تعارف
انگریزوں کے راج والے عرصے کی سیاسی تاریخ کو پانچ اہم ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے دور کو ”بیزاری کا دور“، دوسری دور کو ”بیداری کا دور“، دوسری دور کو ”بیداری کا دور“ تیسرے دور کو ”ہنگامی دور“ چوتھے کو ”کشیدگی کا دور“ اور آخری دور کو ”نئے احساس کا دور“ کہا جا سکتا ہے۔ پہلے یعنی ”بیزاری کا دور“ کا آغاز 1843 سے ہوتا ہے، جب سندھ کے رہنے والے اپنی قومی آزادی کو گنوا کر دنیا کے بڑے حصے پر حکمرانی کرنے والے فرنگی سامراج سے بیزار اور منتفر ہو چکے تھے۔ سندھ کے رہنے والے کا ملک، جو فرنگی راج کے زیر اثر آنے سے پہلے پورے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی تاریخ میں ساتھ مل کر حکومت کرنے کا کامیاب تجربہ کر چکا تھا، س بدبخت نیپیئر کے آنے کے بعد صوبائی حیثیت کو گنوا کر بمبئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا بن چکا تھا، یہی تبدیلی سندھ کے رہنے والوں کو فرنگیوں سے بیزار کرنے کا باعث بنی۔ کچھ لوگوں نے اسی بیزاری اور نفرت میں اپنے وطن کو چھوڑ کے چلے گئے، باقی وہاں کے رہائشی افراد نے اسی بیزاری کے سبب اپنی نئی نسل کو فرنگی سرکار کی زبان، تہذیب و تمدن سے دور رکھنے کی کوشش کی۔
یہ ”بیزاری والا دور“ 1857 میں پہنچ کر ”بیداری والےدور“میں تبدیل ہوگیا۔ اسی سال جب پورے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بغاوتیں ہوئی تو سندھ بھی اس سلسلے میں پیچھے نہ رہی۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے 8 ستمبر 1857 میں حیدرآباد کے فوجیوں نے بغاوت کا منصوبہ بنایا، لیکن اس سے پہلے ہی سرکار کو خبر ہوگئی اور آٹھ (8) افراد کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا 13 ستمبر 1857 کو پھر اسی طرح سے سپاہیوں کو پکڑا گیا، جن میں گیارہ (11) افراد کو اسی جگہ جگہ پر توپ کے منہ میں دیا گیا۔ جو آج ایمپریس مارکیٹ کے نام سے موجود ہے۔
شکارپور اور سکھر کے باغیوں کو بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی، جن میں سے چار (4) کا کورٹ مارشل کر کے انہیں گولیاں ماری گئیں۔ اس جنگ میں نہ صرف سپاہیوں کا کردار رہا ہے بلکہ سندھ کے رہنے والوں نے بھی اسی طرح سے ان کا ساتھ دیا نہ صرف اتنا بلکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سپاہی تو پھر بھی صبر کر کے بیٹھے رہے پر سندھ کے رہنے والوں نے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فرنگیوں کا مقابلا کرتے رہے، جیکب آباد کے میر دریاھ خان اور میر دلمراد خان نے اسی سبب کالے پانی کی سزا کاٹی۔ 1857 کے ان واقعات کے بعد ایک آدھ دفعہ کراچی میں فرنگیوں پر حملہ کیا، دوسری طرف کرن سنگھ دو ہزار۔۔۔۔۔۔ کا جتھا بنا کر تھرپارکر میں مختیارکار کی کورٹ کو جلا کر بغاوت جا جھنڈا بلند کیا۔
جیسا کہ آزادی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں عوام کو واضح فتح حاصل نہیں ہوئی۔ اس لئے اس نے بندوق کے بجائے تدبر کی گوٹ کو استعمال کرنا چاہ اور اسی طرح سندھ چاہے ہند میں سیاسی جماعتیں بننے کا رواج بنا۔ اسی سلسلے میں سندھ کی پہلی سیاسی جماعت ”سندھ سبھا“ تھی جو آل انڈیا کانگریس کامیٹی سے بھی پہلے 188میں قائم ہوئی۔ اس طرح سندھ کی سیاسی تاریخ میں ”ہنگامی دور کا آغاز ہوا۔“
اس ”ہنگامی دور کی سیاست نے آگے چل کر کتنے ہی رنگ بدلے، اس وقت کی حکومت نے ”لڑاو اور حکومت کرو“ کی حکمت عملی اختیار کی اسی سبب رنگ، نسل، ذات پات، اور دین دھرم جیسے عناصر اس کی سیاست ”کشمکش اور کشیدگی کے دور“ میں داخل ہوئی، اس دور کو کانگریس اور مسلم لیگ نے عروج دیا۔ واضح کامیابی مسلم لیگ کو حاصل ہوئی۔“
جب پاکستان کے قیام کا تصور ایک حقیقت بن چکا تھا، تب سندھ کے ایک طبقے میں ایک ”نیا احساس“ پیدا ہونے لگا اور اس نے ایک الگ حیثیت سے اپنے من کے اندر جھانکنے کی کوشش کی لیکن وقت کی بہتی ندی کو روکنا ناممکن تھا، ”نئے احساس کے دور“ نے ابھی قدم ہی نہیں جمائے تھے کہ ہندوستان کی تقسیم ہوگئی اور اس طرح انگریز راج والے عرصے کی سیاسی تاریخ کا پہلا باب بھی پورا ہوا۔
