(Last Updated On: )
پروفیسر عون محمد سعیدی مصطفوی ( بہاول پور)
یہ میرا طالب علمی کا زمانہ تھا، جب میں کتابوں کے عشق میں ملتان کے ایک ایک مکتبے کی خاک چھانتا تھا اور کئی کئی گھنٹے ہر ہر علم و فن کی کتابیں اٹھا اٹھا کر ان کی ورق گردانی کرتا تھا، یہاں تک کہ مکتبے والا تنگ آ کر مجھے صراحتا ًیا کنایتا ًروانگی کا عندیہ دیتا۔
اسی دوران سید محمد فاروق القادری کی کتب انفاس العارفین کا ترجمہ اور فاضل بریلوی اور امور بدعت میری نظر سے گزریں، کتابیں بھی بہت پسند آئیں نیز مترجم و مصنف کے نام کے ساتھ گڑھی اختیار خان بہاولپور لکھا دیکھ کر ملنے کا بھی اشتیاق پیدا ہوا۔
تب ذہن میں خیال تھا کہ گڑھی اختیار خان شاید بہاولپور شہر کا کوئی مضافاتی علاقہ ہے، سو جب ایک مرتبہ ملتان سے بہاولپور اپنے گھر والدین سے ملنے آیا تو سخت گرمی کے باوجود سائیکل اٹھائی اور سید محمد فاروق القادری کو ڈھونڈنے بہاولپور ریلوے اسٹیشن سے پار نکل گیا۔وہاں میں لوگوں سے پوچھتا پھر رہا تھا کہ گڑھی اختیار خان کس طرف ہے؟ کوئی کہتا پتہ نہیں ہے اور کوئی کہتا فلاں سمت چلے جاؤ شاید اس طرف ہو گا، کئی گھنٹوں کی سعی لاحاصل کے بعد تھکا ہارا گھر واپس لوٹ آیا۔یہ تو کئی عرصے بعد پتہ چلا کہ گڑھی اختیار خان تو بہاولپور سے کوئی ڈیڑھ سو کلومیٹر دور خان پور کا مضافاتی علاقہ ہے۔
بہرحال دل میں ہمیشہ اشتیاق رہا کہ اس مصنف و مترجم سے ملنا چاہیے۔ اسی دوران میں حصول تعلیم سے فراغت کے بعد مستقل بہاولپور آ گیا، رفتہ رفتہ جامعہ اور کالج کی تدریس کا سلسلہ شروع ہو گیا، خود بھی کتابیں لکھنا شروع کر دیں۔
2003 ء میں میرا تبادلہ گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور میں ہو گیا، یہاں 2008 ء میں مجھے بی اے کی کلاس کو اسلامیات پڑھانے کی ذمے داری ملی۔
کلاس میں ذہین طلبہ کی تلاش ہر اچھے استاد کو ہوتی ہے، مجھے بھی اس کلاس میں ایک ذہین اور خوبصورت طالب علم ملا، جس کا نام صبغت اللہ تھا، وہ نت نئے مختلف قسم کے مولویوں والے سوال کرتا تھا، میں بہت حیران ہوا کہ اس کالجی طالب علم کو مولویوں والی باتوں کا کیسے پتہ ہے، جستجو ہوئی کہ اس کا پس منظر معلوم کیا جائے، پوچھا کہ بیٹا کہاں رہتے ہو، والد کون ہیں اور کیا کرتے ہیں، اس نے بتایا کہ میرے والد کا نام فاروق القادری ہے، گڑھی اختیار خان کے رہنے والے ہیں اور کتابیں لکھتے ہیں۔
مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ یہ تو میرے بچپن کے سپنے میرے سامنے آ کھڑے ہوئے تھے۔میں نے اسے بتایا کہ مجھے تو آپ کے والد کی زمانہ طالب علمی سے تلاش تھی، لیکن یہ اندازہ ہرگز نہ تھا کہ اس طور پر ان سے رابطہ ہو گا۔
اب سید صبغۃ اللہ سہروردی صاحب سے بے تکلفی ہوتی چلی گئی، روز نئے نئے مسلکی و معاشرتی مسائل پر گفتگو ہوتی، وہ اپنی آراء اور سوالات پیش کرتے اور میں جواب میں اپنے فلسفے بگھارتا۔ خیر روئے گل سیر ندیدم کہ دیدار آخر شد والا معاملہ ہوا اور سید صبغۃ اللہ سہروردی چند ماہ بعد ہی امتحان دے کر واپس اپنے گھر چلے گئے، البتہ پی ٹی سی ایل فون کے ذریعے تھوڑا بہت رابطہ رہا،(تب موبائل فون کا رواج بہت کم تھا) ایک دو بار وہ بہاولپور آئے تو مجھ سے ملنے آئے، میں نے اپنی کچھ تحریریں ان کے ہاتھ ان کے والد گرامی کے لیے تحفۃ بھیجیں، پھر جب 2012 ء میں ماہنامہ متاع کارواں کا آغاز ہوا تو سید صبغۃ اللہ سہروردی صاحب کا ایڈریس معلوم کر کے ان کی طرف وہ بھی ارسال کرنا شروع کیا۔