(Last Updated On: دسمبر 20, 2021)
سیّد زاہد حسین نعیمیؔ (لاہور)
’’شخصیات اور افراد کا دور ختم ہو گیا ہے، انسانیت نے ایک جسم کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اگر کسی انسان نے انسانیت کے لئے مفید خدمات انجام دی ہیں اور اس کے اجتماعی اور معاشرتی مسائل کو اپنا موضوع بنایا ہے تو تاریخ کے صفحات میں وہ اپنی جگہ حاصل کرکے رہے گا، لیکن اگر اُس کی سرگرمیاں اپنی ذات تک محدود رہیں تو چاہے وہ عبادت و زہد میں ساری دنیا پر فوقیت کیوں نہ رکھتا ہوں، موجودہ دور کی تاریخ میں اس کے لئے قطعاً کوئی مقام نہیں۔ کوئی شخص اس لئے بڑا ہے کہ وہ بڑے خاندان کا فرد یا اپنی ذات میں گوناں گوں خوبیوں کا مالک ہے۔
انسانی فکر اسے کب کا رد کر چکی ہے۔ آج ہر شحص کو پرکھنے کے لئے پیمانہ ہے اور وہ یہ کہ اس کی زندگی کی جدوجہد اور مساعی کا رخ معاشرے اور سوسائٹی کی طرف کتنا ہے… اسلام اپنے ایک ایک فرد کو یہ ذمہ داری سونپتا ہے کہ وہ خدمت، رضاکاری، ہمدردی، بھائی چارے اور محبت کے اوصاف سے اپنے آپ کو متصف کرکے جہنم زار معاشرے کو امن و آتشی کا گہوارہ بنانے کی کوشش کرے۔ اپے لئے جینا کوئی کمال نہیں، اسلام کی بنیادی تعلیم یہی ہے کہ دوسروں کے لئے جیو… اور … اس میں تعجب کی کونسی بات ہے، اگر قدرت بعض شخصیتوں کو زمانوں اور صدیوں پر حاوی کر دے… صوفیاء کرام کی پوری تحریک دوسروں کے لئے جینے سے عبارت ہے‘‘۔
(مقدمہ احوال و آثار سیّد عبدالقادر جیلانی، صفحہ ۱۲،۱۱)
یہ وہ عبارت ہے جو دورِحاضر کے ایک بڑے محقق، بے شمار کتابوں کے مصنف، اُردو، عربی، فارسی اور انگریزی کے علاوہ کئی زبانوں پر دسترس رکھنے والے صاحب طرز، ادیب حضرت علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادری کی ہے، بظاہر یہ عبارت متعقدمین صوفیاء کرام کے حالات، صفات اور اوصاف پر لکھی گئی ہے، لیکن جب ہم حضرت علامہ فاروق القادری کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ یہ اوصاف اُن کی زندگی میں رچے بسے ہیں اور خاص انہی پر صادق آتی ہے۔
یقینا تاریخ میں وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو اپنی شخصی زندگی سے نکل کر دوسروں کی زندگیاں تبدیل کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ حضرت علامہ فاروق القادری کو روحانیت، علم، تقویٰ و طہارت اور خدمت خلق ورثہ میں ملی تھی۔ ان کے والد گرامی جن کے نام اپنی یہی کتاب ’’احوال و آثار حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی‘‘ کو منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بانی سلسلہ قادریہ کی حیات مبارکہ پر مشتمل یہ اوراق میں اپنے والد گرامی راس الاصفیاء حضرت سیّد سیف الدین مغفور القادریؒ کے نام معنون کرتا ہوں جو اسی سلسلہ کے ایک نامور فرد تھے اور جن کی زندگی اس قحط الرجال میں اپنے اندر اسلاف کے علم و فضل، درویشی و استغنا اور کردارسازی کی سینکڑوں داستانیں لئے ہوئے تھی‘‘۔