مختلف روپ
جیسا کہ ابتدا میں انگریزی دور کی سیاسی تاریخ کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے، ایسے ہی ان مختلف ادوار کام کے مختلف روپ کا مطالعہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسی دور کی سیاست کو ہم کتنے ہی حصوں بانٹ سکتے ہیں، جیسے ”جاگیردارں کی سیاست“،”غیر فرقے وارانہ سیاست“،”مسلمانوں کی سیاست“،”ہندوئوں کی سیاست“،”سرکاری سیاست“ اور ”مارکس والی سیاست“۔
آئیے تو ہم اپنے بڑوں کی سیاست کے یہ روپ بھی دیکھتے چلیں۔
جاگیرداروں کی سیاست
انگریز راج سے پہلے سندھ غیر منظم نظام کے نیچے میں پھنسی ہوئی تھی انگریزوں نے اسی غیر منظم گروہ کو منظم کر کے سندھ کے لئے اور مشکلات پیدا کردیں 24 مئی 1843 والا دن سندھ کی تاریخ کا وہ مخصوص دن تھا، جب نیپیئر کو سندھ پر قبضے کئے اتنے دن ہوئے تھے جب وہ انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے جب سندھ میں برطانیہ کی ملکہ کی سالگرہ منائی گئی۔ اس موقعے پر سر چارلس نیپیئر نے حیدرآباد میں ایک نشست کرائی اور سندھ کے جاگیرداروں، وڈیروں، اور پیروں کو اپنی سامراجی حکومت کی سیاسی بیعت کرنے کی دعوت دی۔ اس موقعے پر اس وقت کی حکومت کی طرف سے یہ بھی اعلان کیا گیا کہ ”فقط ان جاگیرداروں کو زمین پر قبضے رکھنے کی اجازت دی جائے گی، جو دربار میں آکر حاضری دینگے، باقی دوسرے جاگیرداروں کی جائیدادیں ضبط کی جائیں گی۔“
اس دربار میں سندھ کے کتنے ہی جاگیردار، پیر اور وڈیرے شامل ہوئے اور اس طرح پہلی دفعہ سندھ کا اعلیٰ طبقہ عوام سے علیحدہ ہوگیا، اس طبقے نے زیر مطالعہ دور میں صرف دو مفادوں کا بچاء کیا ”پہلا سرکاری مفاد کا، اور دوسرا اپنے طبقے کے ان مفادات کی حفاظت کے لئے انہوں نے اپنی الگ پارٹیاں بنائیں۔“
جب کہ سندھ کے جاگیردار، زمیندار، وڈیرے اور پیر شروع سے ہی سیاست پر حاوی رہے، مگر جب سیاست ”عام“ ہوگئی تو ان کو ”خاص“ بننے کے لئے خالص اپنی جماعتیں بھی بنائی پڑیں۔ اسے سلسلے میں 1920 میں لاڑکانہ میں مشترکہ ”سندھ زمیندار ایسوسیئشن“ بنائی گئی اور آگے چل کر سندھ کے اس طبقے میں اعزاز، عزت، یا شہرت جیسے مسائل پر مسئلہ ہوا تو انہوں نے اپنی الگ الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانی شروع کیں، تو ایسی ایک جماعت ”لوئر سندھ جاگیردار ایسوسیئشن“ اور ”اپر سندھ جاگیردار ایسوسیئشن“ میں تقسیم ہوگئی۔ اس اختلاف کا سبب قومی خدمات نہیں بلکہ مقامی مفاد یا اعزازت کا حصول ہی تھا۔ اس بات نے دنگ نہیں کیا لیکن جیسے جیسے معاشرہ دین دھرم، ذات پات اور رنگ نسل کی وبا میں جکڑتا چلا گیا۔ ویسے یہ جاگیردار بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوکر تقسیم ہونے لگے، اور خبر سے ”سندھ ہندو زمیندار سبھا“ نے بھی خود کو ظاہر کیا۔
غیر فرقیوارنہ سیاست
جیسا کہ ”لڑاو اور حکومت کرو“ فرنگی حکومت کی سیاسی حکمت عملی کا بنیادی اصول تھا اور اسی اصول نے ہر جگہ اپنے رنگ دکھائے، لیکن اس کے باوجود سندھ کی سرزمین پر ایسی پارٹیوں نے بھی جنم لیا جنھوں نے غیر فرقیوارانہ سیاست کی بنیادوں پر کافی وقت تک عوام کو متحدہ پلیٹ فارم مہیا کرتی رہیں ہیں۔”سندھ سبھا“ اس قسم کی پہلی جماعت تھی جو 1882 میں قائم ہوئی۔ سندھ میں اس کے بعد ”سندھ سوراج سوسائٹی“ سندھ لیگ آف پروگریس ”نیشنل کمیونکیشن کلب“،”سندھ پولیٹکل کلب“ اور سندھ اسیمبلی کوئیلشن پارٹی جیسی پارٹیاں غیر فرقیوارنہ بنیادوں پر بنیں اور جو کسی حد اور کسی وقت تک سندھ میں مذھبی کٹرپن، سیاسی تنگ دلی کی جڑیں ہی اکھاڑ ڈالیں ان سیاسی پارٹیوں، کلبز اور سوسائٹیوں کے علاوہ ”سندھ پرونشل کانفرنس“ کو بھی شامل غیر فرقے ورانہ سیاست کے حصے میں شامل کر سکتے ہیں ان کانفرنسز کا آغاز 1896 میں بلائی گئی ”نویس ممبئی پرونشل کانفرنس“ کراچی میں منعقد بارہ سال کے بعد یعنی 1908 میں ہوا یہ کانفرنسز اپنے دور میں ہندو مسلم اتحاد کا عملی مظہر تھی ان کانفرنسز میں ہندو، مسلمان، سکھ اور پارسی وغیرہ شامل ہوتے تھے۔
مسلمانوں کی سیاست
