مجھے تاریخ یاد نہیں لیکن یہ 1950کا زمانہ ہے جب راولپندی صدر میں بنک روڈ پر کیپٹل سینیما کے قریب سے یہ بس مسافروں کو مری لے جاتی تھی اور جب میں نے پہلے بار سفر کیا تو اس کا ٹکٹ ڈیڑھ روپیہ تھا۔جیسا کہ میں نے گزشتہ پوسٹ میں لکھا اس وقت شہر میں “گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس” کی سروس کا بھی آغاز نہیں ہوا تھا۔اس میں زیادہ تر مری کے گرد و نوح کے رہنے والے سفر کرتے تھے۔ٹورزم براۓ نام تھا ۔گرمیوں میں کچھ رونق نظر آتی تھی اور وہ بھی صرف مال پر۔ مری جا کےمال پر آوارہ گردی نہ کرنا ایسا ہی تھا جیسے کراچی جانا اور سمندر کی دید کے بغیر لوٹ آنا ۔زیادہ تر راولپنڈی کے کچھ نوجوان یا چند فیملیز اتوار کو پکنک منانے جاتے تھے اور شام تک لوٹ اتےتھے۔دوسرے شہروں سے انے والوں کیلۓ ایک دوعوامی ہوٹل مال پر ضرور تھے ورنہ خواص یا اشرافیہ جو انگریز حاکم کی تقلید کو جزو ایمان سمجھتی تھی “سیسل ہوٹل” میں قیام کرتی تھی اسے :”او بیراۓ ہوٹلز” کی انتظامیہ چلاتی تھی،ان کے زیر انتظام دیگر فایو اسٹار ہوٹلز میں سے اب صرف دو باقی ہیں ۔
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...
پروفیسر عارف فرید ایوبی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے : پروفیسر عراق رضا زیدی شعبۂ فارسی، لکھنؤ یونیورسٹی میں مرحوم...
کتاب کے آغاز میں مصنف کی طرف سے 5 صفحات کا پیش لفظ ہے جس کا آغاز مشفق خواجہ کی...
محمد اکمل فخری کی مختصر کہانی، "استاد بمقابلہ ڈینگی" ایک طنزیہ اور مزاحیہ داستان کو سامنے لاتی ہے جو سماجی...
پنجابی زبان کے معروف شاعر اور ایم اے او کالج لاہور کے شعبہ پنجابی کے ریٹائرڈ استاد پروفیسر یونس احقر...
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے وفات :...
ہر نفس شورشِ آلامِ جہاں ہے ساقی حاصل دیدہ خوننا بہ فشان ہے ساقی پھر کوئی رنگ کہ رُک جائے...