ہم لڑکی والوں کی طرف سے تھے۔
ساحل سمندر پر واقع عالی شان محلات شروع ہوگئے تھے۔ ایک ایک گھر اتنا بڑا تھا کہ اس میں کئی معقول رہائش گاہیں بن سکتی تھیں۔ محلات کے سامنے واقع شاہراہ اس قدر چوڑی تھی کہ چھ یا آٹھ گاڑیاں بیک وقت گزر سکتی تھیں۔گیٹ اور مکا ن پر آنکھوں کو چندھیا دینے والا چراغاں تھا۔ نہ جانے کیوں، گیٹ سے گزرتے ہوئے، میں نے اپنے آپ کو چھوٹا اور حقیر محسوس کیا۔ اگر میں اس گروہ میں شامل نہ ہوتا جو دعوت ولیمہ میں باقاعدہ مدعوتھا، تو عام حالات میں مجھے اس گیٹ کے نزدیک بھی کوئی نہ پھٹکنے دیتا۔
ہمیں پہلے ایک وسیع وعریض کمرے میں بٹھایا گیا ۔ دیواروں سے روشنی پھوٹ رہی تھی اور جو خواتین ادھر ادھر آجارہی تھیں، ان سے بھی!کھڑکیوں پر لگائے گئے پردے اپنے رنگ اور سٹائل کی وجہ سے اپنی طرف متوجہ کرتے تھے۔ کمخواب تھا یا زربفت یا شاید اطلس ۔ہر پردے کے درمیان میں ایک گول سنہری نشان تھا جو شاید پرانے وقتوں میں بادشاہوں کے تاج پر، سامنے کی طرف، پیشانی سے ذرا اوپر لگتا تھا۔ پھر ہمیں مشروبات پیش کیے گئے۔ بلور کے ساغر نما گلاس کو پکڑتے وقت میرے مرعوب ہاتھ کانپ رہے تھے۔ انار کا رس تھا۔ میں نے وسط ایشیا کے شہروں اور قریوں میں انار، شہتوت اور چیری کا رس کئی بار پیا ہے اور دوستوں کو میرا یہ شعر بہت زیادہ پسند ہے:
شہتوت کا رس تھا، نہ غزالوں کے پرے تھے
اس بار بھی میں جشن میں تاخیر سے پہنچا
لیکن وہاں تو قالین پر آلتی پالتی مارکر فارسی بولتے ہوئے رس کا اور ہی مزاتھا۔ یہاں یوں لگ رہا تھا جیسے میرا امتحان لیا جارہا ہے۔ آدھا گلاس پی کر گلاس رکھا اور خداکا شکرادا کیا کہ کسی باوردی ویٹر نے یہ حکم نہیں دے دیا کہ پورا گلاس ختم کرو!
ہم بہت دیر بیٹھے رہے۔ وسیع وعریض ہال نما کمرے میں خواتین اور مردوں کا آنا جانا لگارہا۔ ملبوسات سے دولت جھلکتی رہی اور خوشبوئوں کی لپٹیں نکلتی رہیں۔ دائیں طرف جو صاحب تشریف فرما تھے، معقول لگ رہے تھے۔ میں نے ہمت کرکے ان سے کہا کہ کھانے میں دیر ہے تو عشا کی نماز پڑھ لی جائے۔ انہوں نے عقل کی بات بتائی کہ حضرت ! موسیقی کے اس طوفان میں نماز کیسے ادا کریں گے۔ گھر جاکر اطمینان سے یہ کام کر لیجیے گا۔
پھر ہمیں ایک راہداری سے گزارا گیا جو طوالت اور پراسراریت میں غلام گردش لگتی تھی۔ یہاں سے ایک لان میں آئے۔ قدم رکھنے کے لیے گول گول پتھر لگے ہوئے تھے۔ نیچے سیڑھیاں جارہی تھیں۔ سیڑھیوں کے دونوں طرف پھولوں والے پودے تھے۔ پتوں پر ننھے ننھے چراغ شبنم کے قطروں کی طرح لگ رہے تھے۔ ایسے قطرے جو ستاروں کی طرح چمک رہے تھے۔ پھر ہم ایک پائیں باغ میں اترے۔ یہ کم ازکم بیس پچیس کنال پر محیط تھا۔ ایک طرف ایک مصنوعی پہاڑی بنی ہوئی تھی جس کے اندر سے پانی فواروں کی شکل میں اوپر جاکر واپس آرہا تھا اور دیدہ زیب نالیوں میں منقسم ہورہا تھا۔ پھوار ادھر ادھر پھیل کر مہمانوں سے اٹکھیلیاں کررہی تھی۔ کہیں جھولے لگے تھے، کچھ کے اوپر خوبصورت چھتیں تنی تھیں اور کچھ بغیر چھتوں کے تھے۔ کہیں حوض بنے ہوئے تھے جن میں مچھلیاں تیر رہی تھیں ۔ کہیں گول چھتوں والی سہ دریاں اور شش دریاں تھیں۔ روشنیاں دائیں بائیں جارہی تھیں اور ایک دوسرے کو قطع کررہی تھیں۔ سبزہ مخمل کی طرح بچھا تھا۔ باغ کے وسط میں مرصع سٹیج تھا جس پر عجیب وغریب نقش ونگار تھے اور اردگرد پھولوں کی بیلوں کا حاشیہ لگاتھا۔ دلہا، دلہن اور قریبی عزیزوں کے لیے جھولتی کرسیاں آگے پیچھے حرکت کررہی تھیں۔ کہیں پیڑوں کے جھنڈ تھے اور کہیں جھاڑیاں جنہیں کتر کر گول گنبدوں کی شکل دی گئی تھی۔