سندھ میں مسلمانوں کی سیاست کا آغاز ”محیمع محمدی“ کے قیام سے ہوا، جو 16 مارچ 1884 میں قائم ہوئی اور تھوڑے ہی عرصے اس کی سندھ کے مختلف مقامات پر اس کی شاخیں قائم ہوئیں۔ اس جماعت نے آگے چل کر ”سندھ محمدن ایسوسیئشن“ کا روپ لیا۔ جب کہ جماعتوں کی حکمت عملی حکومت سے ہاتھ باندھ کر بھیک مانگنے پر مشتمل تھی لیکن پھر بھی سندھ کے سیاسی ارتقاء میں اس جماعت نے سیاسی سماجی، مذہبی اور تعلیمی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ جماعت آگے چل کر ”حکومت کی جی حضوری“ کا نادر نمونہ بن کر رہ گئی۔
”سندھ محمدن ایسوسیئشن“ جب عوام کا اعتماد کھو چکی تو ان کی ضد میں 1917 میں ”سندھ مسلم لیگ“ قائم ہوئی۔ یہ لیگ ایک الگ اور خود مختیار جماعت تھی جس کا عملی طور پر ”آل انڈیا مسلم لیگ“ سے تل برابر کا بھی واسطہ نہ تھا۔ ”سندھ مسلم لیگ“ کی تاریخ میں بھی کتنے ہی دور آئے۔ ان کو 1920 اور 1934 میں نئے سرے سے منظم کیا گیا۔ یہ جماعت 1930 تک فعال رہی۔
”سندھ محمدن ایسوسیئشن“ اور ”سندھ مسلم لیگ“ کے علاوہ سندھ کے مسلمان سربراہوں نے دوسری پارٹیاں بھی بنائیں۔ جن میں ”سندھ پیپلزپارٹی“،”سندھ ا ٓزاد پارٹی “،”یونسٹ پارٹی“، سندھ یونائیٹڈ پارٹی ،”سندھ مسلم پولیٹکل پارٹی“، ”پروگریسو مسلم لیگ“،”سندھ ساگر پارٹی“ اور ”مسلم نیشلسٹ پارٹی“ کے نام ذکر لائق ہیں۔
سندھی مسلمانوں کی سیاسی تاریخ میں ”سندھ کی ممبئی سے علحیدگی والی تحریک والی تحریک“ کو بھی نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ ابتدا میں یہ مسئلہ سندھ کے ہندو چاہے مسلمان دونوں کا مشترکہ مسئلہ تھا اور اسے ”سندھ پراونشل کانفرنس“ 1908 1917 اور 1918 میں زیر بحث لانے والے بھی ہندو ہی تھے، پھر آگے چل کر ہندو چاہے مسلمان انہوں نے اپنا اپنا راستہ لیا، اس مسئلے کے حل کے لئے 1932 سے لے کر مسلمانوں کو خاص کانفرنسز کا انعقاد کرنا پڑا، جو ”سندھ آزاد کانفرنس“ کے نام سے مشہور ہے۔ اس سلسلے میں پہلے کانفرنس 18 اپریل 1932 میں کراچی میں، دوسری 15 نومبر 1932 میں حیدرآباد میں تیسری 26 اپریل 1934 سکھر میں اور چوتھی 28 جولائی 1934 کراچی میں منعقد کی گئی، اس کانفرنس میں دوسرے نمبر کانفرنس کے موقعے پر ”سندھ آزاد کانفرنس“ کے نام سے ایک جماعت بھی قائم کی گئی۔
ہندوں کی سیاست:
1884 میں حسن علی آفندی اور دیا رام گدومل کے بیچ میں ”سندھ سبھا“ کے ہونے والے اجلاس میں لارڈرن ربن کو اعزاز دینے کے معاملے میں اختلاف پیدا ہوا اور حسن علی آفندی نے ”مجمع محمدی“ کو مضبوط کیا اور ایسے ہی سندھ کی سیاست میں مذہب کی بنیاد پر الگ سے دھڑے بندی ہونے لگی اسی اختلاف کے بعد 1885 میں ”کانگریس کمیٹی“ بنی اور سندھ کے ہندو اس طرف راغب ہوئے ”کانگریس“ کے قیام کے بعد سندھ کے ہندوں کو ایک بڑا پلیٹ فارم مل چکا تھا، اس لئے ”سندھ سبھا“ عملی طور پر ختم ہوتی گئی، جو آگے چل کر جب ”مسلم لیگ“ اور ”ہندو سبھا“ جیسی جماعتیں بنیں تو سندھ کے ہندوں نے اپنی وطن کی حالتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے ”سندھ ہندو سبھا “ قائم کی۔ اس جماعت کا ”ہندو مہا سبھا“ سے کوئی ماں، بیٹی جیسا رشتہ نہیں تھا اور اس کا صدر دفتر کراچی میں ہوتا تھا اور اس کی شاخیں پورے سندھ میں ہوا کرتی تھیں۔ یہ جماعت بھی سندھ کے ممبئی سے علحیدگی تک سرگرم عمل رہی۔
سندھ کے ممبئی سے علحیدگی سے پہلے سندھ میں ہندوں کی 3 اہم جماعتیں تھیں۔ جیرام داس دولت رام اور ڈاکٹر چتھرام نے ”کانگریس“ کی سربراہی کی۔ جس کا مرکز سندھ سے باہر تھا۔
”سندھ ہندو سبھا“ اس وقت ٹیکم داس کی قیادت میں کام کر رہی تھی۔ ”سندھ ہندو پنچائت“ کو مکھی پریتمداس چلا رہے تھے، ان جماعتوں کے بعد دوسری جماعتیں بھی بنائی گئی۔ نومبر 1936 میں سوامی گووندانند ”سندھ پیپلز کانگریس کمیٹی“ بنائی، اسے سے پہلے 1935 سے ہندوں کی ایک دوسری جماعت ”سندھ نیشلسٹ پارٹی“ یہ کام کر رہی تھی۔
سندھ کی ممبئی سے علحیدگی ہوئی، اور ہر برصغیر کی سیاست میں انقلابی تبدیلیاں آئیں خاص طور پر پاکستان کا تصور ایک حقیقت کا روپ لینے لگا تو سندھ کے ہندوں کو نئی تبدیلیوں کے مطابق اپنے مفادات کے بچاوء کے لئے منظم ہونا پڑا۔ ایسے ہی ”سندھ منارٹیز ائسویشن“ اور ”منارٹیز پروٹیکشن بورڈ“ قائم ہوئے۔
