(Last Updated On: )
طارق ملک ( اللہ آباد)
ہزاروں سال قدیم وادیِ ہاکڑہ جو موجودہ بہاولپور ڈویژن کے علاقہ پر مشتمل تھی اپنی زرخیزی اور شادابی کے باعث نہایت معروف تھی مختلف قوموں اور مذاہب کے عروج و زوال کی داستانیں سناتی وادی ہاکڑہ ہمیشہ بیرونی اقوام اور حملہ آوروں کا ہدف رہی ہے قریباً تین ہزار سال قبل مسیح میں’’ دراوڑ‘‘ قوم جو مصر میں بحر روم کے ساحلی علاقے میں آباد تھی سب سے پہلے وادیِ ہاکڑہ میں آباد ہوئی پھر’’ آریا ‘‘ قوم نے قدم رکھا پھر وقت کے ساتھ ساتھ دوسری بہت سی اقوام اور حملہ آوروں کی آمد ہوئی جس سے وادی ہاکڑہ تہ و بالا ہوتی رہی اور جب عباسیوں نے بطور حکمران یہاں حکومت قائم کی تو جنگ و جدل،لوٹ مار اور تباہی و بربادی کے کئی واقعات رونما ہوئے جو تاریخ کا ایک سیاہ باب ہیں۔
تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ عباسی خاندان کے امیر چنی محمد خان عباسی کی وفات کے بعد عباسی خاندان دو حصوں’’’ کلہوڑا اور داؤدپوترہ ‘‘ میں تقسیم ہو گیا تھا۔ کلہوڑا امیر چنی محمد خان عباسی کے پوتے تھے جنہوں نے اپنے دادا کی وفات کے بعد حکومت پر قبضہ کر لیا اور اپنے چچا داؤد خان عباسی کو شکار پور (سندھ) سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا داؤدپوترہ خاندان کے لوگ 1726ء میں شکار پور سے نقل مکانی کر کے ڈیرہ غازی خان کے علاقہ’’بیٹ دبلی‘‘ میں آکر مقیم ہوگئے ۔داؤدپوترہ خاندان کے امیر محمد مبارک خان عباسی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے امیر صادق محمد خان عباسی (اوّل) جانشین بنے تو اوچ شریف کے روحانی بزرگ حضرت مخدوم شیخ عبدالقادر گیلانی ؒ جو کہ تحریک انصاف کے رہنما و ممبر قومی اسمبلی مخدوم سید سمیع الحسن گیلانی کے جد اعلیٰ تھے نے انہیں اوچ شریف آمد کی دعوت دی چنانچہ 1727ء میں امیر صادق محمد خان عباسی(اوّل) بیٹ دبلی سے اوچ شریف آئے ان دنوں نواب حیات اللّٰہ خان ملتان کے صوبیدار تھے امیر صادق محمد خان عباسی (اوّل) نے حضرت مخدوم شیخ عبد القادر گیلانیؒ کے کہنے پر نواب حیات اللّٰہ خان سے ملتان میں ملاقات کی تو نواب حیات اللّٰہ خان نے حضرت مخدوم شیخ عبد القادر گیلانیؒ کی سفارش پر ”چودری” نام کی ایک جاگیر امیر صادق محمد خان عباسی(اوّل) کو عنایت کر دی جنہوں نے 1728ء میں تاریخ کے قدیم اور گم گشتہ دریائے گھاگھرا (سرائیکی زبان میں گھاگھرا دریا گھارا نام سے موسوم ہے جو بعد ازاں موجودہ لیاقت پور اور اللّٰہ آباد کے درمیان پہلے دریائے ستلج اور پھر ترکڑی نام سے بہتا تھا) کے غربی کنارے و موجودہ ریلوے اسٹیشن لیاقت پور کے مغرب میں 6 کلومیٹر دور سطح سمندر سے 370 فٹ بلند ٹیلے پر آباد ایک قصبہ ’’ اللّٰہ آباد‘‘ کو اپنا دارالحکومت قرار دیا ابھی امیر صادق محمد خان عباسی (اول) علاقے میں اپنی حکومت کی جڑیں مضبوط کر رہے تھے کہ ریاست جیسلمیر (انڈیا) کے حاکم ”راول اگھی سنگھ” کا بھائی ’’نہر سنگھ‘‘ اللّٰہ آباد پر حملہ آور ہوا
1 : نہر سنگھ کا حملہ