علامہ سیّد فاروق القادری نے ایسی عظیم المرتبت شخصیت کے زیرسایہ رہ کر اپنی سیرت و کردار کو سنوارا۔ آپ کے والد گرامی نے بھی اپنے فرزند ارجمند کی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ اگرچہ رفاقت کا سلسلہ زیادہ دیر نہ رہا اور آپ زمانہ طالبعلمی میں ہی تھے کہ والد گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ لیکن اپنی تعلیم جدید و قدیم میں کمال حاصل کرکے ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ والد گرامی کی وفات کے بعد ۴ اپریل ۱۹۷۰ء کو ان کی قل خوانی کے موقع پر حضرت پیر عبدالرحیم شہید بھرچونڈوی نے اپنے ہاتھوں آپ کی دستاربندی فرمائی اور یوں آپ آستانہ عالیہ شاہ آباد شریف گڑھی اختیار خان بہائولپور کے سجادہ نشین کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے اور وقت وصال تک آپ نے اس منصب کو احسن طریق سے انجام دیا۔ لیکن آپ روائتی سجادہ نشین نہیں بنے بلکہ جو علوم و معارف آپ کو ملے تھے آپ اُن سے بھرپور فائدہ اٹھاتے رہے۔ تشنگان علوم و روحانیت کی پیاس بجھائی، ایک خانقاہ کا جو حقیقی منصب و کردار ہونا چاہیے جس کا تقاضا قرآن و سنت کی تعلیمات کرتی ہیں، آپ نے اس پر سوفیصد عمل کیا، آپ خود لکھتے ہیں:
’’میں ابھی زیرتعلیم تھا کہ ۱۹۷۰ء میں وہ (والد گرامی) اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اتنی بڑی دولت چھن جانے اور احساس تنہائی نے مجھے خود بخود تصوف کی طرف مائل کر دیا۔ میں صدق دل سے اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ تصوف کی دنیا میں قدم رکھنے سے یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ اصل جہاں یہی ہے۔ حقیقت تک پہنچنے کے لئے بجراس راستے کے سارے راستے مسدود اور بند ہیں۔ خیال رہے کہ یہ کسی مدرسہ کے روائتی مولوی یا طالبعلم کا نظریہ نہیں بلکہ ایک ایسے شکی مزاج اور دنیا بھر کے نظریات و خیالات مطالعہ کرنے والے تاریخ کے طالبعلم کا تجزیہ ہے جو شکوک و شبہات اور بے یقینی و الحاد کی ساری وادیوں کی سیر کر چکا ہے، جسے قوموں کے عروج و زوال، تحریکوں کی شکست و ریخت اور تاریخ کے عمل و ردعمل سے بھی یک گو نہ واقفیت ہے اور جسے قدیم و جدید کا مکاتب میں استفادہ کا موقع ملا ہے۔ اس دنیا میں قدم رکھتے ہی یہ حقیقت کھلنے لگی کہ صوفیاء کرام انسانیت کے لئے اپنے دامن میں ایسا وسیع اور عالمگیر پروگرام رکھتے ہیں جس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی اور اسلام کا انقلابی فکر اسی راستے سے دنیا میں آ سکتا ہے۔ انہی لوگوں کے پاس وسیع بنیاد موجود ہے جس پر پوری دنیا بلااختلاف مذہب و ملت اور رنگ و نسل متحد ہو سکتی ہے‘‘۔
(مقدمہ احوال و آثار سیّد عبدالقادر جیلانی، صفحہ۱۴۔۱۳)
علامہ فاروق القادری نے تصوف اور صوفیاء کی تعلیمات میں انسانی فلاح و بہبود کا حل تلاش کیا ہے اور ان کا یہ نظریہ صرف عقیدت کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ یقین کی حد تک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے:
’’جدید دنیا کے مسائل کو سمجھنے کے لئے نوجوانوں سے میری اپیل ہے کہ وہ دوسرے نظام ہائے زندگی کی طرح اسلام کے اس عظیم الشان ادارے (تصوف) کا نظام العمل کی حیثیت سے مطالعہ کریں۔ ممکن ہے انہیں اس نظام کی صورت میں دنیا اور اس کے مسائل کے لئے ایک بہتر اور قابل عمل حل مل جائے‘‘۔
(ایضاً، صفحہ۱۴)
صوفیاء کرام اور تصوف کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور پورے دلائل کے ساتھ ان کے نظریہ کا رد فرمایا، چنانچہ امت مسلمہ میں اٹھنے والے گمراہ نظریات کی نشاندہی کرتے ہوئے راہ حق پر گامزن رہنے والوں کا بھی بھرپور تعارف کرا دیا۔
علامہ فاروق القادری لکھتے ہیں:
’’یوں تو امت مسلمہ کو ہر دور میں بیشمار نئے نئے گمراہ نظریات اور تحریکوں سے واسطہ پڑتا رہا ہے۔ مگر بحمداللہ امت محمدیہ کی اکثریت جسے سواداعظم کہا جاتا ہے، ہمیشہ صحیح راستے پر گامزن رہی ہے۔ ایسی تحریکیں وقتی طور پر شعلے کی طرح ابھرتی اور گرد کی طرح بیٹھ جاتی ہیں۔