سندھ کے ہندوں کی سیاسی تاریخ میں ”سندھ“ کی ممبئی سے علیحدگی والی تاریخ کی مخالفت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سندھ کی سیاسی تاریخ کا یہ دکھ بھرا واقعہ ہے جو 1908 میں پہلے ہرچند رائے وشنداس نے سندھ کو آگے کرنے کی بات شروع کی اور پھر آگے چل کر اس کی مخالفت کرنی پڑی۔ نہ صرف ”سندھ ہندو سبھا“ اور ”سندھ ہندو پنچائت“ جیسی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی۔ پر اس کے اندرونی طور پر سندھ میں ”اینٹی سیپریشن کمیٹی“ بنائی گئی اور خارجی طور پر ”آل انڈیا کانگریس کمیٹی“ اور ”مہا سبھا“ کو بھی اس معاملے میں ٹانگ اڑانے پر مجبور کردیا ۔ نہ صرف اتنا پر سندھ کے ہندوں نے لندن می بھی کچھ گورے افراد کو سندھ کی جدائی کے خلاف مبلغ طور پر کام میں لانے کی کوشش کی۔
سرکاری سیاست:
برصغیر اور سندھ کے عوام میں جب سیاسی بیداری آنے لگی تو انگریز سرکار نے ”لڑائو اور حکومت کرو“ کی حکمت عملی اختیار کی۔ انہوں نے کچھ مواقع پر چھپ چھپا کر سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کو پتلی کی طرح نچایا اور کچھ صورتوں میں جان بوجھ کر مداخلت بھی کی۔
فرنگی سرکار نے اپنے مفادات کے بچاوء میں نظریات کے فروغ کے لئے کتنی ہی جماعتیں بنوائیں۔ 1857 کے واقعے کے بعد جب کانگریس پارٹی بنی، وہاں خالص سرکاری جماعتیں”برٹش ایمپائرلیگ“ بھی قائم ہوئی۔ اس جماعت کی 1906 میں سندھ میں بھی شاخ کھولی گئی۔ جس کے پلیٹ فارم پر سندھ کے سرکار پرست مسلمانوں، ہندوں، فاریسوں اور عیسائیوں نے انگریز سامراج کی خدمت کی 1919 میں جب ”خلافت تحریک“ آگ بن کر فرنگی سرکار کو لپٹ گئی تو سرکار کی کوششوں سے یہاں ”امن سبھا“،”سوراج سبھا“،”دی نیشنل سروس لیگ“ اور اینٹی نان کوآپریشن سوسائٹی کے نام سے جماعتیں بنیں، جنھوں نے عوام کے مفادوں کے خلاف اس وقت کی سرکار کا ساتھ دیا۔ اس وقت کے بیورو کریٹ انہی جماعتوں کے اجلاس کی صدارت کرتے تھے، اور اپنی مرضی کے مطابق قرارداد بحال کراتے تھے۔ یہ سلسلہ سندھ سے ممبئی سے علیحدگی تک تھا۔
جب سندھ جدا ہوئی تو وہاں کی سیاست کا آغاز ہی غلط نمونے سے ہوا اور اس وقت کی سرکار نے سیاسی اصولوں کو توڑ کر اپنی مرضی کے مطابق وزارتیں بنائیں اور انتخابات کروائے، برصغیر میں سندھ ہی ایک واحد خطہ تھا، جس میں اکثریتی پارٹی کو نظرانداز کر کے اس وقت کے گورنر نے تین ارکان والی جماعت کو سندھ کی وزارت بنانے کی دعوت دی۔ اس کے علاوہ پورے برصغیر میں سندھ کے وزیراعلیٰ کو ہی ڈس مس کیا گیا تھا۔ اسی طرح ابتدا سے لے کر انتہا تک سرکار اپنی سامراجی سبھا کی ساکھ کو برقرار رکھتے ہوئے سندھ کی سیاست کو آلودہ کرتی رہی۔
مارکسوادی سیاست:
پہلی مہا بھارت جنگ نے پوری دنیا کے ساتھ سندھ اور ہند ہر دور رس اثرات چھوڑے۔ حکومت برطانیہ اس جنگ میں نہ صرف شریک ہوئی بلکہ سندھ اور ہند کے کتنے نوجوانوں کو جنگ کے منہ میں دھکیلا گیا اور اسکے ساتھ ہی برصغیر کے خام مال اور خوراک کے وسیلوں کو بھی اپنی جنگی ضرورتوں کے لئے وقف کردیا ۔ اس لئے اشیاء میں کمی اور قیمتوں میں اضافہ آگیا۔ بدقسمتی سے 1918 اور 1919 میں پھر پہرے برصغیر میں قحط اور وبا نے ایک ساتھ حملہ کیا۔ جس نے ایک کروڑ بیس لاکھ انسانوں کو موت کے منہ میں لے لیا۔
جنگ کے بعد سامراجی سرکار نے ہندوستانی صنعت کی طرف توجہ دی جس کی وجہ سے وہاں کے سماج میں کارخانے داروں، سرمایہ داروں، اور مزدوروں کے طبقے پیدا ہونے لگے۔ روزگار کی تلاش میں دیہاتوں سے شہروں کی طرف رخ کیا جانے لگا اور مزدر طبقہ ایک قوت بننے لگا۔ آج کی طرح اس زمانے میں بھی برطانیہ اور روس کے تعلقات چانڈیو اور مگسیوں کی طرح تھے۔ اس لئے فرنگی سرکار کے خلاف جنگ لڑنے والے عوام، فطری طور پر روس کی تبدیلی میں دلچپسی لینے لگے اور اسی طرح سندھ میں مارکسوادی نظریئے کو فروغ ملا۔
1922 تک مارکسوادی فکر اور نظریہ اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا اسی سال ممبئی سے ”دی سوشلسٹ“ کے نام سے ہفتوار اخبار جاری ہوا۔ جیسا کہ اس زمانے میں سندھ بھی ممبئی کا حصہ تھی۔
