(Last Updated On: )
ڈاکٹرعادل سعید قریشی (ایبٹ آباد) جائزہ
احمد حسین مجاہدکی شاعری اپنے عہد کی ایک تازہ لب ولہجہ رکھنے والے شاعرکا معجزہ فن ہے۔ہزارہ میں شاعروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور وہ سب کے سب اپنے اپنے فن شعر میں باکمال ہیں لیکن بحیثیت قاری مجھے بھی یہ حق حاصل ہے کہ میں احمد کو اپنا پسندیدہ شاعر قرار دے دوں اور اس کی شاعری کو اکیسیویں صدی کی اردو شاعری کی رحجان ساز اور میلان گر شاعری کہہ دوں۔میں نے احمد کے اسلوب کو موضوع کے طور پر چنا تھا لیکن احمد کے اُسلوب پر ایک مقالہ کسی طور نہیں لکھا جا سکتا ہاں البتہ کتاب کی صورت ضرورممکن ہے لہٰذا میں احمد کی لفظیات پر بات کروں گا۔ لفظیات کی جتنی بھی تعریفیں آپ جانتے ہیں وہ سبھی مجھے قبول ہیں اور خود میرے نزدیک لفظیات سے مراد کسی شاعر کی وہ زبان (ڈکشن)ہے جس کو برت کر وہ اپنے خیال کو اس کے ترفع سمیت قاری کے دل و دماغ پر مرتسم کر دیتا ہے۔لفظ ڈکشن انگریزی زبان میں لفظیات کے لیے برتا جاتا ہے۔ ذخیرہ الفاظ بھی کہا جاتا ہے ۔لفظیات کو ناقدان ادب نے بڑی کلیدی حیثیت دی ہے ۔ اس کے حصول پر بھی اصرار کیا ہے ۔یہ بات اپنے رد میں کوئی دلیل نہیں رکھتی کہ صلاحیتِ شعر ودیعت ہو تی ہے اور شاعری کو ایک معیار تک لے جان کے لیے اس شاعر کو محنت اور اکتساب ِفن کرنا پڑتا ہے۔اکتساب میں سب سے بڑی سند یہی ذخیرہ الفاظ اور ڈکشن کا حصول ہے۔ اسی خوبی کو لانجینس نے بہتریں شاعری کی اولین شرط قرار دیا ہے۔(۱)ورڈزورتھ شاعری کے لیے عام بول چال کی زبان کو تجویز کرتا ہے۔(۲) احمد کے ہاں یہ شرائط بدرجہ اتم موجود ہیں اور اس کی شاعری اپنے جاندار ڈکشن کے سبب اردو شاعری میں ایک سنگ میل قرار پائے گی ۔ بقول ایلیٹ کہ در حقیقت شاعری کا اثر حد درجہ دوررس ہوتا ہے ، یہ اثربہت باالوسطہ ہوتا ہے اور جسے ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔ (۳)
شاعری سے حضرت انسان کا رشتہ اتنا قدیم ہے جتنا حضرت انسان کا تعلق اس زمین سے ہے۔ شاعری نے انسان کے دل میں ہمیشہ سے ایک رغبت اور انس پیدا کئے رکھا ہے۔ تاریخ کے طلبہ یہ بھی کہتے ہیں کہ قابیل کے قتل ہونے کے سانحہ پر بابا آدم جی کو جب اطلاع ملی تو جو کچھ ان کی زبان سے جاری ہوا وہ کلام موزوں ہی تھا جس نے بعد میں شاعری کی نیو رکھی ۔اسی طرح شاعری نے انسان کو اس دنیا میں رہنے کا برتاؤ اور مل جل کر بیٹھنے کا موقعہ اور سبھاؤ بھی دیا ہے۔تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ آدم کے بیٹوں نے شاعر ی کو یوں اپنے ساتھ رکھا گویا شاعری ان کی روح کا لباس ہو۔یہ بھی کہ شاعری کی تاریخی طوالت کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا اور اس کی ضرورت بھی نہیںیہ حقیقت طے ہے کہ انسان اور شعر لازم و ملزوم رہے ہیں۔شاعری کی مقبولیت ،اہمیت اور افادیت کے لیے کسی بھی دلیل اور استغاثہ کی ضرورت نہیںہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ شاعری تو وہ انسانی وسیلہ یا آلہ ہے جس سے اس زبان کے ناواقف بھی اس کی زبان کی شاعری سے حظ اٹھاتے ہیں۔