نشست گاہوں پر سفید براق کپڑے لگے تھے جن پر فیروزی رنگ کے ربن بندھے تھے۔ میزوں پر قسم قسم کے مشروبات پڑے تھے۔ کھانا کئی کورسوں پر مشتمل تھا۔ گوشت کی کئی اقسام تھیں۔ چار پیروں والے جانوروں کا بھی اور دوپنجوں والے پرندوں کا بھی، دریائوں میں تیرتی مخلوقات کا بھی اور ہوائوں میں اڑتے طیور کا بھی۔ میووں کے انبار دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے چہار دانگ عالم سے منگوائے گئے تھے۔ وردی پوش چست خدمت گار مہمانوں کی ایک ایک ضرورت کا خیال رکھ رہے تھے۔ سٹیج سے پھوٹتی ہوئی موسیقی اور موسیقی کے ساتھ اڑتے گیت ہوا میں پھیل کر کانوں میں میٹھا میٹھا سحر اتار رہے تھے۔
جس میز کے گرد میں بیٹھا ہوا تھا، وہاں پانچ مہمان اور تھے۔ ان میں سے چار، دو دو کے جوڑوں کی صورت میں، باہم محو گفتگو تھے۔ پانچویں صاحب جو میرے ساتھ تشریف فرما تھے، مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ تعارفی کلمات اور خوش ذائقہ عشائیے کے تنوع پر رسمی بات چیت ہوئی۔ پھر انہوں نے آگے کی طرف جھک کر مجھ سے پوچھا ’’کیا آپ نے یہ باغ اور اس کی وسعت دیکھی ہے ؟‘‘میں نے اثبات میں جواب دے کر ماشاء اللہ کہا اور تعریف کی ۔ انہوں نے دُور اشارہ کرکے کہا، درختوں کی قطار کے ساتھ قدرتی نالہ ہے۔ صاحب جب ایک بڑے ادارے کے سربراہ تھے تو انہوں نے یہ پلاٹ اپنے لیے مخصوص کرایا تھا۔ کیوں کہ یہ ساری زمین نالے کے ساتھ تھی اور مکان کے ساتھ لگتی تھی۔ یہ گرین ایریا کا حصہ تھی۔ یہ مکان کے ساتھ ہی لپیٹ میں آگئی۔ پھر انہوں نے مزید تشریح کی کہ ہرطاقت ور بااثر شخص کا یہ مشہورومعروف آزمودہ نسخہ ہے۔ نالے کے ساتھ پلاٹ حاصل کرلیجیے اور کنالوں اور بعض اوقات ایکڑوں پر مشتمل زمین ساتھ مفت میں مار لیجیے۔ اگر کوئی دیانت دار قسم کا اہلکار چوں چاں کرے تو ایک علامتی قسم کی رقم قیمت کے طورپر ادا کرکے معاملے کو قانونی جواز فراہم کردیجیے ۔
پھر وہ میری طرف مزید جھکے:’’کیا آپ کو معلوم ہے دُلہا کا باپ کہاں ہے ؟‘‘
’’میری ملاقات نہیں ہوئی لیکن یہیں کہیں مہمانوں کی آئوبھگت میں مصروف ہوں گے ۔‘‘
وہ صاحب مسکرائے :’’نہیں صاحب ! لگتا ہے آپ کی معلومات بہت کم ہیں۔ وہ تو یہاں موجود ہی نہیں !‘‘
مجھے تعجب ہوا۔ صاحبزادے کا ولیمہ ہے اور وہ بھی اس قدرتزک واحتشام سے اور صاحب خود موجود ہی نہیں!
ساری بے نیازی کے باوجود تجسس نے مجھے پوچھنے پر اکسایا: ’’وہ کہاں ہیں ‘‘؟
’’وہ بیرون ملک بھاگے ہوئے ہیں۔ کیا آپ نے اخبار میں فلاں کیس اور فلاں مقدمے کے بارے میں کہانیاں نہیں پڑھیں؟ ان کا نام بھی اس معاملے میں ملوث ہے اور تقریباً سرفہرست ہے، جب تک بادل چھٹ نہیں جاتے، وہ واپس نہیں آئیں گے۔ ‘‘
پھر انہوں نے خود ہی گفتگو کے سلسلے کو آگے بڑھایا :’’لیکن صاحب!کچھ بھی نہیں ہوگا، جوپہلے بھاگے ہوئے تھے، وہ گزشتہ حکومت میں واپس آکر ایسے ایسے عالی شان مناصب پر فائز ہوئے کہ عقل دنگ رہ گئی۔ جواب بھاگے ہوئے ہیں کیا خبر اس حکومت کے دوران واپس آکر بلندتر مسندوں پر رونق افروز ہوجائیں ۔ ایسے لوگ ہرحکومت کے لیے قابل قبول ہوتے ہیں۔‘‘
گیٹ سے باہر نکلتے ہوئے میں نے اپنے آپ کو بڑا محسوس کیا حالانکہ پورچ میں سات آٹھ بیش قیمت گاڑیاں کھڑی تھیں جن کے برانڈ تک میرے لیے اجنبی تھے۔ تب سے سوچ رہا ہوں کہ اگر پولیس سٹیشنوں سے بھاگے ہوئوں کو انتخابی ٹکٹ مل سکتے ہیں تو ملک سے بھاگے ہوئوں کو منصب کیوں نہیں ملیں گے !
http://columns.izharulhaq.net/2013_06_01_archive.html
“