اس دوران ایک مرتبہ کسی کام کے سلسلے میں رحیم یار خان جانا ہوا تو سید صاحب کو آگاہ کیا، وہ مجھے اپنے گھر لے گئے اور ان کے والد گرامی سید محمد فاروق القادری صاحب سے ملاقات ہوئی، مختلف انقلابی علمی و فکری موضوعات پہ تبادلہ خیال ہوا۔انہوں نے میری تحریروں کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی اور میری کتاب سچا مسلک اہل سنت کے بارے میں فرمایا کہ اس کا مطالعہ ہر ہر سنی کے لیے لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔پھر کچھ عرصے بعد سید صبغۃ اللہ سہروردی صاحب نے مجھے اپنے ہاں اپنے بزرگوں کے عرس پر خطاب کے لیے مدعو کیا، میں نے وہاں تقریر میں علم کی اہمیت بیان کی سب حاضرین کو اس طرف متوجہ کیا کہ یہاں آستانے پر بھی ایک عدد بہترین جامعہ ہونا چاہیے۔بعد میں سید صاحب نے بتایا کہ ہم کوئی روایتی پیر نہیں ہیں بلکہ روایتی و رواجی پیروں کے مخالف پیر ہیں، ہمارے پاس کوئی ایسا آمدنی کا سلسلہ نہیں ہے کہ جامعہ کے اخراجات وغیرہ کے متحمل ہو سکیں۔
پھر ایک مرتبہ سید صبغت اللہ سہروردی صاحب اپنے والد گرامی کے ساتھ انہیں ڈاکٹر کو چیک کروانے کے لیے بہاولپور آئے تو راستے میں میری ان سے فون پر بات کروائی، میں نے عرض کی کہ آج دوپہر کا کھانا ہمارے ہاں ہو جائے، فرمایا کہ بس آپ کے پاس صرف چائے پییں گے، کھانے وغیرہ کا کوئی تکلف نہیں کرنا۔
دونوں باپ بیٹا میرے پاس جلوہ گر ہوئے اور فقط چائے نوشی پر اکتفا کیا، میں نے اپنی کتابوں کا سیٹ قبلہ سید صاحب کی خدمت میں پیش کیا، آپ نے فرمایا کہ ایک تو آپ کی تحریر بہت زبردست ہے،لوگوں کے لیے بھی اس کی تربیت کا اہتمام کریں اور دوسرا یہ بتائیں کہ کتابوں کی اشاعت کے لیے وسائل کہاں سے لاتے ہیں، یہ تو مشکل ترین کام ہے، ہم لکھ تو لیتے ہیں مگر اشاعت کے لیے کوئی سورس نہیں ہے۔۔یہ گر ہمیں بھی بتائیں۔
میں نے عرض کیا کہ بس خدا تعالیٰ ہی انتظامات فرما دیتا ہے، ظاہری طور پر یہاں بھی کوئی بھاری بھرکم اسباب نہیں ہیں۔
پھر میں نے اپنے جامعہ کے بارے میں کچھ تاثرات لکھ دینے کی گزارش کی تو انہوں نے کمال شفقت فرماتے ہوئے رجسٹر پر انتہائی خوبصورت تاثرات رقم کیے۔بعد ازاں بہت سی دعائیں دے کر رخصت ہوئے۔
حضرت علامہ سید محمد فاروق القادری یقینا ایک عظیم شخصیت تھے، انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری، چالیس سے زائد کتب کے مصنف اور بہترین مترجم تھے، تصوف کے ساتھ خصوصی شغف تھا، روایتی پیری مریدی نظام سے متنفر تھے اور عوام اہل سنت میں رائج بعض ناروا امور پر راقم کی طرح بجا طور پر تنقید کیا کرتے تھے۔
وہ 73 سال کی آئیڈیل زندگی گزار کر اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے، ان کے بچھڑنے کا مجھ سمیت ہر درد دل رکھنے والے سنی کو شدید صدمہ ہے۔ان کی وفات حسرت آیات سے علم و قلم، دین و دانش اور اسلاف کی روایتوں کی امین ایک بہت بڑی تاریخ رخصت ہو ۔ہم ایک عہد ساز شخصیت سے محروم ہو گئے۔
یہ خوش آئند و قابلِ اطمینان بات ہے کہ سید صاحب کے فرزند اور علمی جانشین سید صبغت اللہ سہروردی ان کے منبر و محراب کے وارث ہیں اور بہت فاضل انسان ہیں۔اپنے اسلوب تحریر کے باعث علمی دنیا میں ایک منفرد نام رکھتے ہیں۔کئی کتابیں لکھ چکے ہیں اور کافی تراجم کیے ہیں مختلف قومی اور بین الاقوامی جرائد و رسائل اور اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں۔
اللہ تعالٰی اس خانقاہ کے علمی و روحانی فیوض و برکات سے سب کو مستفیض فرمائے۔آمین
٭٭٭