ورڈز ورتھ کی نظم ’’Solitary reaper‘‘ کا سوچیے تو اس حقیقت کاعلم ہو جائے گا۔اس کے علاوہ بھی ہر ادب میں ایسے ادب کے سحر اور جاذبیت کامعلوم پڑتا ہے۔شاعری اپنی نوع میں تو آفاقی شے ہے اور اس کو یہ آفاقیت اس کی موسیقیت اور سر سے میسر آتی ہے اور سر سے بھی انسان کا رشتہ اتنا ہی قدیم اور محکم ہے کہ جتنا شاعری سے ہے ور یہ سر ،لے اور موسیقیت لفظیات کا نتیجہ ہوتا ہے۔
ہزارے کی تاریخ شعر میں بڑے بڑے نام ملتے ہیں ۔انہی احباب اور محسنین ِادب نے یہاں کی مزرعہ شعر کو نئی فصل اور نئے کے بیجوں کی تخم ریزی کے لیے تیار رکھا اور اعلیٰ شعری روایات کو پنپنے دیا۔کہتے ہیں روایت کا قیام و استحکام ہی کسی قدر کے جنم لینے اور پرداخت پانے کا ضامن ہوتا ہے۔ہر شاعر کہ جس نے ہزارہ کی سطح پر شاعری کی روایت کو نبھایا تو گویا اس نے آنے والے وقتوں میں غالب اور مومن،اقبال و فیض کے جنم لینے کے امکانات بڑھائے۔احمد حسین مجاہد بھی انھی شعرا کی روایت کی پاسداری کے صورت میں اردو کو میسر آیا۔احمد ایک منجھا ہوا،زیرک،تیز نگاہ،متوازن الفکر، خوش مسلک اور متین مزاج کاشاعر ہے۔ اس کی یہی خوبیاں اس کو دیگر شعرا سے ممتاز کرتی ہیں۔احمد پاکستان کی سطح کا شاعر ہے اس کا کلام پاکستان اور بھارت میں کے معتبر جرائد میں جگہ پا رہا ہے۔ان کے مداح ہر اس خطہ میں موجود ہیں جہاں اردو زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
ہومر نے صدیوں پہلے کہا تھا کہ اسلوب میں الفاظ کی ترتیب اور انتخاب کا سلیقہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔ (۴)شاعری ہو کہ نثر تخلیق کار کے کام کی نوعیت ایک ساں اور کٹھن ہوتی ہے۔فکر کی گہرائی ،مشاہدے میں موضوعیت اورابلاغ تام ایک جاں گسل مرحلہ ہے ،تجرید کو تجسیم کرنا اور موضوع کا معروض میں تبدل ، ایک گونہ مہارت اورمشق کا متقاضی ہے ، ساتھ ہی تخلیق کار کااپنا حصہ نمایاں طور پر اس کی تخلیق پر اثرانداز ہوتا ہے۔اسی کو اسلوب کہا جاتا ہے۔پروفیسرصوفی عبدالرشید مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ اسلوب ایک شناختہ ہوتا ہے جس کو کتاب کے سرورق پر نہیں بلکہ کتاب کے مواد پر نصب کیا جاتا ہے۔ایک ہی زبان کا شاعر ہونے کے باوجود جب دو شاعروں کو الگ شناخت اور پہچان ملتی ہے وہ اس کا اسلوب (Style) ہوتا ہے اور اس اسلوب کے اجزائے ترکیبی کی گنتی طویل ہے۔ ایک تخلیق پر اثر انداز ہونے والے عوامل اسلوب ہی کے اجزا ہیں جن میںڈکشن،حسن ادا، سادگی ،روانی، قطعیت، ایجاز، مزاح،گداز،تخیل،صنائع بدائع کا استعمال، تخلیق کار کی ذات،مطالعہ وغیرہ شامل ہیں۔یہاں احمد کے اسلوب کا ایک جز یعنی لفظیات سے بحث مطلوب ہے۔