کلہوڑوں کو جب امیر صادق محمد خان عباسی (اوّل) کی اللّٰہ آباد میں حکومت کے متعلق معلوم ہوا تو انہوں نے ریاست جیسلمیر کے حاکم راول اگھی سنگھ کو امیر کے خلاف بھڑکایا جبکہ راول اگھی سنگھ نے بھی اللّٰہ آباد میں مسلم حکومت کے قیام اور اس کی ترقی کو اپنے لیے خطرہ سمجھا چنانچہ راول اگھی سنگھ نے 1729ء میں اللّٰہ آباد پر حملہ کرنے کے لیے اپنے بھائی نہر سنگھ کی کمان میں فوج روانہ کی جب امیر صادق محمد خان عباسی (اوّل) کو جیسلمیری فوج کے حملہ کے متعلق اطلاع ملی تو انہوں نے اپنی فوج کو مقابلے کا حکم دیا جونہی نہر سنگھ کی فوج نے حملہ کیا تو امیر کی فوج نے جیسلمیری فوج کا جوانمردی سے مقابلہ کیا اور انہیں شکست دے کر نہر سنگھ کو گرفتار کر لیا راول اگھی سنگھ کو اپنی فوج کی شکست اور بھائی کی گرفتاری کا شدید صدمہ ہوا اور وہ بدلہ لینے کے لیے موقع کی تلاش میں رہنے لگا
2 : راول اگھی سنگھ کا حملہ
اللّٰہ آباد پر دوسرا حملہ راول اگھی سنگھ نے کیا سال 1731ء میں نواب حیات اللّٰہ خان کے حکم پر امیر صادق محمد خان عباسی(اوّل) اپنی فوج کے ہمراہ ’’ فرید خان لکھویرا ‘‘ کے خلاف جنگ کے لیے شہر فرید (شہر فرید چشتیاں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے) روانہ ہو گئے امیر ابھی لکھویروں کے خلاف جنگ میں مصروف تھے کہ راول اگھی سنگھ نے اللّٰہ آباد پر حملہ کر دیا اور خوب لوٹ مار کرنے کے بعد شہر کو آگ لگا دی شہر کو شدید نقصان پہنچانے کے بعد اس کی فوج ابھی واپس ہی ہوئی تھی کہ امیر صادق محمد خان عباسی لکھویروں کے خلاف جنگ میں فتح کے بعد واپس اللّٰہ آباد لوٹے تو انہوں نے اللّٰہ آباد کی تباہی و بربادی کو دیکھ کر غارت گر جیسلمیری فوج کا تعاقب کر کے جوابی حملہ کر دیا۔ سخت لڑائی ہوئی اطراف کے کئی فوجی مارے گئے شدید حملوں سے جیسلمیری فوج کے قدم اکھڑ گئے اور وہ’’ قلعہ ڈیراور ‘‘ کی طرف پسپا ہونے لگی اس وقت قلعہ ڈیراور حاکم جیسلمیر کے قبضہ میں تھا اور’’ بیکا‘‘ نامی شخص قلعہ کا کوتوال (محافظ قلعہ) تھا جب جیسلمیری فوج پسپا ہوتی ہوئی قلعہ ڈیراور پہنچی تو بجائے اس کے کہ قلعہ کا کوتوال و دیگر قلعہ کے محافظ اپنی فوج کے ساتھ قدم جماتے ساری فوج بھاگ کھڑی ہوئی امیر صادق محمد خان عباسی (اوّل) نے قلعہ ڈیراور فتح کر لیا اور بیکا کا تعاقب کر کے امیر کے فوجیوں نے قلعہ ڈیراور سے 19 کلومیٹر دور گرفتار کر لیا یہ جگہ آج بھی ’’بیکا والا کنڈا‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
3 : سردار طہ اسپ خان کا حملہ
سال 1739ء میں ایران کے بادشاہ’’ نادر شاہ درانی‘‘ نے امیر صادق محمد خان عباسی (اوّل) کو سندھ میں شکار پور، لاڑکانہ و دیگر کچھ علاقے عنایت کیے تو شکار پور ایک دفعہ پھر داؤدپوترہ خاندان کے قبضہ میں آگیا امیر صادق محمد خان عباسی (اوّل) نے ولی عہد شہزادہ محمد بہاول خان عباسی (اوّل) و مستورات و مخدارات حرم کو اللّٰہ آباد سے شکار پور بلوا لیا دریں اثناء قتل کی ایک اہم واردات ہوئی جو اللّٰہ آباد پر تیسرے حملے کی وجہ بنی ہوا یوں کہ امیر صادق محمد خان عباسی (اوّل) کے دست راست ’’ شیخ صادق ‘‘ جو امیر کی طرف سے نادر شاہ درانی