کیا حکم ہے میرے آقا؟ پریشانی میں اسے ایک خیال آیا۔
تیوہار کا متبادل لفظ مجھے اردو یا انگریزی میں نہیں ملا تیوہار مذہبی۔قومی یا تہزیبی ہو سکتے ہیں اور مختلف ممالک میں ان کی اہمیت کا انداز مختلف ہو سکتا ہے لیکن ایک بات جو کسی بھی تہوار کو مقبول اور کامیاب کرتی ہے وہ ان کا غیر متنازعہ ہونا ہے۔جب میں یادوں کے در کھولتا ہوں تو دیکھتا ہوں ؎ گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں
تھامس پنچن ،8 مئی 1937 مین گلیں کیو لونگ آئی لینڈ نیویارک میں پیدا ھوئے۔ 1959 میں کورنیل یونیورسٹی سے سائنس اور انگریزی ادبیات کی سند حاصل کی لیکن جلد ھی کارنیل یونیورسٹی سے انجینرنگ کی تعلیم کو خیر باد کہ کر امریکی بحریہ میں شمولیت اختیار کی۔
آپ میں سے بیشتر نے پیشہ ور نقادوں کا دور استبداد نہیں دیکھا۔۔ 1960 کے آگے پیچھے اک زمانہ ادب کیؒۓ انتھایؑ زرخیز تھا۔۔ کچھ ایس ہی سلسلہ موسیقی کا رہا کہ 1960-1980 کی فلمی موسیقی آج بھی اپنا جادو جگاتی ہے۔۔میں اپنے ہم عمروں کی بات نہیں کرتا جو اس عمر میں اپنی جوانی کو تاریخ کا سب سے سنہرا دور قرار دیتے ہیں تو ان کی مجبوری۔۔نیؑ نوجوان نسل کی پوپ ۔۔ یا پاپ موسیقی پرٹھرکنے مچلنے جھومنے بے خود ہونے والے ٹیں ایجرز نے 1951 کی فلم” البیلا” کا گانا ‘شعلہ جو بھڑکے دل میرا دھڑکے’ پر ایک مجمع کی دیوانگی بھی دیکھی ہے
اُردو زبان میں لکھا گیا محترمہ وردہ زوہیب کا ناول ’’گوری کا من میلا ہے‘‘ اب پنجند ویب سائٹ اور...
فلسفہ یونانی زبان کے لفظ philosophia اور انگریزی کے لفظ philosophy کا معرب ہے۔ اس کا لفظی مطلب “حُبِ دانش”...
گو سمندری قزاق ہونا بالعموم مردوں کا پیشہ رہا ہے، تاہم کچھ خواتین سمندری قزاقوں نے بھی اس پیشے میں...
اُردو زبان میں لکھا گیا محترمہ مریم صدیقی کا ناول ’’منزلِ تقدیر‘‘ اب پنجند ویب سائٹ اور پنجند بُکس ایپ...
ایک نئے مطالعہ کےمطابق ، جتنے بھی ڈی این اے اور آر این کے بیس base کی اقسام ہیں، وہ...
تیرا خون میرے بال سفید ہوتےجارہے ہیں دیکھ زندگی کے رنگ بدلتے جارہے ہیں آجکل کے نوجوانوں میں یہ مسئلہ...
اب تو خیر وہ کیا ہی جیتی ہو گی اور جو بد قسمتی سے جیتی بھی ہوئی تو کوئی ہزار...
دروازے پر دستک ہوئی تو برہان احمد نے اُس لڑکی کو اندر آنے کا کہا۔ وہ لڑکی آرام سے چلتی...
احسان احمد تقریباً تین ماہ بعد گاؤں آئے تھے۔ جب بھی آتے سجاد حسین کے گھر ہی رکتے۔ سجاد حسین...
ملاقات کی فرمائش کا سن کر عبیر نے کال کاٹ کر موبائل بیڈ پر پھینک دیا اور اپنے بال مُٹھی...
اب اگر وہ عبیر سے کہتا ہے کہ اس کے گھر والے بالکل بھی راضی نہیں ہیں تو عبیر رابطہ...
اُردو زبان میں لکھا گیا محترمہ وردہ زوہیب کا ناول ’’گوری کا من میلا ہے‘‘ اب پنجند ویب سائٹ اور...