ایک غیر سیاسی پوسٹ
———————–
راقم اؒحروف کا موقف پاکستانی سیاست کےمعاملے میں بڑا واضح رہا ہے۔۔۔ کہ جس دن میرے کرنے کوکام کویؑ نہ رہا۔۔ نالیاں اور گٹر صاف کرنا تو اس اصول کی روشنی میں کہ"صفایؑ نصف ایمان ہے" بے حد قابل تعظیم پیشہ ہے۔ بہت سوچنے پر مثال ملی کہ خون کرنا۔۔ انسان کا یا انصاف کا۔۔ ایسا کام ہے جس کے مقابلے پر میں سیاست کرنے کو ترجیح دے سکتا ہوں۔۔۔۔ شاید تھانیدار بھی میں نہ بنوں ۔۔ اس پیشے میں ہن تو برستا ہے لیکن دو کام ایسے ہیں جو میرے لےؑ ضرور ناممکن ہیں۔۔ ایک ہے ان افسروں ۔۔فرعونوں اورحکمرانوں کی خصیہ برداری جن کی عنایت خسروانہ کے بغیر تھانیداری نہیں۔۔ اور دوسرا تشدد کے حربے آزما کے ہاتھی سے اعتراف کرانا کہ وہ چوہا ہے۔۔ ان حربوں کا شکار ہونے والے شہیدوں کے وارث اےؑ دن ان کے لہو آلود خستہ تن لاشے کسی شاہراہ پر یا تھانے کے سامنے رکھے فریاد و فغان میں وقت ضایعؑ کرتے نظر آتے ہیں۔۔ معلوم نہیں جن ماوں کو کسی بے گناہ لخت جگر کے تڑپتے وجود سے جان کشید کرنے کے مناظر "لاییؑو" دکھاےؑ جاتے ہیں وہ راتوں کوکیسے سوتی ہیں۔۔ سوتی ہیں تو کیا خواب دیکھتی ہیں اورکتنے دن پاگل رہ کے مرتی ہیں
جبر و تشدد بھی وقت کے ساتھ ساینس بن گیا ہے۔ اعتراف جرم کی نامور درسگاہوں میں اول اول شاہی قلعے کی عقوبت گاہوں کا بہت چرچا رہا ۔اس میں حسن ناصر کو اولیں "شہید" ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔۔ اس کے بعد ہمارے سب
ترقی پسندوں نے بشمول فیض احمد فیض کے شاہی قلعے کی زیر زمین عقوبت گاہوں میں مہمانی کا اعزاز حاصل کیا۔۔ اب کچھ عرصہ سے اٹک فورٹ کے نام کی شہرت ہے جہاں تشدد کے جدید ساینسی حربے کسی کے " غایؑب" ہو جانے کے بعد ازماےؑ جاتے ہیں ۔۔ اوروہ ایسے ہوتے ہیں کہ بازیافت ہوجانے والے کبھی لب نہیں کھول پاتے۔۔ھال ہی میں "بھینسا" بلاگر چلانے والے پانچ افراد غایؑب ہوےؑ تھے۔۔ ان میں " میں بھی کافر تو بھی کافر" لکھ کر نام کمانے والا شاعراور غیر ملکی شہریت رکھنے والا بھی تھا۔۔ کسی نے ایک لفظ نہیں کہا یا لکھا کہ آخر ان پر کیا بیتی۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ خاموشی ہی دراصل ان کے اہل و عیال کی جان و مال و آبرو کی ضمانت ہوتی ہے ہے
بھٹو کیس میں اختلافی نوٹ لکھنے والے ایک جج صفدرنے راتوں رات راہ فرار اختیار کی تھی اور سنا ہے وہ بھیس بدل کے اور گدھے پر بیٹھ کے افغانستان کے راستے گےؑ تھے۔ شاید اس سے پہلے انہوں نے فیملی کو خاموشی سے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ہوگا۔۔شنیدہ کہہ بود مانند دیدہ۔۔۔۔آسان اردو ترجمہ۔۔ دروغ بر گردن راوی ۔۔ جسٹس خلیل رمدے سے میں نے خود ٹی وی پر سنا کہ ان کو دو کروڑ کی آفر تھی لیکن انہوں نے کہا کہ میں میں نے سوچا دو کروڑ کتنے دن چلیں گے۔۔ زندگی تو گذر گیؑ اپنا نام اس فہرست میں کیوں لکھواوں جس میں نظریہ ضرورت کے بانی جسٹس منیر کا نام سب سے اوپر ہے کہ میرے بچے اور ان کے بچے میری بے ضمیری پر شرمندہ ہوں۔۔