کے دربار میں وکالت کے فرائض انجام دیتے تھے اپنی صلاحیتوں کی بدولت’’ دربار نادری‘‘ سے بکھر ( سندھ کے شہر سکھر کا پرانا نام بکھر تھا) کا علاقہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے حاکم بکھر بن جانے کے بعد شیخ صادق نے امیر صادق محمد خان عباسی (اوّل) اور اس کی رعایا کو طرح طرح کے نقصانات پہنچانا شروع کر دیے جب وہ حد سے بڑھنے لگا تو امیر کے آدمیوں نے شیخ صادق اور اس کے بیٹے شیخ عاقل کو قتل کر دیا قتل کے واقعہ کے بعد شیخ صادق کے درسرے بیٹے شیخ فاضل نے اپنے والد اور بھائی کے قتل کی اطلاع دربار نادری میں بھجوائی واقعہ کی خبر جب امیر صادق محمد خان عباسی (اوّل) کو ہوئی تو وہ ایران میں دربار نادری کے لیے روانہ ہوئے تاکہ قتل کے معاملہ کو سلجھایا جا سکے ادھر نادر شاہ درانی نے امیر صادق محمد خان عباسی (اوّل) سے ہلاکتوں کا بدلہ لینے کے لیے سردار طہماسپ خان کو امیر اعظم مقرر کیا سردار طہ اسپ خان جب بدلہ لینے کے لیے شکار پور کے قریب پہنچے تو ولی عہد شہزادہ محمد بہاول خان عباسی (اوّل) مقابلہ کی سکت نہ پا کر مستورات و مخدارات کے ہمراہ شکار پور سے اللّٰہ آباد کے لیے روانہ ہو گئے ۔جب سردار طہہ اسپ خان شکار پور پہنچے تو نور محمد کلہوڑا نے اپنے بیٹے عطر خان کلہوڑا کے ذریعے سردار طہ اسپ خان کو پیغام بھجوایا کہ امیر صادق محمد خان عباسی خود تو ایران چلے گئے ہیں جبکہ ان کا ولی عہد شہزادہ محمد بہاول خان عباسی اللّٰہ آباد میں ہیں اور قلعہ ڈیراور بھی ان کے قبضہ میں ہے بہتر ہے ان پر حملہ کر کے فتح حاصل کی جائے چنانچہ سردار طہ اسپ خان عطر خان کلہوڑا کی باتوں میں آکر اللّٰہ آباد پر حملہ آور ہوا مگر ابھی تک ولی عہد شہزادہ محمد بہاول خان عباسی (اوّل) ابھی راستے میں ہی تھے کہ انہیں اللّٰہ آباد پر حملے کی خبر ملی چنانچہ انہوں نے اپنی تمام مستورات و مخدارات کو اوباڑو (سندھ) میں ٹھہرایا اور خود قلعہ’’ ویکم پور‘‘کی طرف چلے گئے۔
4: داؤدپوتروں کا حملہ
اللّٰہ آباد پر چوتھا حملہ داؤدپوتروں نے نواب محمد بہاول خان عباسی (رابع) کے دور حکومت میں کیا تب تک دارالحکومت اللّٰہ آباد سے بہاولپور منتقل ہو چکا تھا 1859ء میں صاحبزارہ گل محمد خان عباسی جو کہ نواب محمد بہاول خان عباسی (ثالث) کے پانچویں بیٹے تھے اللّٰہ آباد اور گیدڑ والہ (گیدڑ والہ کا موجودہ نام امین آباد ہے جو اللّٰہ آباد کے مغرب میں 9 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے) کے داؤدپوتروں پنوں خان، نظر محمد خان، یوسف خان، مندھو خان، عاقل محمد خان، احمد خان، علی رانجھا و بہرام خان چانڈیہ کو پیغام بھجوایا کہ وہ دیگر داؤدپوتروں کو ہمراہ کرکے بلوا کر دیں اور مجھے حکومت دلائیں جس کے بدلے میں میں انہیں جاگیریں ، انعام اور خلعتیں دے کر مالا مال کر دوں گا تاہم ابھی کوئی عملی اقدام نہیں ہوا تھا کہ صاحبزارہ گل محمد خان عباسی رات کو کرایہ کی سواری پر سوار ہو کر نظر محمد خان کی قیام گاہ پہنچ گئے نواب محمد بہاول خان عباسی (رابع) کو جب اس سازش کی اطلاع ملی تو انہوں نے غلام محمد خان کو فوج دے کر اللّٰہ آباد بھیجا جس نے صاحبزارہ گل محمد خان عباسی کو فوراً گرفتار کر کے قلعہ ڈیراور لے جاکر بند کر دیا۔ 