شک ہی نہیں کہ ہر تخلیق کار کا جو پہلا حوالہ بنتا ہے وہ اس کا ڈکشن ،لفظیات اور ذخیرہ الفاظ ہیں۔یہ تینوں الفاظ باہم مترادف ہیں اوریہی وہ درجہ کہیں یا سطح کہیں ہے جہاں ہر قاری اپنے شاعر سے ملتا ہے۔ذخیرہ الفاظ ہی وہ آلہ ہے جو شاعر و ادیب کے تجربے ،مشاہدے اور خیال میں اس کے قاری کو شریک کرتے ہیں یہان یہ امر بھی لائق لحاظ ہے کہ لفظیات کی کمی بیشی،عدم دستیابی یا غیر سنجیدہ چناؤ فصاحت و بلاغت دونوں کو نقصان پہنچتا ہے،احمد کی ایک نظم ’’ابلاغ‘‘ دیکھیے:
مرے لہجے کی دھیمی آنچ ہے
پتھر پگھلتے ہیں
مجھے قدرت نے لفظوں کو
برتنے کا ہنر بھی
بخش رکھا ہے۔۔
یہیں ایک اور اعتراف بھی دیکھیے :
جب چشمہ تخلیق ابل جاتا ہے
وجدان کہیں دور نکل جاتا ہے
انگلی پہ مری گھومنے لگتی ہے زمیں
سورج مری مٹھی میں پگھل جاتا ہے
احمد حسین مجاہد کی شاعری کی کتابیں ’’دھند میں لپٹا جنگل‘‘ اور ’’اوک میں آگ‘‘ ہیں۔ ان میں ڈکشن کی وہ طلسم کاریاں ملتی ہیں کہ شاعری اپنی مکمل فسوں کاری کے جوبن پر ملتی ہے۔ احمد کا لمحہ تخلیق اس کے ذخیرہ الفاظ کی ثروت مندی کے سبب ثمر بار رہتا ہے۔احمد کی ندرت بیان ،موضوع کا تنوع ،بیان کے نازک قرینوں کو برت،صنعتوں کا استعمال اس کے مضبوط اور جاندار ذخیرہ الفاظ کا پتا دیتا ہے،احمد کی لفظیات کے حوالے سے یہ بات بھی لائق لحاظ ہے کہ وہ اپنے شاعری کے لیے خود ایک واضح اُسلوب کا حریص ہے اسی لیے کہتا ہے:
اقبال کے افکار سے سرشار ہوں میں
اور میر کے لہجے کا پرستار ہوں میں
اسلوب ،سخن میں ہے میرا اپنا ہی
یہ سچ ہے کہ غالب کا طرفدار ہوں میں
احمد اپنے اُسلوب کے اس حوالے کو بخوبی جانتا ہے کہ اس کا ڈکشن ہی اس کی شاعری کا سب سے مستند پہلو ہے۔اس کے ہاں ہندی کے الفاظ اور فارسی کے الفاظ بھی بقدر ضرورت ملتے ہیں،مثلاً ہندی کے گپھا،بے انت،متھا وغیرہ کو انھوں نے بے تکلف باندھا ہے۔احمد نے اپنی شاعری میں ولے اور ٹک کو بھی برتا ہے۔ یاد رہے کوئی لفظ متروک نہیں ہوتا ،اس کے استعمال پر ہے کہ اس کو کوئی مجدد مل جائے تو لفظوں کی کیا مجال کے متروک ٹھہریں اور احمد نے اس اجتہاد کا آغاز کیا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک ہیں کہ لفظوں کی حسن کاری کے لیے بھی ایک خاص مذاق چاہیے ہوتا ہے اور دوسرے شاعر کی ندرت فکر اس کو مجبور کرتی ہے کہ اپنے خیال کی ارفعیت اور تجربہ کی تازگی کو برقرار رکھنے کے لیے وہ نئے سے نئے الفاظ ، متروک الفاظ اور نئی سے نئی تراکیب اختراع کرتا جائے ،احمد ایسا ہی کیے جا رہا ہے اور یوں اس کی شاعری میں وہ بانکپن بھی در آیا ہے کہ جس کے سبب وہ اپنے عہد کے نمائندہ شعرا بھی شمار ہو رہا ہے۔
پیروں سے بھنور لپٹ گئے تھے
دریا میں چراغ جل اٹھے تھے
میں نے کہا نہ تھا کہ پلٹ
راہ شوق سے اے مشت خاک
دیکھ مری ہم سفر نہ ہو
بادل تھے وہ کہ گہرے گھنے پانیوں کی گرد
برسے تو ہم کچھ اپنے علاوہ نہ دیکھ پائے
میری طرح اگرچہ وہ خود رو نہیں تھا مگر
احمد وہ پتھر میں کھلا تھا مری طرح