خوارج، معتزلہ، اخوان الصفاء، جھوٹے مدعیان نبوت و مہدویت، انکار حدیث، سرسیّد و قادیانیت کے افکار کی چکاچوند سے کیسے کیسے لوگ مسحور نہیں ہوئے، تاہم امت کا مجموعی دھارا حسن و خاشاک کو بہاتا ہوا انہی راستوں پر چلتا رہا جن پر تعلیمات نبویہ اور خلافت راشدہ کے کامل نمونے نے اُسے کھڑا کیا تھا‘‘۔
(ایضاً، صفحہ۱۴)
تصوف کی اس تعلیم پر امت مسلمہ کاربند رہی ہے، لیکن بدقسمتی سے نجدی تحریک کے آغاز کے ساتھ اس کو پس پشت ڈال دیا گیا اور پورا زور صوفیاء کرام اور ان کی تعلیمات تصوف کے خاتمہ پر لگا دیا گیا۔ علامہ سیّد فاروق القادری لکھتے ہیں:
’’اصلاح کے نام پر شیخ محمد عبدالوہاب نجدی نے بقول معاصرین (علامہ شامی، شیخ خلان مکی) ایک ایسی تحریک اٹھائی جو اپنے سوا باقی دنیا کے مسلمانوں کو مشرک و بدعتی قرار دے کر ان کا قتال سمجھتی تھی۔ بعد میں ان نظریات کے فروغ میں ایک حکومت کی طاقت اور روپیہ پیسہ بھی شامل ہو گیا۔ اس تحریک کے بارے میں موجودہ علماء دیوبند بھی ا پنے اکابر کا راستہ چھوڑ کر اس کی رہنمائی پر کمربستہ ہو گئے تو بھی اسے عام مسلمانوں کی وہ تائید و حمایت حاصل نہ ہو سکی جس سے ان نظریات کو امت مسلمہ کا ترجمان قرار دیا جا سکتا ہو۔
مولانا شبلی نعمانی ایسے محقق اور صاحب علم شخص نے بھی بعض مسائل میں الگ راہ اختیار کی تو برصغیر کے مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے ان کے ایسے مسائل بھی کو درخور اعتنا نہیں سمجھا، اسلم جیراج پوری، تمناعمادی، عبداللہ چکڑالوی اور غلام احمد پرویز کے نظریات بھی سوداعظم کے قافلے کی گرد میں گم ہو گئے‘‘۔
(ایضاً، صفحہ ۱۵۔۱۴)
صوفیاء کرام بندگان خدا کی سیرت و کردار کو سنوارنے کے لئے انہیں تزکیہ نفس سے گزارتے ہیں، جس کے لئے عبادات و ریاضت، اوراد و وظائف، ذکر و اذکار کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف سلاسل کے اولیاء کرام و صوفیاء عظام نے اپنے اپنے طریقہ کے مطابق اس کا نصاب ترتیب دیا ہے۔ حضرت شاہ ولی محدث دہلوی نے ’’الانتبافی سلاسل اولیاء‘‘ میں اس کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ علامہ فاروق القادری نے راقم السطور کی کتاب ’’تذکرہ اولیاء کشمیر جلد اوّل‘‘ پر تقریظ لکھتے ہوئے فرمایا:
’’الانتباہ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے دُعا سیفی، جواہر خمسہ اورادفتیحہ کی اجازتوں اور سند کا ذکر کیا ہے۔ دُعائے سیفی میں یہ عبارت بھی شامل ہے ’’ نادعلیّا مظھر الصبحائب تجدہ عودنا لّک فی النّوائب کل ہمّ وّ غمّ سینجلی بولایتک یا علی‘‘ جواہر خمسہ سلسلہ شطاریہ کا مجموعہ ہے جو بقول شاہ ولی اللہ اُنہوں نے سو سے زیادہ مشائخ سے مل کر لکھوائے جب آپ سفر حج سے واپس ہوئے تو راستے میں گوالیار پہنچ کر شاہ محمدغوث کے مزار کی زیارت کی اور ان کی نسبت معلوم فرماکر بیان کیا‘‘۔
(سخن چند تذکرہ اولیاء کشمیر جلد اوّل، صفحہ۱۷)
علامہ فاروق القادری نے منکرین تصوف کی گرفت کرتے ہوئے لکھا:
’’مگر مولاناسیّد ابولحسن ندوی شاہ محمد غوث گوالیاری اور خودشاہ ولی اللہ کو یوں کھری کھری سناتے ہیں۔