1863ء میں اللّٰہ آباد و گیدڑ والہ کے مذکورہ بالا داؤدپوتروں نے نواب محمد بہاول خان عباسی (رابع) کی حکومت کا تختہ الٹنے اور صاحبزارہ گل محمد خان عباسی کو قید سے نکال کر حکومت دلانے کے لیے ایک جمعیت تیار کی۔ لہٰذا وہ اپنی جمعیت کے ہمراہ ابھی چودری (لوک روایت ہے کہ موجودہ بس اڈہ لیاقت پور کے مقام پر ایک ٹھل (ستون) بنا ہوا تھا جس کے چاروں طرف دروازے تھے اور وہ ٹھل چودری کے نام سے موسوم تھا بعد ازاں یہ لفظ چودری سے بگڑ کر چوہدری بنا اور جب انگریزوں نے ریلوے لائن بچھائی تو انہوں نے چودری کے قریب ریلوے اسٹیشن کا نام بھی چوہدری رکھا جو بعد میں ریلوے اسٹیشن لیاقت پور کے نام سے تبدیل ہوا تاہم چوہدری نام کا ایک موضع اور ایک مائنر آج بھی موجود ہیں) تک ہی پہنچے تھے کہ نواب بہاول خان عباسی (رابع) کو حملے کے متعلق علم ہوا تو انہوں نے علی گوہر خان کی کمان میں فوج روانہ کی جس نے موجودہ پولیس چیک پوسٹ جندو پیر کمال کے قریب بستی ابڑہ کے مقام پر داؤدپوتروں کے خلاف جنگ کرکے انہیں دریا پار بھاگنے پر مجبور کر دیا جبکہ نواب نے ان کی تمام جاگیریں ضبط کر لیں 20 نومبر 1864ء کو عاقل محمد خان، نظر محمد خان، احمد خان، علی رانجھا و دیگر داؤدپوترے جو دریا پار مقیم تھے انہوں نے قرآن پاک کی پشت پر یہ اقرار لکھ کر نواب محمد بہاول خان عباسی (رابع) کی خدمت میں بھجوایا کہ اگر ان کے قصور معاف کر کے ان کی ضبط شدہ جاگیریں واپس کر دی جائیں تو وہ پھر کبھی ماضی جیسی حرکت نہیں کریں گے نواب بہاول خان عباسی (رابع) نے جب ان کا اقرار نامہ پڑھا تو حکم دیا کہ اگر وہ اپنی جمعیت کو منتشر کر کے واپس آ جائیں تو پھر ان کی معافی اور ضبط شدہ جاگیروں کے متعلق سوچا جا سکتا ہے مگر داؤدپوتروں کو نواب کے اس حکم سے کوئی تشفی نہ ہوئی چنانچہ انہوں نے 9 دسمبر 1864ء اللّٰہ آباد اور خان بیلہ پر حملہ کر کے سرکاری و رعایا کا مال مویشی غارت کر دیا نظر بند قیدیوں کو آزاد کرا لیا سرکاری غلہ کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا اور مہاجنوں کو گرفتار کر کے جس قدر جی میں آیا روپیہ زبردستی وصول کر لیا نواب محمد بہاول خان عباسی (رابع) کو جب اللّٰہ آباد پر حملے کی خبر ملی تو انہوں نے فوراً کاردار اللّٰہ آباد غلام رسول خان کو داؤدپوتروں کی سر کوبی کا حکم دیا غلام رسول خان نے سید چراغ شاہ کی کمان میں فوج روانہ کی جنہوں نے داؤدپوتروں کے خلاف جنگ کرکے علی رانجھا کو قتل کر دیا جبکہ نظر محمد خان، احمد خان و دیگر کو گرفتار کر لیا۔
5: بہرام خان چانڈیہ کا حملہ