اس لئے یہ اخبار سندھ تک بھی پہنچنے لگی۔ آخرکار آگے چل کر دسمبر 1925 میں مشترکہ ہندوستان میں پہلی ”کمیونسٹ پارٹی“ قائم ہوئی۔
سندھ میں یہ فکر 1926 تک کتابی شکل لے چکا تھا اس سال جٹھل پرسرام ”سامیہ واد“ کے نام سے ایک کتاب لکھا اور اس کے ایک سال کے بعد وشنو شرما ”بے انصافی کیسے دور کی جائے؟“ کے نام سے ایک کتاب لکھا۔ ان دونوں کتابوں میں سوشلزم پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔
سندھ کے مارکسوادی فکر کو فروغ ملنے کے بعد سب سے پہلے 1930 میں ”ہاری کمیٹی“ بنی 1934 میں جب پٹنہ میں ”کانگریس سوشلسٹ پارٹی“ بنی ان کی شاخ یہاں بھی قائم ہوئی۔ اس کے بعد سندھ میں ”سندھ پروگریسو پارٹی“،”سندھ لیبر پارٹی“، ”فرینڈ آف سوویت یونین“،”سندھ بلوچستان کمیونسٹ پارٹی“ اور ”دی سوشلسٹ پارٹی“ قائم ہوئیں۔
مذہبی سیاست:
زیر مطالعہ دور میں سندھ کی سیاست میں مذہبی جذبے اور جنون رکھنے والے افراد کا زیادہ ہاتھ رہا ہے۔ لیکن تاریخی حقیقتوں اور نتیجوں نے کبھی بھی اس بات کی ہمت افزائی تائید یا تصدیق نہیں کی ہے۔
انگریز راج کی ابتدا ہوئی تو حالات کا بیٹھ کر مقابلا کرنے کے بجائے ہجرت کرنے کا عالم رہا۔ انہوں نے کتنا ہی وقت اپنے حامیوں اور باقی عوام کو انگریزی زبان سے دور رکھا جس کے نتیجے میں سندھ میں ہندوں اور مسلمانوں کے دو طبقے ہوگئے۔ کچھ کو نوکریاں ملیں اور کچھ ملازمتوں کا تصور بھی نہیں کر سکے۔
کچھ کو دولت نے بھی جھک کر سلام کیا اور کچھ اپنے جیسے انسانوں کے آگے جھکنے کے باوجود پیٹ کے دوزخ کی آگ بھی نہیں بجھا سکے۔
”سندھ سبھا“ میں سے جب حسن علی آفندی خفا ہو کر باہر نکلے تو مولوی اللہ بخش ”ابوجھو“ ہی ان کے سندھ ساتھی ثابت ہوئے اور اس طرح ایک مذہبی آدمی کی کوشش سے ”مجمع محمدی“ قائم ہوئی۔ ”ریشمی رومال تحریک“ چلی تو ان کو بھی مولانا عبیداللہ سندھی اور سندھ کے دوسرے عالموں نے کندھا دیا۔
اس کے بعد ”خلافت تحریک“ چلی تو وہاں کے عالموں نے ”عدم تعاون“،”ترک موالات“ اور ”ہجرت تحریک“ کی بنیاد رکھی اور انگریز سامراج کا ناک میں دم کر کے رکھ دیا، سندھ کے عالم، سندھی عوام میں مذہبی جوش اور جذبہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے پر ان کو وہ کوئی نئی راہ نہیں دے سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب مذہب عوام کے ذہنوں اور خیالوں پر پتھر پر لکیر کی طرح ہو چکا تھا اس وقت ”خلافت تحریک“ کا خاتمہ تو ہوا، پر اللہ آباد والے اجلاس میں ”مسلم لیگ“ کو ”پاکستان“ کا تصور پیش کرنے میں آسانی ہوئی، جسے عوام نے خوشی کے ساتھ قبول کرلیا، ورنہ یہ جماعت کتنے عرصے سے لے کر ”ہندو مسلم اتحاد“ کے لئے کام کرتی رہی۔ یہاں یہ کہنے میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ مالی نے زمین تیار کی پر اس کی داغ بیل مسلم لیگ نے ہی ڈالی، ”خلافت تحریک“ کے زمانے میں انگریزوں کی ”لڑاو اور حکومت کرو“ کی حکمت عملی نے سندھ کے علماء کو ایسے رستے پر لاکھڑا کیا جہاں وہ سانپ کے بجائے رسی کاٹنے میں ہی مشغول ہوگے۔ ان کا کتنا ہی وقت ایک دوسرے پر فتویٰ صادر کرنے میں صرف ہوگیا۔ ”خلافت“ جو خاتمہ ہوا تو کچھ علماء نے ”جمعیت علماء“ کا جھنڈا بلند کیا۔
ایسے ہی سندھ کی علیحدگی تک ہمارے عالم سیاست کا میدان چھوڑ کر صرف مذہب تک محدود ہوگئے لیکن سکھر کی ”مسجد منزل گاہ کی تحریک“ نے ایک چونچ میں لے لرا نہیں”مسلم لیگ“ کی صفوں میں لاکھڑا گیا۔۔۔۔ جب کہ ”مسلم لیگ“ انہیں اسمبلیوں میں تو نہیں لائی لیکن پھر بھی وہ مبلغ بن کر ”مسلم لیگ“ کے مستقبل کا منظر کو چاٹنے رہے جس کا ذکر کیا اسکا پر عکس بھی اس جماعت کی کسی قرارداد میں نہیں ہے۔
ایک جھلک:
1843 سے لے کر 1947 والے دور کی سیاسی تاریخ کو دیکھا جائے تو سیاستدان کی حیثیت سے سندھ کے رہائشی ”خارجی میدان“ تو کامیاب رہے ”داخلی میدان“ میں بالکل ناکام نظر آتے ہیں۔
یعنی انہوں نے برصغیر کی سطح پر عظیم کارنامے سرانجام دیئے، لیکن اپنی دھرتی پر جوت نہیں جلا سکے!