’’دسویں صدی ہجری میں ہندوستان صحاح ستہ کے مصنّفین کی کتابوں سے ناآشنا تھا، جنہوں نے فقہ، حدیث اور ردبدعت کا کام کیا اور سنت صحیحہ اور احادیث ثابتہ کی روشنی میں زندگی کا نظام العمل پیش کیا۔ ہندوستان کے ان مقامی روحانی فلسفوں کا اثر اپنے زمانے کے مشہور و مقبول بزرگ شیخ محمد غوث گوالیاری کی مقبول کتاب ’’جواہر خمسہ‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے، جس کی بنیاد زیادہ تر بزرگوں کے اقوال اور اپنے تجربات پر ہے۔
یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحیح احادیث کے ثابت ہونے یا معتبر کتب شمائل و سیر سے اخذ کرنے کو ضروری نہیں سمجھا گیا۔ اس میں نماز احزاب، صلوٰۃ العاشقین، نماز تنویرالقبر اور مختلف مہینوں کی مخصوص نمازیں اور دُعائیں ہیں جن کا حدیث و سنت سے کوئی ثبوت نہیں‘‘۔
(تاریخ دعوت و عزیمت، ۵:۳۹۹)
یہ عبارت نقل کرکے علامہ فاروق القادری نے ابوالحسن ندوی کی یوں گرفت کی ہے:
’’یہ عجیب تماشا ہے کہ شاہ ولی اللہ ایسا عظیم محدث، مصلح اور توحید کا علمبردار، ایسے لوگوں کو بزرگ مان کر ان سے اوراد و اشغال کی اجازتیں اور سندیں لے رہا ہے جو نہ صرف صحاح اور ان کے مصنّفین کی کتابوں سے ناآشنا ہیں، بلکہ شمائل و سیر کی معتبر کتابوں اور حدیث و سنت سے بھی بے خبر ہیں۔
فاعتبرو یا اولی الابصار
سوائے اس کے اور کیا عرض کیا جا سکتا ہے کہ کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا‘‘۔ (ایضاً، صفحہ۱۸۔۱۷)
علامہ فاروق القادری نے صوفیاء اور تعلیمات تصوف کے بعد اہل بیت اطہار پر تنقید اور ان سے بغض رکھنے والوں کی بھی گرفت کی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’اس طرح اہلسنّت و جماعت میں سے کچھ لوگ ناجیت کا جھنڈا اٹھا کر اہل بیت کے خلاف سرگرم عمل ہو گئے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مخالفین اہل بیت بالخصوص یزید، شمر، بن ذی الجش، ابن زیاد اور عمروبن سعد علیہم ماعلیہم نے اہل بیت کے خلاف مقدمے میں انہیں اپنا وکیل بنایا ہے۔ سرورِ عالمؐ کی محبت کا تقاضا یہی ہے کہ جو چیز یا شخصیت انہیں محبوب ہو ہم بھی ٹوٹ کر اس سے محبت کریں، چنانچہ آپ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: اللہ کی محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کی وجہ بتا کر میرے گھرانے کے افراد سے محبت کرو… اہل بیت نبوت سرور عالمﷺ کے روحانی اور باطنی فیض کے امین اور اس کے قاسم ہیں، ونیا میں جتنے روحانی سلسلے، مراکز، خانقاہیں، آستانے اور مقبرے موجود ہیں، وہ اہل بیت کی خیرات کا نتیجہ ہیں۔ (مقدمہ احوال و آثار سیّد عبدالقادر جیلانی، صفحہ۱۷)
پروفیسر سیّد ابوبکر غزنوی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’پس جس گھرانے کی محبوبیت کا یہ عالم ہو، اس کی محبت اور یاد میں جو صحبتیں اور شامیں میسر ہوں کم ہیں۔ ان کی یاد روح کی پاکیزگی اور دل کی طہارت کا سامان ہے۔ ساتھیو اپنے حریم دل میں جھانک کر دیکھو، اگر اس میں اہل بیت کی محبت اور بالخصوص حسین بن فاطمہ رضی اللہ عنہم کی محبت نہیں پاتے تو یقین کرو کہ رسول اللہؐکے ساتھ تمہاری محبت بھی محض فریب نفس ہے۔ صحابہ کرام کو دیکھو کہ آپ کا پسینہ، آپ کے وضو کا بچا ہوا پانی، آپ کے موئے مبارک حتیٰ کہ آپ کا لعاب دہن بھی انہیں عزیز تھا۔ پر آہ صد ہزار آہ حرماں اگر تم اپنے سینوں کو حسین بن فاطمہ بنت محمدؐ کی محبت و تعظیم سے خالی پاتے ہو تم یقین کرو کہ آنحضوؐر کی محبت اگر ہمارے رگ و پے میں پائی جائے تو تم ان کے غلاموں کے غلاموں کے غلاموں کا بھی ادب کرو۔