احمد کے ہاں ملنے والی فکر کی گہرائی اور گھیرائی سے تعارف اس کے ذخیرہ الفاظ سے ہی ہوتا ہے ۔ موضوع اور تجربہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اس کے قلم کو انھیں کاغذ پر اتارنے کے لیے کوئی محنت اور تکلف نہیں کرنا پڑتا بلکہ اسے ہر ہر خیال کو موزوں کرنے پر مہارت تامہ حاصل ہے۔الفاظ کا احسن ترین چناؤ،لفظوں کی مزاج شناسی، الفاظ کی معنوی وسعت اور بہترین مترادف کا برتاؤ، اس کی شاعری کو ایک الگ شیرینی اور چاشنی عطا کرتا ہے۔احمد کی شا عری میں موضوع کا تنوع اور بیانیے کی خوش رنگی کی ایک بڑی وجہ یہی لفظیات کی ثروت مندی اور اس کے استعمال پر متین قدرت ہے۔لفظیات کے حوالے سے یہ امر بھی لائق اعتنا ہے کہ احمد کی شاعری میں سہل ممتنع کی خوبی ہر چند موجود ہے۔ چھوٹی بحور کی شرط نہیں ، اس کا ڈکشن ہی ایسا ہے کہ خیال کو لفظوں میں ڈھالتے ہوئے وہ لفظوں کے چناؤ میں سلاست اور عام قاری کو پیش نظر رکھے یا نہ رکھے وہ اپنی شاعری میں خیال کو عام بول چال کے انداز میں بیان کرتا ہے۔ یوں بھی نہیں کہ اس کے ساری شاعری ہی ایسی ہے لیکن اس کے ہاں بڑا شعری اثاثہ ایسا ہی ہے۔ چند اشعار دیکھیے:
مگر یہ ہم تھے کہ لائے تھے اس الاؤ سے آگ
وہاں سے راکھ تو اب کوئی جا کے لے آئے
مجھے لینا دینا تو کچھ نہ تھا، مری بے کلی یونہی رات کو
مجھے اس گلی میں جو لے گئی،میں گلی سے ہو کے گزر گیا خواب ، مٹی کا دیا ، نام ، مقام اور کلام
اس کے قدموں میں رکھا جو بھی کمایا ہوا تھا
ذخیرہ الفاظ کی صلابت اور خوش روی کے ساتھ ساتھ احمد حسین مجاہد کو ترکیب سازی کے باب میں بھی ایک خاص ملکہ حاصل ہے۔ترکیب سازی کے حوالے یہ بات ذہن میں رہے کہ اردو کی ترکیب سازی کے لیے فارسی زبان کے ساتھ واقفیت لازمی ہے۔اُردو میں سابقے لاحقوں سے نئے الفاظ تو بنتے ہیں لیکن تراکیب کا اصل کام اضافت اور عطف سے ہوتا ہے۔احمد کی شاعری میں ملنے والی چند تراکیب ملاحظہ ہوں مثال موجہ خوشبو، مرہون لطف آسمان، خواب وصل،پشت دست خار،ورطہ جذب وغنا،جاگیر حرف حق،مشت گل کوزہ،عذاب دربدری،دفتر عصیان،حضرہ ہجر،سکوت شب ،طلسم ورطہ فقر و غنا،چشمہ آب بقا وغیرہ۔
احمد کہتا ہے کہ
جذبوں کے ابلاغ میں سچا لفظ ہوں میں بھید بھری آنکھوں سے گہرا لفظ ہوں میں
یہ بھی اسی کا ایمان ہے کہ
آسمانوں سے فرشتہ تو نہیں اترے گا
شعر اتریں گے،صحیفہ تو نہیںاترے گا
غرض احمد حسین مجاہد کی لفظیات کے باب میں ایک خود کفیل شاعر ہے جس کے پاس اپنا ڈکشن ہے،اردو کلاسیکی شاعری کے سنجیدہ مطالعہ نے اس کو اردو زبان کے کلاسیکی ذخیرہ الفاظ سے استفادے کا ہنر ہی نہیں دیا بلکہ اس کی لفظیات کے خزینہ الفاظ سے مالامال کیا ہے جس سے ہمارا تعارف اس کی دونوں کتابوں میں ہوتا ہے۔ مضمون کیسا ہی ارفع اور انوکھا ہو اس کو لفظوں کی تلاش میں صحرا نوردیاں نہیں کرنی پڑتیں۔احمد بہ سہولت حسب منشا اور ضروت لفظ استعما ل کرتا جاتا ہے۔ چند اشعار اس بات کے حوالے سے دیکھیے:
مصرف نکل ہی آتا ہے بے کار چیز کا
لاتا ہوں بھیک باپ کی پگڑی میں ڈال کر
ایسی ہوا سے خاک مراسم بڑھائیے
بچے کے باتھ میں جو غبارہ نہ دیکھ پائے