میرے خیال میں اس کا بڑے سے بڑا سبب ”حد سے زیادہ ذہانت“ تھا جیسا کہ انگریز راج کے دوران سندھ سے باہر، باقی برصغیر میں قیادت اور صلاحیت کا فقدان تھا۔ اس لئے سندھ کے سپوتوں کو اپنے جوہر دکھانے کا بھرپور موقعہ ملا، اور انہوں نے برصغیر کی سطح پر قائم کی گئی سیاسی پارٹیوں کی قیادت کی، مثال کے طور پر خواجائوں کے روحانی رہبر آغا خان نے مسلم لیگ کو بنانے اور بنوانے میں اہم کردار ادا کیا، اس نئے فرقے کے ایک فرد محمد علی جناح نے اسی مسلم لیگ کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں قیادت مہیا کی۔
مسلم لیگ کے علاوہ ایسا ہی حشر کانگریس کمیٹی کا تھا، دیوان گوبند ، سادھو ہیر آنند، اور کئی دوسرے پہلے سندھی سیاستدان تھے ، جنھوں نے کانگریس کے اسی اجلاس میں شرکت کی۔ جس میں اس پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا، سندھی شروع سے لے کر ہی اس کی ورکنگ کمیٹی کے میمبر بننے آئے، یہاں تک اس کے مشکل وقت میں اس کے سیکریٹری بھی ہوئے، مطلب کہ سندھ رہنے والوں کو کانگریس میں غیر معمولی عہدے ملے اور انہوں نے ان عہووں سے انصاف بھی کیا۔
اسی طرح جب ”خلافت تحریک“ کا آغاز ہوا تو اس موڑ پر بھی سندھ کے رہنے والوں کی قیادت اور صلاحیت پورے برصغیر کے کام آئی ”عدم تعاون“ کی قرارداد کراچی کے”خالقدینا ہال“ میں بحال ہوئی ”ہجرت تحریک“ کا آغازش یہی سے ہوا، اور زہر کا پیالہ بھی یہی سے رئیس المہاجرین جان محمد جونیجو کو پینا پڑا! خلافت تحریک کے ساتھ ”جمعیت العماء“ ایک تحریک بن کر ابھری تو اسے تشکیل دینے والے اجلاس میں پیر محمد امام، مولانا اسد اللہ شاہ، مولانا تاج محمود امروٹی، اور مولانا محمد صادق کھڈے والے نے شرکت کی۔
اس کے بعد اس جماعت کی پہلی ورکنگ کمیٹی بنی تو اس میں سندھ سے مولوی پیر تراب علی، مولوی عبداللہ اور مولوی محمد صادق کھڈے والے کو بھی رکھا گیا۔
اس طرح سے 1915 میں جب مائے آئنی بسینت ”ہوم رول لیگ“ اور اسکے جانشین آرنڈول نے 1935 میں ”انڈین نیشنل لیگ“ بنائی تو اسے پکارنے والے بھی سندھی تھے، جنھوں نے سندھ کی پر ان جماعتوں کی شاخیں اسے قائم کیں، جیسے کسی کسان کھیتوں میں بیج پو دیئے ہوں، ”خاکسار تحریک“ کو خیر و خوبی سے سندھ میں مقبول بنانے والے بھی سندھی تھے جن میں سے آج بھی کتنے ہی زندھ ہیں۔
یہ تو تھا سندھ میں رہنے والوں کی سیاسی بصیرت، لیاقت اور صلاحیت کا خارجی رخ، جب ہم داخلی میدان کی طرف رخ کرتے ہیں تو بلکہ ایسے ہی جیسے مور اپنے قبیح پیروں کی طرف دیکھ کر رو پڑتا ہے، ایسی ہی حالات ایک محب وطن تاریخ دان کی ہوتی ہے۔ سندھ کی داخلی سیاست دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے جیسے ایک تاریک رات ہے میں تاروں کے ٹمٹانے کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا۔
جیسے میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ ہمارے بزرگوں کا داخلی میدان میں پیچھے رہنے کا سب سے بڑا سبب ان کی ”حد سے زیادہ ذہانت“ تھی اسی ذہانت کے سبب کسی بھی دور میں کسی بھی پارٹی میں متحد ہی نہیں ہو سکے، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ جیسے ایک جنگل میں دو شیر نہیں رہ سکتے:
اسی کا یہ نتیجہ نکلا کہ سندھ کی داخلی سیاست ہمیشہ اختلافات کا شکار رہی، عہدے نھ ملنے پر پارٹیاں ایسے اور اتنی جلدی تبدیل کی گئی اتنا تو کوئی امیر آدمی بھی اتنی تیزی سے کپڑے نہیں بدلتا! معمولی اختلافات پر لاکھوں کی وزارتیں صرف ایک ایک روپئے کے عیوض دی گئی، پھر ہوا کیا؟ جیسے کو لے کو شور میں مزہ آتا ہے، ایسے ہی یہاں پارٹیاں اور ان کے سربراہوں کی موجیں لگ گئیں۔
یہاں تک کہ سندھی سیاست دانوں کے اوپر یہ وقت آ کر ٹہرا کہ انہیں خود سنبھالنے کی بھی مہلت نہ مل سکی۔ پھر نہ صرف وہ خود اس میں بہر گئے بلکہ تاریخ کو بھی اپنے ساتھ بہا کرلے گئے۔
زیر ذکر کچھ پارٹیوں کا تعارف:
1. اپر سندھ زمیندار ایسوئیشن
یہ جماعت سندھ کے اعلیٰ طبقے کی ان بن کا نتیجہ تھی، جمایت کی قیادت لاڑکانہ کے زمینداروں کے زیردست تھی، اس جماعت کے خاص مقاصد تھے، اپنے علائقے کے اعلیٰ طبقے کے مفادوں کی حفاظت کرنا اور ”لوئر سندھ زمیندار ائسوسیشن“ کی مخالفت کرنا۔
