(Last Updated On: )
علامہ محمد حبیب احمد سعیدی ( لاہور)
علامہ پیرسیدصبغت اللہ سہروردی صاحب پریشان ہوں آپ سے تعزیت کروں یا عالم اسلام سے۔
دل ہے کہ پھٹا جا رہا ہے اہلسنت کی علمی یتیمی میں اور اضافہ ہو گیا علم عمل کا پہاڑ ہم سے روٹھ گیا آپ نے اہلسنت میں آنکھ کھولی پیری مریدی کی گدی ملی ہوئی تھی مگر روایتی پیر بننے کے بجائے اصل کی طرف لوٹے اور علم حاصل کرنے کی ٹھانی مگر ہماری طرح گڑہتی میں ملنے والے عقیدے پرذندگی گزارنے کے بجائے اپنا راستہ خود چنا اور دوسرے مکتب فکر سے پڑھنے کا فیصلہ کیا
پڑھ کر آئینے کا ایک رخ دیکھ کر زندگی نام نہیں کی حق ملنے پر حق کے راہی ہوئے صرف روحانی پھونکوں سے علم پھیلانے کو کم جانا اور اقراء کے راستے پر چل کر تحریری علم سے زمانے کو روشن کرکے عشقِ مصطفیٰؐ کا چراغ لے کر رخصت ہو گئے چہرہ بتا رہا ہے کہ آج زیارتِ مصطفیٰؐ سے مستفید ہونے کو بیتاب ہیں اور یہ کہنے کو بیتاب ہیں کہ نانا جی نواسہ اپنے حصے کا کام کر آیا ہے قبول فرمائیے
حضرت پیر صاحب سے میری محبتوں کا خاص حوالہ خاندانی ہے میں اپنے ماموں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی ؒ کی خدمت میں کچھ عرصہ رہا آپ جن لوگوں سے محبت فرماتے تھے فتاوی رضویہ کی ہر نئی جلد چھپنے پر ان کے پاس خودلے کر جاتے یا میری محبتوں کے محور اور جامعہ نظامیہ کی جان، شان ، آن استاذ محترم شیخ الحدیث حافظ محمد عبدالستار سعیدی کو بجھواتے یا پہنچانے کا کہتے کبھی ہم بھی ساتھ ہوتے اور بچہ ہونے کی وجہ سے سوچتا کہ کرایہ لگا کر کتابیں بھی مفت دے دیں مگر جب ہوش آیا تو سمجھ آئی کہ علم والوں کی قدر کرتے اور کرواتے تھے مجھے تب تو ہوش نہیں تھی مگر اب ان لوگوں سے شدید محبت ہے ان ہی میں سے میرے ممدوح ادیب شہیر زینت قلم وقرطاس مصنف کتب کثیرہ علامہ پیر سید فاروق القادری بھی تھے ۔آپ سے نیازمندی کی دوسری وجہ اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کا نام جب کالجز اور یونیورسٹیوں میں لینا بھی ممنوع تھا تب آپ نے فاضل بریلوی اور امور بدعت لکھ کر ہر حق کے متلاشی کے دل میں فاضل بریلی کی محبت روشن کی۔
آپ سے عشق کی ایک وجہ ہمارے استاذ گرامی قبلہ علامہ ظہیر بٹ صاحب استاذ الحدیث جامعہ نظامیہ بھی ہیں آپ کے حکم پر جامعہ کے اکثرطلباء نے قبلہ ادیب شہیر کی تصنیف اصل مسئلہ معاشی ہے لے کر پڑھی اور ادیب شہیر کی تحریروں کے شیدائی ہو گئے۔
قبلہ مجسمہ عجز و انکساری سے نیازمندی کی ایک وجہ میرے ہم جماعت علامہ ڈاکٹر حق النی سکندری،
میرے استاذ گرامی علامہ کاشف جمیل صاحب،علامہ عارف ستارالقادری،صاحب کو یاد ہو گا جب بزم رضا کی خدمت ہمارے سپرد تھی مفتی اعظم ؒ کی برسی کے موقع پر مخدوم ملت سیمینار بزم کروا رہی تھی تب علامہ طاہر عزیز باروی صاحب نے قبلہ شاہ صاحب سے رابطہ کیا(تب ہم پروٹوکول سے ناواقف تھے کہ علم کے اس پہاڑ سے وقت لینے کیلیئے ہمارے استاذ انکے پاس چل کر بھی جاتے تو کم تھا) ہم نے بے ادبی کا مظاہرہ کیا جسکا احساس آج ہو رہا ہے مگر آپ نے کمال شفقت سے فرمایا کہ لازمی حاضری ہو گی مگر سخت علیل تھے تشریف نہ لا سکے مگر بڑا پر مغز مقالہ لکھ کر ارسال فرمایا اس سے بھی بڑی شفقت یہ فرمائی کہ ہم کم علم طالبعلموں کو معزرت نامہ بھی لکھ کر اپنی عاجزی کا ثبوت دیا جس پر ہم آج بھی شرمندہ ہیں اے میرے آقا ومولی کے نواسے کہاں ہم کم علم وعمل و غلام نسب خاک اور کہاں آپ علم و عمل ونسب کے کوہ ہمالیہ۔
آپ پر صبح سے لکھ رہا ہوں کوئی لفظ لکھتا ہوں مٹاتا ہوں لکھتا ہوں مٹاتا ہوں کہ کہیں آپ کی شان سیکم نہ ہو کہیں آج جب اپنے نانا کی بارگاہ میں جائیں تو ہماری شکایت ہی نہ لگا دیں کہ ہمارے بارے لکھنا بھی نہیں آتا مگر کہاں سے لاوں آپ کے لیئے لفظ شاہ جی جیسے پہلے طالبعلمی کے وقت کرم فرمایا تھا آج بھی فرما دیجیئے ان ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو قبول فرمائیے اور وقت ملاقات اس کم علم وعمل کا بھی کہہ دیجئے یہ کم نسب بھی ہم سے پیار کرتا ہے آپ کی وجہ سے۔
یارسول اللہ اس سمیت سب محبین اہل بیت پر کرم فرمائیے۔
آپ کے صاحب زاد ے سید صبغت اللہ سہروردی آپ کے فکر و فقر کے وارث ہے۔ قبلہ سید صبغت اللہ سہروردی آپ سے آخر میں گزارش ہے کہ آپ کے علم،مطالعہ،تحقیق،زبان و کلام کے ہم معترف ہیں آپ ان کے مسند نشین ہیں تو ان کے کام کو آگے بڑھائیں اور اس انداز میں براجمان ہوں کہ ان کی یاد تازہ ہو۔
٭٭٭