آہ یہ کیسی للہیت کی موت اور ایمان کی جانکنی ہے کہ بعض علماء عین منبر رسولؐپر کھڑے ہو کر اس محبوب بارگاہ رسالت اور اس جگرگوشہ کا ذکر حقارت آمیز لہجے میں کرتے ہیں۔ وہ گھرانہ جس سے فیض حاصل کیا وہ جن کی جوتیوں کے صدقے میں تمہیں ایمان واسلام کی معرفت حاصل ہوئی تم کو کیا ہوا کہ تم نبی کی عیب چنیاں کرتے ہو پھر اس عیب چین اور خوردہ گیری کے لئے تمہیں رسول اللہؐ کے منبر کے سوا کوئی اور جگہ نہیں ملتی‘‘۔
(مقدمہ احوال وآثار سیّد عبدالقادر جیلانی، صفحہ۱۹۔۱۸، بحوالہ قربت کی رائیں)
دو قومی نظریہ اور تحریک پاکستان پھر قیام پاکستان، اس کے لئے علماء و مشائخ اہلسنّت کی خدمات گراں قدر ہیں۔ چنانچہ علامہ فاروق القادری لکھتے ہیں:
’’جب سے برصغیر پر فرنگی اقتدار نے پیر جمائے، ٹھیک اسی وقت سے آزادی وطن کے مشن کا بھی آغاز ہوا۔ یہ آغاز کن لوگوں نے کیا؟ اس پر کماحقہ روشنی ڈالنے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی، انگریز سامراج کی نوآبادیاتی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ ادھر اس نے ایک خطے پر قبضہ جمانے کا قدم رکھا اور اُدھر اس قطعہ ارض کا حساس سینہ کرب سے چیخ اٹھا۔ یہی وہ پہلی چیخ تھی جسے بلاشبہ جنگ آزادی کا پہلا غلغلہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ آواز کس طبقہ نے بلند کی؟ اس کا جواب پوری تاریخ میں ایک ہی ہے، علماء و مشائخ‘‘۔
(مقدمہ اکابر تحریک پاکستان، صفحہ۹)
پھر لکھتے ہیں:
’’تحریک پاکستان کی بنیاد ۱۸۵۷ء میں مولانا فضل حق خیرآبادی، مفتی عنایت احمد کارکوری، مولانا فیض احمد بدایونی، مولانا امام بخش صہبائی، مولانا کافی مراد آبادی شہد، سیّد احمد اللہ شاہ مدراسی، مولانا رضی الدین بدایونی ایسے مجاہدین آزادی اور سرفروشانِ اسلام اپنا خون جگر دے کر پھانسی کے تختوں پر چڑھ کر اور کالے پانی کی تکالیف برداشت کرکے رکھ چکے تھے۔ مجاہدین کا یہ گروہ اسی سوداعظم سے تعلق رکھتا ہے جسے آج بھی قال اقولی قسم کے ملا حضرات جذبہ حب نبوی میں غلو کا الزام دیتے ہیں‘‘۔ (ایضاً، صفحہ۱۰)
دوسری طرف کا کیا حال تھا؟ علامہ فاروق القادری نے لکھا:
’’کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ برصغیر میں انگریزی سامراج کی بنیادیں ہلانے والوں اور اسلامی حکومت کے اوّلین معماروں کو تو پس پشت ڈال دیا گیا اور ان کے مقابلے میں بوجوہ سیّد احمدبریلوی اور شاہ محمد اسمٰعیل کو برصغیر کی مذہبی تحریکات کا واحد ہیرو بنانے کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔ ایک گروہ پر تاریخ کی یہ تیز روشنی اور دوسروں کو اندھیروں میں رکھنے کے پیچھے دو علیحدہ نظریات کا وہی جذبہ کارفرما ہے، جس کے بارے میں ہم اوپر اشارہ کر چکے ہیں۔ اسے حسن اتفاق سمجھیں یا سو اتفاق، ایک نظریے کی تصویب و تائید کے لئے اُسے علمی فضاء میسر ہو گئی جو دوسرے کو نہ ہو سکی‘‘۔ (ایضاً، صفحہ۱۰)
پھر اسی گروہ کی گرفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’افسوس مکتب دیوبند کی اکثریت نے برصغیر میں اسلامی ریاست کی امکانی حد تک مخالفت کرکے تحریک آزادی کے سلسلہ میں بھی اپنے تھوڑے بہت کام پر لکیر پھیر کر رکھ دی ہے، کیا وقت کا بیدار مورخ یہ لکھنے میں حق بجانب نہ ہو گا کہ علماء دیوبند کا یہ گروہ مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کے مقابلے میں گاندھی جی کی میکیائولی سیاست پر زیادہ یقین رکھتا تھا اور اس سے مسلمانوں کے انحطاط اور زوال کے دور میں سات کروڑ مسلم عوام کے مقابلے میں اپنا سارا وزن ہندوئوں کے پلڑے میں رکھ دیا۔
