(Last Updated On: )
آسٹریا کے مشہور ماہرِ نفسیات سگمنڈ فرائیڈ (Sigmund Fried) کے بقول تہذیب کا آغاز اُس وقت ہوا جب کسی نے غصے میں آ کر پتھر کی بجائے’لفظ‘ سے وار کیا‘ تہذیب کسی بھی خطے میں بسنے والے اَفراد کے طرزِ زندگی، زبان، علم و ادب،حکمت و فلسفہ، عقائد اور فنونِ لطیفہ ایسے عوامل کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ہاکڑہ بھی ہزاروں سال قدیم ایک تہذیب ہے۔ صحرائے چولستان، شکست و ریخت کا شکار درجنوں چولستانی قلعے،سوئی وہار کا اسٹوپا اور پتن منارہ ہاکڑہ کے تہذیبی خدوخال ہیں جو اپنے اندر عروج و زوال کی ایک عظیم داستان سموئے ہوئے ہیں۔
ہاکڑہ تہذیب جو سابق ریاست بہاولپور کے تین اضلاع بہاول نگر، بہاول پور اور رحیم یار خان کے وسیع وعریض رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشی اور روحانی طور پر مردم خیز چلی آ رہی ہے۔خصوصاً علم وادب کے لحاظ سے اس دھرتی نے ایسی ایسی نابغۂ روزگار شخصیات کو جنم دیا ہے جنہوں نے ملک بھر میں اپنی بھر پور صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ خصوصاً تحصیل خان پور (ضلع رحیم یار خان) کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس تحصیل کے ایک تاریخی قصبہ چاچڑاں شریف میں ہفت زبان صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ نے آنکھ کھولی جن کا شہرہ آفاق ’’دیوانِ فرید‘‘ اپنی مثال آپ ہے۔ تحصیل خان پور کے دیگر قصبوں دین پور شریف، گڑھی اختیار خان، شاہ آباد شریف،دھریجہ نگر اور خان پور شہر وہ مراکز ہیں جن میں کہیں روحانیت کے چراغ جلتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کہیں علم و ادب کی قندیلیں روشن دکھائی دیتی ہیں۔
ریشمی رومال تحریک کے سرخیل رہنما مولانا عبیداللہ سندھی ؒ،’’دیوانِ محمدی‘‘ کے مصنف خواجہ محمد یار فریدیؒ، متعدد کتب کے مصنف،مؤلف و مترجم علامہ سید محمد فاروق القادری ؒ، شعری مجموعہ’’بیتابی‘‘ کے خالق خواجہ غلام قطب الدین فریدی، سینکڑوں کتب کے ناشر، مصنف و مؤلف ظہور احمد دھریجہ، درجنوں کتب کی نشرو اَشاعت کرنے والے معروف اُستاد شاعر اور ادیب قاصر جمالی( مرحوم)، دیوانِ فرید بالتحقیق‘ کے محقق و ماہر فریدیات مجاہد جتوئی، نصف درجن سے زائد شعری مجموعوں کے خالق حفیظ شاہد(مرحوم) ، دو شعری مجموعوں’رفاقت ِ غم‘ اور’عشق چلا تھا اوڑھ کے چادر‘ کے خالق اظہر عروج، تحقیقی مقالہ’خان پور میں اُردو غزل‘ کے مقالہ نگار ڈاکٹر نذیر احمد بزمی،متعدد شعری مجموعوں کے خالق اور صدارتی ایوارڈ یافتہ امان اللہ ارشد،کالم نگار انیس دین پوری( مرحوم)، کالم نگار حبیب اللہ خیال اور خان پور کے نوجوان محقق، مضمون نگار، خطاط اور مدیرمجلہ ’’ شعوروادراک ‘‘ ،محمد یوسف وحید اس دھرتی کے وہ مستند حوالہ جات ہیں۔جنہوں نے تحصیل خان پور کے علمی و ادبی تشخص کو جلا بخشی ہے۔ علاوہ ازیں متعدد ادیب و شعراء یاور عظیم، شبیر طاہر حمایتی، سعید ثروت، فیض احمد اسیر،طارق امین یازر، شہباز شازل،محمد عارف گوپانگ، آفاق بلوچ، عمران عاقل، صفدر بلوچ، عبدالستار زائر، عمر فاروق بلوچ،کلیم احمد کلیم، مکی اکمل کورائی، محمد اختر درانی، و دیگر بھی ادب کی آبیاری میں مصروف عمل ہیں۔ ایوب احمد دھریجہ مرحوم کے مضامین و نثر پارے اور مرزا حبیب الرحمن ایسے سخن فہم بھی خان پور کے ادبی حلقوں کے لیے کسی اثاثہ سے کم نہیں ہیں۔خان پور میں تخلیق، تحقیق، تصنیف اور تالیف کا تسلسل ابھی جاری ہے۔ محمد یوسف وحید کی خان پور کی نثر و شعر کی 120 سالہ تاریخ پر مشتمل نئی تحقیق ’’خان پور کا ادب‘‘ ادبی دنیا میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ جہانِ اَدب میں محمد یوسف وحید کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ علم و ادب کے جلتے چراغوں کی روشنی میں پرورش پانے والے محمد یوسف وحید نے بہت کم عرصہ میں اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی منفرد پہچان بنائی ہے۔ وہ علم و ادب کے بحرِ بے کراں کا ایک ایسا غواص ہے جو بحر میں چھپے خزانوں کو ڈھونڈ نکالتا ہے۔ بچوں سے لے کر بوڑھوں تک اور چھوٹوں سے لے کر بڑوں تک سبھی کے علمی و ادبی ذوق کی تسکین کا سامان مہیا کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ محمد یوسف وحید ایک مہم جو رائیٹر ہے جس نے شاعری، کہانی نویسی، مضمون نگاری اور خطاطی کے بعد تحقیق کے میدان میں قدم رکھ کر خود کو منوایا ہے۔ ’’خان پور کا ادب‘‘ اس کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ محمد یوسف وحید نے بظاہر خان پور کی نثر و شعر کی 120 سالہ تاریخ کو اپنا موضوع بنایا ہے مگر حقیقت میں علم سے عالم تک، ادب سے ادیب تک اور تاریخ سے مؤرخ تک کے ان تمام عوامل کو یکجا کر دیا ہے جو ایک مہذب معاشرے کی تشکیل کی پہلی ضرورت ہوتے ہیں۔ تہذیب و تمدن، تاریخ، ثقافت، سماجیات اور علم و ادب کے در وَا کرتی محمد یوسف وحید کی تحقیق’’خان پور کا ادب‘‘یقینا تشنگانِ علم و ادب کی پیاس بجھانے کا باعث بنے گی جب کہ ادبی اُفق پر محمد یوسف وحید کا نام بھی روشن ستاروں کی طرح جگمگاتا رہے گا۔ان شاء اللہ
(بحوالہ : خان پور کا اَدب ، تحقیق و تالیف: محمد یوسف وحید ، ناشر: الوحید ادبی اکیڈمی خان پور ، 2021ء )
٭٭٭