ہو سکے تو گنگنا مجھ کو کبھی تو
تیرے لہجے میں بلا کی تازگی ہے
قسم ہے عصر کی انسان ہے خسارے میں
ہر ایک رشتے میں اس کا مفاد بولتا ہے
احمد کی ڈکشن کی ایک جھلک دیکھ لی ہے یہاں یہ بھی لحاظ رہے کہ احمد نے اپنے لفظیات میں ایک سبھاؤ اور خوش وضعی کا خاص خیال ضرور رکھا ہے کہ شاعری تو کھیل ہی لفظیات کا ہے جہاں لفظ کے چناؤ میں چوک ہوئی وہ مصرعہ فصاحت اور بلاغت سے گرا اور شاعری کا مکمل تاثر برباد ہوا ہے۔احمد کے اسلوب میں اس کی لفظیات نے کلیدی کردار ادا کیا ہے نظم و غزل میں احمداپنی بات کی ترسیل میں مکمل کامیاب رہتا ہے ۔ احمد کی لفظیات کی گھلاوٹ اور لوچ کو اس کے ہر ہر مصرعے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ احمد کے ہاں سلاست اور الفاظ کی نزاکت کی ایک سے ایک بڑھ کر مثالیں ہیں ۔اردو شاعری کو احمد کی صورت میں ایک پختہ، خوش فکر، جہاندیدہ،تجربہ کار اورشاعر نصیب ہوا ہے۔٭
مکتب عشق سے تحصیل جنوں کرتا ہوں۔۔۔۔میرے شانے سے یہ بستہ تو نہیں اُترے گا
خدا نے بخشا ہے مجھ کو سکوت صبح ازل۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں جانتا ہوں وگرنہ جو ہونے والا ہے
انشا اور تلفّظ
’’آئیے میں آپ کو بس اسٹینڈ تک چھوڑ آؤں ‘‘۔اُردو زبان کی جو خوبیاں بیان کی جاتی ہیں، اُن میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ باتوں سے سلیقے اور تمیز کی روشنی شامل ہوتی ہے۔ اگر یہ بات درست ہے اور آپ کو بھی اِس سے اتفاق ہے تو ذرا دیر کے لیے اِس طرف توجہ کیجیے۔
ایک عزیز دوست آپ سے ملنے کے لیے آتے ہیں۔ آپ اُن کی خاطر تواضع کرتے ہیں، ادب آداب کے ساتھ پیش آتے ہیں اور خوش اخلاقی کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ جب وہ چلنے لگتے ہیں تو آدابِ مہمان نوازی کے مطابق آپ کچھ دور تک اُن کے ساتھ چلتے ہیں اور بہت خلوص کے ساتھ کہتے ہیں:آئیے میں آپ کو بس اسٹینڈ تک چھوڑ آؤں۔
آپ ذرا سی توجہ سے کام لیں تو خود محسوس کریں گے کہ بے خیالی میں ایک غیر مناسب جملہ آپ کے منہ سے نکل گیا۔ بات یہ ہے کہ کچھ جملوں میں روزمرہ کے لحاظ سے’’چھوڑنا‘‘ اچھے مفہوم میں استعمال نہیں کیا جاتا، ترکِ تعلّق کا مفہوم نکلتا ہے۔ یہ جملہ بھی اُسی انداز کا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں:فلاں شخص نے اپنی بیوی کو چھوڑ دیا۔
یا جیسے ایک بلّی بہت پریشان کرنے لگی۔ کبھی دودھ پی گئی، کبھی گوشت کھالیا۔ کسی ترکیب سے اُس کو پکڑلیا۔ بوری میں یا بڑے تھیلے میں بند کردیا اور کہا:جاؤ اِسے دریا پار چھوڑ آؤ۔
تو یہ ہے چھوڑنے کا مفہوم۔اب آپ ہی غور کیجیے کہ آپ کی بات کیسی بگڑی آپ کہنا تو یہ چاہتے تھے کہ میں بس اسٹینڈ تک ساتھ چلوں گا، اور مطلب یہ ہوگیا کہ آپ اُن صاحب کو (بلّی کی طرح) چھوڑنے جارہے ہیں۔آسانی کے ساتھ کہا جاسکتا ہے:کہ میں بس اسٹینڈ تک آپ کے ساتھ چلوں گا، یا میں وہاں تک آپ کا ساتھ دوں گا۔٭ (حوالہ کتاب: ’’انشا اور تلفّظ‘‘۔از:رشید حسن خاں۔ص: 55-56)