یہ تلخ حقیقت علماء دیوبند کو برداشت کرنا پڑے گی کہ ان کے پیش نظر برصغیر میں اسلامی حکومت کا قیام کبھی بھی نہیں رہا، بلکہ وہ ہمیشہ جمہوری انداز کی سیکولر حکومت کے لئے کوشاں رہے ہیں۔ شاہ محمد اسمٰعیل کی تحریک ہو کہ جمعیت علماء ہند کی تنظیم، احرار ہوں یا آزاد، ان سب کا اندازِفکر اس معاملے میں حیرت انگیز یکسانیت کا حامل رہا ہے۔ اسلامی حکومت کا قیام تو بہت مقدس نصب العین ہے، اُنہوں نے تو مسلمانوں کے مفادات تک کی پرواہ نہیں کی جو احسان کا معمولی درجہ ہے‘‘۔
(ایضاً، صفحہ۱۸۔۱۷)
تحریک پاکستان اور پھر قیامِ پاکستان کن کے مرہون منت ہے، علامہ فاروق القادری لکھتے ہیں:
’’یہ ایک واقعہ ۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی ہو یا قیامِ پاکستان کی جدوجہد، یہ انہی لوگوں کی رہن منت اور شرمندہ احسان ہے، جنہیں آج بھی مکتب دیوبند کے ذمہ دار افراد سے طفل مکتب تک بدعنی، قبر پجوئے اور میلاد خواں کے طعنے دیتے ہیں۔ کیا پاکستان کی کوئی تاریخ ’’بنارس سنی کانفرنس‘‘ کے فقیدالمثال اجتماع کا ذکر کیے بغیر مکمل ہو سکتی ہے‘‘۔
(ایضاً، صفحہ۱۸۔۱۷)
اس میں کوئی شک نہیں کہ جمعیت علمائے ہند کے ایجنڈے میں اسلامی حکومت کا قیام نہیں تھا۔ چنانچہ بھارت کی موجودہ بی جے پی حکومت کی انتخابی مہم کے دوران جمعیت علمائے ہند اور دارالعلوم دیوبند کا موقف سامنے آیا تھا، جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’ہم نے ہندوستان کو اپنی مرضی سے قبول کیا اور نظام مصطفیٰ کے نافذ کی دعوت کو ہم نے مسترد کر دیا‘‘۔
علامہ سیّدفاروق القادری نے سوداعظم کے ایک عظیم رہنما اور امام مولانا الشاہ احمدرضا محدث بریلی کی تعلیمات کو عوام کو خواص کے سامنے لانے کے لئے نہایت ہی جامع کتاب ’’فاضل بریلوی اور امور بدعت‘‘ لکھی اور ثابت کیا کہ امام احمد رضا محدث بریلی احیائے سنت کے داعی تھے، ان پر یہ محیض الزام ہے کہ اُنہوں نے بدعات کو فروغ دیا ہے، چنانچہ علامہ فاروق القادری لکھتے ہیں:
’’راقم السطور نے دینی تعلیم زیادہ تر دیوبندی مکتبہء فکر کے مدارس سے حاصل کی ہے۔ دورانِ تعلیم دن رات جو کچھ ہمیں بتایا جاتا تھا، اس کا خلاصہ یہ تھا کہ فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان صاحب میلاد خواں قسم کے نیم خواندہ مولوی تھے۔ جنہوں نے دنیا بھر کی بدعات کو جائز قرار دیا اور مشرکانہ عقائد کا دروازہ کھول دیا۔ گویا برصغیر کے مسلمانوں میں اعتقادی و عملی لحاظ سے جو گمراہی اور خامی پائی جاتی ہے، اس کے ذمہ دار فاضل بریلوی ہی ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ طفل مکتب سے لے کر ذمہ دار اور نامور علماء کی زبان تک سے ایک ہی بات سننے میں آتی تھی۔ بچپن میں ذہن ہر چیز کا گہرا تاثر لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ راقم کو کئی برس تک فاضل بری کی کتابیں پڑھنے یا ان کے بارے میں کچھ جاننے کا خیال نہ آیا، بلکہ طبیعت میں ان کے نام سے اجنبیت اور بیگانگی رہی‘‘۔
(پیش لفظ فاضل بریلوی اور امور بدعت، صفحہ۱۸)
علامہ فاروق القادری نے پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں ان کو وسیع الذہن لوگوں سے ملاقات کا موقع ملا، حکیم اہلسنّت حکیم محمد موسیٰ امرتسری سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا، جن کے علم و فضل، اخلاص، محبت و اخلاق نے ان کو متاثر کیا۔ حکیم محمد موسیٰ امرتسری نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ایم اے میں اپنا مقالہ ’’مکاتب دیوبند اور بریلی کے اختلافات‘‘ کے موضوع پر لکھیں۔