جیسے آج ضیا پر اس کی انے والی نسلیں وہ سب برداشت کر رہی ہیں جو ان کے جد امجد کے بارے میں کہا اور لکھا جارہا ہے۔ رمدے نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ لندن کے ہسپتال میں کسی بیمار عزیز کی عیادت کو گےؑ تو منکر نکیر نے ان کا تعاقب کیا اور بعد میں اس بیمار عزیز سے بھی "پوچھ گچھ" کی۔۔ جب افتخار چوہدری ایند کمپنی زیر عتاب تھی تو یہ بھی سننے میں ایا کہ کسی جج پر دباو ڈالنے کیلےؑ اس کی صاحبزادی کی وڈیو فلم بنایؑ گیؑ۔۔واللہ اعلم با لصواب۔۔
لیکن طے شدہ طور پرہر شخص کی سب سے بڑی کمزوری اس کی فیملی ہوتی ہے اور سب سے بڑی طاقت پیسہ رکھتا ہے۔ کیا صحافی کیا ادیب کیا وکیل اور کیا جج۔۔ کس کو کٹھ پتلی نہیں بنایا جا سکتا ۔۔آج ہر شخص قول و فعل سے اشتہار بنا پھرتا ہےکہ میرا اپنا ضمیراب براےؑ فروخت ہے حضرات۔۔ لیکن حقایؑق بالاخر سامنے اتے ہیں۔۔ تاریخ نے ایک غیر مسلم چیف جسٹس کارنیلیؑس کو امر کیا جوتمام عمر لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں جیا اور وہیں مرگیا لیکن ان دو کمروں کو قومی یادگار کی حیثیت مل چکی ہے۔ میں نے دیکھی تو نہیں۔۔ سنا ہے اس کی پرانی کارآج بھی سپریم کورٹ کے احاطے میں یادگار کے طور پر موجود ہے۔ ایک بار اعتزاز احسن نے سپریم کورٹ بنچ میں ارشاد کیا تھا( جب وہ نیازمندی میں چوہری افتخار کے شوفر تھے) کہ ان میں سے کچھ نام مستقبل کے کارنیلییؑس ہوں گے۔۔۔۔۔ ۔یعنی کارنیلییؑس استعارہ بن گیا ہے عدل و اںصاف کا ۔۔۔۔لاہور میں مال کی طرف جانے والے ایک انڈرپاس پر لکھا ہے " کارنیلییؑس انڈر پاس"۔۔ یہ تو کچھ نہیں۔۔۔ کیونکہ اسے مٹاکے ضیا انڈر پاس لکھا جاسکتا ہے ۔۔لیکن نام جو تاریخ کے صفحات میں لکھا گیا باقی رہے گا۔۔۔ ثبت است بر جریدہؑ عالم دوام ما۔۔
ایک اور غیر مسلم چیف جسٹس بھگوان داس تھا۔ وہ تیرتھ یاترا(۔۔مقامات مقدسہ کی زیارت)۔۔ کیلےؑ بھارت گیا تو اسے تمام سرکاری مراعات پیش کی گییؑں لیکن اس نے انکار کر دیا۔ وہ تصویر کہیں ضرور موجود ہوگی جس میں اس کی معمولی سوتی ساری میں ملبوس ماسی نظر آنے والی بیوی ایک چھوٹے سے غریبانہ گھر میں کپڑے دھوکر سکھا رہی ہے۔ اس پر دباو ڈالا گیا کہ واپس نہ آےؑ۔۔ دباو کا مطلب بتانے کی ضرورت نہیں۔۔ مگر وہ آیا اور جب ایر پورٹ پر صحافیوں نے اسے گھیرا کہ سر 3 نومبر والے کیس کا کیا ہوگا؟ تو اس نے خاموش متانت سے کہا" سب ٹھیک ہو جاےؑ گا"۔۔ اور سب ٹھیک ہو گیا۔۔آج ایک کمانڈو جنرل مفرور مجرم ہے اور غدار قرار دیا جا چکا ہے۔۔۔ مگر بھگوان داس کہاں ہے؟ وہ تاریخ میں زندہ ہے۔۔ کارنیلییؑس کی طرح ۔۔ جسٹس اے آر کیانی کی طرح ۔۔۔۔۔۔ جسٹس منیر کی طرح نہیں۔۔ جسٹس مولوی مشتاق کی طرح نہیں۔۔ کیا عجب اتفاق ہے کہ دو تاریخ ساز باضمیر چیف جسٹس غیر مسلم ہونے کے باوجود اسلامی قانون Jurisprudence پر عبور رکھتے تھے۔۔
جو احباب اس پوسٹ کا رشتہ زبردستی عدالت عالیہ کے حالیہ فیصلے سے جوڑیں گے میں ان کو بلا تامل اغیار میں شامل کردوں گا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