اللّٰہ آباد پر پانچواں اور آخری حملہ بہرام خان چانڈیہ نے علی رانجھا کے قتل و داؤدپوتروں کی گرفتاری کے چند ماہ بعد 4اگست 1865ء کو کیا بہرام خان چانڈیہ نے مندھو خان، داؤدپوترہ ، کھوسوں، مزاریوں و دیگر کو ہمراہ کرکے اللّٰہ آباد پر حملہ آور ہوا اور خوب لوٹ مار کی نواب محمد بہاول خان عباسی (رابع) نے اطلاع پا کر سید چراغ شاہ کی کمان میں فوج روانہ کی 9 اگست 1865 ء کو سید چراغ شاہ نے نواب کو اطلاع بھجوائی کہ بہرام خان چانڈیہ کے آدمیوں کی تعداد زیادہ جبکہ ہماری فوج کی تعداد بہت کم ہے اطلاع ملتے ہی نواب نے حسن خان کی پلٹن اور دو توپیں بھی سید چراغ شاہ کے پاس بھجوا دیں 11 اگست 1865ء کو جنگ شروع ہوئی تو سیّد چراغ شاہ اور توپیں بہرام خان چانڈیہ کے قبضہ میں چلی گئیں جس سے اس کی طاقت میں مزید اضافہ ہوا نواب کو جب جنگ کی صورتحال معلوم ہوئی تو انہوں نے غلام محمد چاکی کی کمان میں مزید فوج روانہ کی 13اگست 1865ء کو غلام محمد چاکی اپنی فوج کے ہمراہ بستی ابڑہ کے قریب پہنچے تو بہرام خان چانڈیہ کے آدمیوں نے ان پر حملہ کر دیا اور جب لڑائی شروع ہوئی تو بہرام خان چانڈیہ کے آدمی جان بچا کر بھاگ کھڑے ہوئے 14 اگست 1865ء کو نواب کی فوج نے پیش قدمی کرکے جب نالے کے قریب پہنچی تو بہرام خان چانڈیہ کے آدمی جو نالے میں چھپے ہوئے تھے کمین گاہ سے نکلتے ہی حملہ کر دیا نتیجتاً نواب بہاول خان عباسی (رابع) کی فوج نے 14 لوگوں کے سر کاٹ لیے جبکہ کئی افراد کو گرفتار کر لیا 15 اگست 1865ء کو فوج نے مزید 20 افراد کو قتل کر دیا جبکہ مزید کئی افراد گرفتار کر لیے رات کو بہرام خان چانڈیہ اور مندھو خان داؤدپوترہ حالات کا رخ دیکھتے ہی توپیں میدان میں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور دریا پار کر گئے صبح ہوئی تو میدان خالی دیکھ کر نواب محمد بہاول خان عباسی (رابع) کی فوج نے توپوں کو قبضہ میں لے لیا جبکہ بہرام خان چانڈیہ کے فرار کے بعد پھر کسی کو بھی اللّٰہ آباد پر حملے کی جرات نہ ہوئی۔٭
*مضمون نگار نمائندہ روز نامہ جنگ/ جیو نیوزاور جنرل سیکرٹری حلقہ ادب لیاقت پورہیں ۔
غالب کے ہم تخلص شاعر
غالبؔ کے بعض محققین اور ان کے کلام کے بعض مرتبین نے کچھ ایسی غزلیں اور اشعار بھی مرزا غالبؔ سے منسوب کر دی ہیں جو حقیقتاً مرزا نوشہ کے نہیں ہیں بلکہ کسی دوسرے غالبؔ کے ہیں۔ یہ دھوکا محققین کو صرف اس لیے ہوا کہ انہوں نے غالبؔ تخلص کے دوسرے شعرا ء کے حالات و کلام پر تحقیقی نظر ڈالنے کی زحمت نہیں کی۔غالبؔ تخلص کے اور کئی شاعر اُردو شاعری کی تاریخ میں ان کے دوش بدوش موجود رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جس شہرت اور جس مرتبہ کو مرزا غالبؔ پہنچے وہ کسی دوسرے غالبؔ کو میسر نہ آیا ورنہ ان میں ایسے قادر الکلام اور صاحب کلام شاعر بھی موجود ہیں جو اساتذہ قدیم کی صف میں آتے ہیں۔
غالبؔ تخلص کے شعراء:1۔ مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالبؔ،2۔ مکرم الدولہ بہادر بیگ خان غالبؔ دہلوی،3۔ غالب علی خان غالبؔ،4۔ نواب مرزا امان علی خان غالبؔ،5۔ نواب سید الملک اسد اللہ خان غالبؔ (جو مرزا نوشہ کے ہم تخلص ہونے کے ساتھ ہم نام بھی ہیں)،6۔ حکیم محمد خان غالبؔ،7۔ انور علی غالبؔ،8۔ لالہ موہن لال غالبؔ،9۔ حاجی میاں غالبؔ،10۔ دکنی غالبؔ۔
حوالہ جات: 1 ۔گلشن بے خار۔از: نواب مصطفیٰ خان شیفتہ
2۔ غالبؔ، شاعر امروز و فردا۔ از: ڈاکٹر فرمان فتح پوری