چنانچہ اُنہوں نے تحقیقی مقالہ لکھا جو اسلامک بورڈ آف سٹڈیز نے پسند کیا۔ اس تحقیق کے دوران انہیں امام احمد رضا محدث بریلی کو پڑھنے کا موقع ملا، جس کے دوران انہیں معلوم ہوا کہ امام احمد رضا پر لگائے جانے والے شرک و بدعت کے الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔ پھر انہیں امام احمد رضا کی عبقری شخصیت نے اتنا متاثر کیا کہ اُنہوں نے ’’فاضل بریلوی اور امورِ بدعت‘‘ لاجواب کتاب لکھ ڈالی، جس نے اپنوں اور بیگانوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ سچی بات یہ ہے کہ یہی کتاب پڑھنے کے بعد میرا تعارف علامہ پیر سیّد فاروق القادری سے ہوا، پھر وصال سے چند دن پہلے تک یہ تعلق باقی رہا۔
علامہ سیّد محمد فاروق القادری نے امام احمد رضا محدث بریلی کوغیرجانبداری سے پڑھا تو اس نتیجہ پر پہنچے:
’’فاضل بریلوی ہر علم میں تجدیدی مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ اس کے باوصف انہیں جس طرح متعارف کرایا جا رہا ہے وہ ان کی شخصیت کے ساتھ تاریخی ناانصافی کے مترادف ہے۔ قارئین کو حیرت ہو گی کہ ان کے اس تعارف میں بیگانوں کے ساتھ ساتھ اپنے بھی برابر کے شریک ہیں۔ وہ نئی نسل کو ان کی شخصیت، علم و فضل اور خدمات کا کماحقہ تعارف کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ دوسری طرف علم و فضل میں بھی وہ پورے طور پر ان کی جانشینی کا حق ادا نہیں کر سکے۔ یہ درست ہے کہ فاضل بریلوی آج بھی برصغیر کی غالب اکثریت کے پیشواہ ہیں، مگر اس میں ان کے عقیدت مندوں سے زیادہ خود ان کی ذات کی کشش اور خدمات کا دخل ہے۔ مخالفین نے ان کے خلاف بدنامی کی مہم اس لئے چلائی کہ وہ اصل مسئلہ سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتے تھے۔
فاضل بریلوی نے آنحضورؐ کی ذات گرامی سے متعلق جن عبارات کی گرفت کی تھی، وہ اس قدر صحیح، جائز اور درست تھیں کہ اس کا جواب آج تک ہو سکا اور نہ ہو سکتا ہے۔ فاضل بریلوی کو نظرانداز کرکے برصغیر میں مسلم اتحاد کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ ضرورت ہے کہ ان کے موقف پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیا جائے۔ ہم نے اس کتاب میں ان کا وکیل بننے کی بجائے صرف حقیقت حال کی طرف ملک کے پڑھے لکھے طبقہ کی توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔
فاضل بریلوی نہ کسی بدعت کے مجوز و ہید ہیں اور نہ کسی غیرشرعی امر کے قائل۔ ہم نے ان کی سینکڑوں کتابوں سے ایسے تمام امور کی نشاندہی کی ہے جن کے بارے میں بدعت کا شائبہ ہو سکتا ہے، اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم مسلک اہلسنّت سے گریز یا فرار کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، ہمارا مقصد یہ ہے کہ فاضل بریلوی کا مسلک کتاب و سنت پر مبنی اور دلائل شرعیہ کی روشنی میں بالکل بیغبار ہے، وہ ایک سچے عاشق رسولؐ، متبع سنت، بالغ نظر عالم دین اور نامور فقیہ تھے‘‘۔ (ایضاً، صفحہ۲۰۔۱۹)
علامہ فاروق القادری نے مشورہ دیا ہے:
’’میں ملک کے پڑھے لکھے طبقہ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس کتاب (فاضل بریلوی اور امور بدعت) کے مندرجات کو پڑھیں اور ملک کی اکثریت کے اس مقتدر کے بارے میں اپنے نظریات کا جائزہ لیں اور عنداللہ یہ فیصلہ کریں کہ ان خیالات کا حامل بھی بدعتی ہے تو پھر صحیح مسلمان کی تعریف کیا ہے؟ اس کتاب سے میرا مقصد یہ ہے کہ امت مسلمہ اسلام اور ہادی اسلام کو نقطہء اتحاد قرار دے کر اتفاق و اتحاد کی طرف قدم بڑھائے‘‘۔
(ایضاً، صفحہ۲۱۔۲۰)
علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادری اپنی مذہبی، علمی، روحانی، ادبی اور کئی دوسری خوبیوں کی وجہ سے ملک کے دانشور اور اہل علم طبقہ میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ اُنہوں نے جہاں متعدد تاریخی، علمی، ادبی کتب تصانیف فرمائی ہیں، وہاں اُنہوں نے عربی و فارسی کی نادر و نایاب کتب کا اُردو ترجمہ کرکے اور کئی اہل علم، محققین، مورخین کی کتب پر ’’مقدمہ‘‘، ’’پیش لفظ‘‘ اور ’’تقاریظ‘‘ لکھ کر نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی فرمائی بلکہ اُردو ادب کو بھی فروغ دیا ہے۔ راقم السطور ناچیز کو بھی اس قابل سمجھا کہ میری حقیر کاوش پر حوصلہ افزائی فرمائی۔ میری کتاب ’’تذکرہ اولیاء کشمیر جلد اوّل‘‘ پر ’’سخنے چند‘‘ کے عنوان سے تقریظ لکھی جو میرے لئے ایسی عبقری شخصیت کے چند جملے بھی باعث صدافتخار ہیں۔ آپ نے لکھا:
’’فاضل دوست سیّد زاہد حسین نعیمیؔ صاحب میرے انتہائی کرم فرما ہیں، وہ انتہائی محنتی، پرعزم اور ہر لحاظ سے کشمیر کے بارے میں تحقیقی کام کے اہل ہیں۔ ان کی کتابیں ’’تحریک آزادی کشمیر‘‘، ’’جہاد کشمیر اور تحریک بالاکوٹ‘‘ اپنے موضوع پر جامع، مکمل اور پہلی اور آخری تحریر ہیں۔ ان کتابوں کے بعد ’’اولیاء کشمیر جلد اوّل‘‘ ان مردان خداآگاہ کا تذکرہ ہے، جس کی مساعی جمیلہ دیکھ کر تشکر و احسان کے جذبات اُبھر آتے ہیں…
میں اولیاء کشمیر کو دینی، روحانی اور ادبی دنیا میں خوبصورت اضافہ سمجھتا ہوں اور اس پر اپنے دیرینہ کرم فرما جناب سیّد زاہد حسین نعیمیؔ کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ وہ اپنا یہ سلسلہ جاری و ساری رکھیں گے‘‘۔
(’’سخن چند‘‘ تذکرہ اولیاء کشمیر جلد اوّل، صفحہ۱۸۔۱۶)
علامہ پیر سیّد فاروق القادری سے ٹیلی فون پر اکثر بات چیت ہوتی تھی، وہ ہمیشہ شفقت و مہربانی سے پیش آتے۔ وصال سے چند دن قبل ان کی خدمت میں راقم السطور نے اپنی کتاب ’’تذکرہ اولیاء کشمیر جلد دوئم‘‘ بھیجی، وصولی پر بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔ میں نے گزارش کی کہ میری کتاب ’’تحریک آزادی کشمیر اور علماء و مشائخ‘‘ پر کچھ تبرک کے طور پر لکھیں تو فرمایا مجھے مسودہ بھیج دیں، انشاء اللہ ضرور لکھوں گا، لیکن اجل نے موقع ہی نہ دیا کہ وہ کچھ لکھتے۔ راقم السطور نے ان کی آخری تصنیف ’’یادوں کے خواب‘‘ پر ماہنامہ ضیائے حرم لاہور میں ایک جامع تبصرہ پڑھا بہت خوشی ہوئی حضرت قبلہ کو فون کرکے اظہار مسرت کیا، فرمانے لگے میں پبلشر کو کہوں گا کہ آپ کو بھی بھیج دے، لیکن زندگی نے ایفا نہ کی اور یوں وہ اپنے ہزاروں محبت کرنے والوں کو ۱۳ جون ۲۰۲۰ء بروز ہفتہ داغِ مفارقت دے کر اپنے حقیقی گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ بقول علامہ محمد اقبال
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ایسی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مرقد منور پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔ امین بجاہ سیّد المرسلینؐ
٭٭٭