الوداع الوداع عاصمہ جہانگیر الوداع
عاصمہ جہانگیر گزشتہ روز ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہ دنیا چھوڑ کر چلی گئی،عاصمہ جہانگیر کون تھی ؟ہم سب انہیں کیوں یاد کررہے ہیں ؟یہ تو گزشتہ روز ان کے نماز جنازہ کے کراوڈ کو دیکھ کر سب کو معلوم ہو ہی گیا ہوگا۔۔عاصمہ جہانگیر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قبر میں سو گئی ہیں ،لیکن وہ ہمیشہ پاکستان کے کونے کونے میں نظر آئیں گی،ان کی انسانیت سے محبت کا احساس پوری پاکستانی قوم کو ہمیشہ ہمیشہ یاد رہے گا ۔۔۔کیا منفرد اور انوکھا نماز جنازہ تھا جس میں امیر ،غریب ،طاقتور،کمزور ،مسلمان،ہندو ،عیسائی ،سکھ ،پنجابی ،بلوچی ،پشتون،سندھی ،سنی ،شیعہ سب ہی موجود تھے ،اور ان تمام کی آنکھوں میں آنسووتھے اور وہ دھاڑیں مار مار کر روتے نظر آئے ۔۔۔ان کے نماز جنازہ کے روح پرور مناظر سے ثابت ہوگیا کہ وہ ریاست کی وکیل نہیں تھی ،وہ مظلوم عوام کی وکیل تھی،ہزاروں کی تعداد میں مظلوموں اور اشرافیہ نے مل کر انہیں خدا حافظ کہا ،میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ اس نماز جنازہ میں عاصمہ جہانگیر بی بی کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے ،جب ان سے کسی نے پوچھا بی بی آپ کی آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں ؟تو بتانے والے بتاتے ہیں کہ یہ آنسو دکھ اور افسوس کے نہیں ،بلکہ خوشی کے ہیں ،بتانے والے نے بتایا کہ وہ لوگ جو انہیں کافر ،غدار،قادیانی ،ملک دشمن کہتے تھے ،آج وہ بھی ان کے نماز جنازہ میں موجود تھے ،اسی وجہ سے ان کی آنکھوں میں آنسو تھے ،بتانے والے نے بتایا کہ عاصمہ بی بی مرنے کے بعد خوش تھی اور کہہ رہی تھی کہ جو انہوں نے کرنا تو وہ کردیا ،اس لئے اب وہ ہمیشہ ہمیشہ اس کائنات میں مسکراتی نظر آئیں گی ۔۔۔۔انسانیت پرست پاکستانی قوم نے شاندار انداز میں عاصمہ بی بی کو خدا حافظ کہا ۔۔۔پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی جنازے میں خواتین کی اتنی بڑی تعداد شریک ہوئی ہو،میڈیا رپورٹس کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں خواتین عاصمہ بی بی کے نمازہ جنازہ کا حصہ تھی ۔۔۔عاصمہ بی بی کے رشتہ دار بھی تھے ،دوست بھی تھے ،اشرافیہ خاندان کے افراد بھی اس نماز جنازہ کا حصہ تھے ،غریب اور مظلوم بھی تھے ،کسان اور ہاری بھی تھے ۔۔۔مولوی بھی تھے تو لبرل اور سیکولر بھی تھے ،سب کی آنکھوں میں آنسووں رواں تھے ،لیکن عاصمہ بی بی خوش تھی ،وہ اس لئے کہ شاید وہ ایسا پاکستان ہی چاہتی تھی جس میں سب انسان برابر ہوں ،رنگ و نسل سے بلند ہو ایک دوسرے کی مدد کررہے ہوں ۔۔۔کیا کبھی ایسا جنازہ پاکستان کی تاریخ میں دیکھایا گیا ہے ،اب عاصمہ جہانگیر کی کہاں ؟فاروق حیدر مودودی کہاں ؟میڈیا رپورٹ میں کہا گیا کہ جب جنازے میں اعلان کیا گیا کہ نماز جنازہ میں شامیانہ لگا کر خواتین اور مردوں کو علیحدہ علیحدہ کردیتے ہیں تو مجمعے سے آواز آئی کہ عاصمہ جہانگیر تو صنفی امتیاز کے خلاف تھی ،تو کیسے شامیانہ لگاجاسکتا ہے اور پھر شامیانہ نہ لگایا جاسکا اور سب نے ملکر نماز جنازہ پڑھا اور خوبصورت انداز میں عاصمہ جہانگیر کو الوادع کیا گیا ۔۔۔یہ تھی عاصمہ جہانگیر ۔۔۔۔یہ ہے وہ حقیقی پاکستان جو گزشتہ روز عاصمہ بی بی کے نماز جنازہ میں نظر آیا ۔۔۔وہ متبادل بیانیہ جسے ریاست برسوں سے تلاش کررہی ہے ،وہ متبادل بیانیہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کے نمازہ جنازہ میں سب کو نظر آیا ،اب معلوم نہیں کہ ریاست اور ھکومت کو بھی وہ متبادل بیانیہ نظر آیا ہے یا نہیں ؟قذافی اسٹیڈیم میں جب عاصمہ بی بی کا نمازہ جنازہ ہورہا تھا تو متبادل بیانیہ بھی سب انسانوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا تھا ۔۔۔۔۔ٹھیک ہے عاصمہ جہانگیر کے نام پر یونیورسٹی بنادیں ،پنجاب یونیورسٹی کے لاٗ ڈیپارٹمنٹ کو عاصمہ جہانگیر کا نام دے دیں ،کسی شاہراہ کا نام ان کے نام پر رکھ دیں ،لیکن خدارا اس بیانیئے پر بھی توجہ دیں جس کے لئے عاصمہ بی بی ساری زندگی جدوجہد کرتی رہیں ۔۔۔عاصمہ بی بی کے نام پر فری لیگل ایڈ نامی کوئی ادارہ بنادیں جس کا ایک ہی کام ہو کہ مظلوموں کو جلد از جلد انصاف فراہم کیا جاسکے۔۔۔صرف عاصمہ جہانگیر بی بی کی شخصیت اور نام کو زندہ نہیں رکھنا ،وہ تو ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہین گی ،عاصمہ ایک legacy کا نام ہے ،اس پر توجہ دیں ۔۔۔وہ تبدیلی کا نعرہ دے کر نہیں گئی ،وہ سماج کو تبدیل کرکے گئی ہیں ،وہ سماج جس کی وہ بات کرتی تھی ،گزشتہ روز ان کے نماز جنازہ میں نظر آیا ۔۔۔۔وہ کہتی تھی کہ ہر انسان کی بات ،سوچ اور سوال کو سنو ،پرکھو اور پھر اپنی رائے دو ،کیونکہ سوال کرنے کا حق اللہ نے ہر انسان کو دیا ہے ،سوچنے کا ھق اللہ نے ہر انسان کو دیا ہے ،وہ کہتی تھی کسی کو بغیر سوچے سمجھے مرتد ،کافر اور غدار مت کہو ،کیونکہ اس سے نفرت ،تعصب پیدا ہوتا ہے ۔۔۔۔ریاست کو چاہیئے کہ وہ عاصمہ جہانگیر کی اس سوچ پر بھی توجہ دے ۔۔۔۔وہ متبادل بیانیہ کے لئے ایک بہت بڑا گیٹ کھول کر گئی ہیں ،بہت بڑی سوچ دیکر گئی ہیں ،بہت بڑے بڑے سوال کرکے گئی ہیں ،امید ہے ریاست عاصمہ جہانگیر کے اس بیانیئے پر بھی توجہ دے گی ۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