2. امن سبھا:
1919 میں ”خلافت تحریک“ کی ابتدا نے فرنگی سرکار کے خلاف طوفان اٹھا دیا اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اس وقت کی حکومت اپنی لاٹھی اپنی بھینس کے زور پر ”امن سبھائیں“ قائم کروائیں۔ ان سبھاوں کو سندھ کے وڈیروں، پیرن اور عملداروں نے مشترکہ طور پر اسے کامیاب کرنے کی کوشش کی۔ پر جماعتیں سندھ کے آبادی والے شہروں میں بنائی گئی۔
3. انڈین نیشنل لیگ:
یہ جماعت اصل میں اس زمانے کی مشہور تھیاسفٹ ڈاکٹر آرنڈول نے 8 فروری 1935 میں مدراس میں قائم کی۔
لیگ کے خاص مقاصد یہی تھے کہ برطانیہ کی زیر نگرانی سوراج حاصل کیا جائے اور ہندوستان کے لئے اسی قسم کا آئین حاصل کیا جائے۔
سندھ میں پھر 24 مارچ 1935 اسی کی شاخ قائم کی گئی، کراچی کو اس کا مرکز بنایا گیا لیگ کی پہلی وقتی کمیٹی ان سیاستدانوں پر مشتمل تھی۔
صدر: درگداس، بی، آڈوانی
نائب صدر: کیولرام، دیارام، جی ایم سید۔
سکریٹری: جی، ئی تھدانی، ریجھومل آڈوانی۔
خزانچی: بھاگ چند چترسنگھ
ورکنگ کمیٹی: جمشید مہتا، ڈاکٹر پوپٹ لال۔
4. اینٹی سیپریشن کمیٹی:
یہ کمیٹی سندھ کو ممبئی سے الگ نے کرنے کے لئے 1932 میں بنائی گئی۔ کمیٹی کے سرگرم کارکنوں میں دیوان بہادر مرلی دھر، نام ذکر لائق ہیں۔ سندھ میں کمیٹی کے اہم 2 دفتر ہوتے تھے! ایک کراچی اور دوسرا کمیٹی نے لندن میں اپنے انگریز مبلغ بھی مقرر کئے۔
5. اینٹی نان کو آپریشن سوسائٹی:
یہ سوسائٹی اپریل 1921 میں حیدرآباد کے سابق پریذیڈنٹ ٹھاکرداس کھیمچند کی کوششوں سے قائم ہوئی۔ سوسائٹی کا اہم مقصد ”امن سبھا“ جیسا ہی تھا۔ اس سوسائٹی کے پہلے عہدیدار یہ تھے۔
صدر: دیوان لیلارام سنگ وطن مل
سیکریٹری: ٹھاکرداس کھیم چند
کارباری کمیٹی: دیوان ھشمت رائے (چیئرمین)، مرزا قلیچ بیگ، محمد احسان، مکھی ہرکشنداس، لوکومل گوبند بخش، جیٹھسنگ نارائن سنگھ، گوپال داس، علی اکبر بار ایٹ لاء، مسٹر غنی بار ایٹ لاء۔
6. برٹش امپائرلیگ
یہ جماعت فرنگی سرکار کے خیرخواہوں کی قدیم جماعت تھی، جس کی سندھ میں 5 مارچ 1906 کو شاخ قائم کی گئی تھی۔ سندھ کا کمشنر اس جماعت کا صدر ہوتا تھا اور سندھ کے ہندو، مسلمان، پارسی، اور کرسیچین کے وہ افراد جو سرکار پرستی میں مشہور تھے، 1906 میں اس جماعت کے 85 میمبرز تھے۔ غیر سرکاری افراد میں پروفیسر شاہانی، ٹیکچند اوڈھوداس، غلام علی چھاگلہ، نادر شاہ، ڈنشا اور یوسف علی، علی بھائی اس جماعت کے سرگرم کارکن رہے ہیں۔
7. خاکسار تحریک:
سندھ میں اس تحریک کو مانوس کرانے والے حیدرآباد کے وکیل نصیر محمد تھے ان کے بعد ڈاکٹر قاضی محمد اکبر نے اس تحریک کو مقبول بنایا۔ پیر الاہی بخش کی کوششوں سے اس جماعت کی لاڑکانہ اور جیکب آباد میں شاخیں قائم ہوئیں۔ کراچی میں قاضی عبدالرسول وکیل اور سید حضرت شاہ نے اسے یہاں مقبول بنایا۔
8. دی منارٹیز پروٹیکشن بورڈ:
ہندوستان کے بٹوارے نے جب حقیقت کا روپ دھارا تو سندھ کے غیر مسلم عوام ، نے نئے حالات کے مطابق منظم ہونے کی کوشش کی اور یہ بورڈ تشکیل دیا۔ اس بورڈ کا صدر دفتر کراچی میں تھا پر اسے سندھ تک محدود نہیں رکھا گیا تھا۔ بورڈ کے آئین میں بیان کیا گیا تھا کہ یہ بٹوارے کے بعد آگے چل کر اس بورڈ کی ہیڈ آفیس پاکستان میں دوسری بھارت کی دارالحکومت والی جگہ پر قائم کی جائے گی۔
9. دی نیشنل سروس لیگ:
یہ لیگ خلافت اور کانگریس کہ مشترکہ نافرمانی والی تحریک کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لینے کے لئے 1921 میں بنائی گئی۔ ٹھاکرداس کھیم چند اس جماعت کے روح روان تھے۔
10.ستیا گرہ سبھا:
”رولٹ ایکٹ “ عائد ہونے کے بعد عوام کی زندگی عذاب ہونے لگی، اس کو سامنے رکھتے ہوئے سندھ کے سیاست دانوں نے اپریل 1919 میں یہ سبھا قائم کی۔ جماعت کا صدر دفتر کراچی میں ہوتا تھا۔
11. سندھ آزاد پارٹی:
10 ستمبر 1935 کراچی میں ”خلافت کمیٹی“، ”جمعیت العماء سندھ“ اور”ہاری پارٹی“ کے مشترکہ اجلاس میں یہ جماعت قائم کی گئی، جس کا پہلا عارضی صدر شیخ عبدالمجید سندھی کو بنایا گیا اور پیر الاہی بخش، حکیم فتح محمد سیوہانی، رئیس علی محمد مری اور رئیس علی محمد کھیڑو پر مشتمل ایک ورکنگ کمیٹی تشکیل دی گئی، اس پارٹی نے سندھ کے پہلے انتخابات میں ٹیمیں حاصل کیں۔ پارٹی آگے چل کر مسلم لیگ میں ضم ہوگئی۔
12.سندھ آزاد کانفرنس:
یہ پارٹی 15 نومبر 1932 حیدرآباد میں بلائی گئی ”دوسری سندھ آزاد کانفرنس“ کے موقعے پر بنائی گئی۔ اس پارٹی کا مقصد تھا کہ جدائی والے مطالبے کے مقبول بنایا جائے۔ پارٹی کے پہلے صدر سر شاہنواز خان بھٹو، نائب صدر خان بھادر محمد ایوب کھڑو اور سیکریٹری میران محمد شاہ بنے۔
13.سندھ اسیمبلی کوتھیلشن پارٹی:
سندھ لیجلیسٹو اسمبلی کے قائم ہونے سے جو جماعتیں منتخب ہو کر آئیں، ان میں کچھ خالص سندھ کے ماحول اور اس کے تقاضائوں کے مطابق بنی تھیں۔ اور کچھ ایسی جماعتیں تھیں جن کا مرکز سندھ سے باہر تھا، اس لئے سندھ اسمبلی متضادوں کو بچانے کا اڈہ بن گئی، اس رساکشی کو ختم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ منتخب ہو کرآنے والی مختلف جماعتیں کچھ مشترکہ مفاد اور اصولوں پر متحد ہوں، یہ جماعت اپنی کوششوں کے نتیجے میں قائم ہوئی۔
14.سندھ بلوچستان کمیونسٹ پارٹی:
جب پاکستان کا قیام ایک حقیقت کی شکل لینے کو تھا تو سندھ کے کمیونسٹ پارٹی کے سربراہوں نے ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کو چھوڑ کر جولائی 1948 میں ”سندھ بلوچستان کمیونسٹ پارٹی“ بنائی۔ کامریڈ قادربخش نظامانی اس جماعت کے پہلے سیکریٹری بنے، اسی دور میں محمد یوسف اور مبارک ساگر کی کوششوں سے سندھ میں ”دی سوشلسٹ پارٹی“ قائم ہوئی۔
15.سندھ پروگریسو پارٹی:
یہ پارٹی 1935 میں درگداس بی، آڈوانی نے قائم کی۔ پارٹی کی بنیاد غیر فرقہ ورانہ حکمت عملی پر رکھی گئی اور اس کے آئین کے مطابق سندھ کا کوئی بھی فرد جس کے ترقی پسند خیالات ہوں ذات پات، رنگ و نسل اور دین دھرم کے فرق کے سوا اس پارٹی کا رکن بن اسکتا ہے۔ پارٹی کو شروعات سے لے کر ہی مقبولیت کے بجائے مخالفت کا بوجھ اٹھا نا پڑا۔
16.سندھ پولیٹکل کلب:
سندھ کو ممبئی سے الگ کرنے تک ہمارے سربراہ اور عالم وقت کی حالتوں میں رنگ نسل، دین دہرم، اور ذات پات کو رنگ دے چکے تھے، اس لئے یہ وقت کا تقاضا تھا کہ اختلافات کو گھٹانے کی کوشش کی جائے۔ سندھ پولیٹکل کلب اس پس منظر میں، مئی 1936 میں قائم ہوئی۔ اس کلب کے میمبر مختلف سیاسی پارٹیوں کے میمبر ہوتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد کانگریس اس کلب سے نکل گئی۔
کلب کے پہلے ارکان میں سے درگداس بی آڈوانی، سر غلام حسین ہدایت اللہ، جی ایم سید، محمد ہاشم گذدر، ڈاکٹر پوپٹ لال، سدھوا، خان چند گوپال داس، ڈاکٹر پرمانند آہوجا، حاتم علوی، ھردہ لال، یوسف ہارون اور تھدانی کے نام قابل ذکر ہیں۔
17.سندھ پیپلز پارٹی:
یہ پارٹی 1933 میں سر شاہنواز بھٹو کی صدارت میں بنی، پارٹی کے پہلے صدر حاتم علوی تھے، اس کے اہم میمبرز میں جی ایم سید، سید غلام نبی شاہ، محمد علی شاہ، حاجی مولابخش، خان بہادر اللہ بخش، نبی بخش بھٹو اور میران محمد شاہ کے نام آتے ہیں۔
18. سندھ پیپلز کانگریس کمیٹی:
اس پارٹی کے بنای کراچی کے مشہور کانگریس سربراہ سوامی گونند آنند تھے، ان صاحب کا جب کانگریس سے اختلاف ہوا تو نومبر 1936 میں انہوں نے یہ جماعت بنائی۔
19.سندھ زمیندار ایسوسیشن:
یہ جماعت اپریل 1921 میں بلائی گئی سندھ کے زمینداروں کی ایک کانفریس کے فیصلے کی روشنی میں بنائی گئی۔ ایسوسیشن کے پہلے صدر رئیس غلام محمد بھرگڑی بنے۔
20. سندھ زمیندار ایسوسیشن، بٹھورو:
یہ سندھ کی قدیم جماعتوں میں سے ایک تھی، جو سرہندی پیروں کی کوششوں سے قائم ہوئی۔ جماعت سیاسی نقطہ نگاہ سے مرحوم اور رئیس غلام محمد بھرگڑی کے زیر اثر تھی۔
21.سندھ ساگر پارٹی:
جلاوطنی کے خاتمے کے بعد مولانا عبیداللہ سندھی، سندھ میں آئے۔ تو انہوں نے 1939 میں ”جمنا نربدا سندھ ساگر پارٹی“ بنائی۔ یہ پارٹی ہندوستان کو مذہب کی بنیاد پر لڑانے کے بجائے لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے حق میں تھی۔
22. سندھ سبھا:
یہ سندھ کی پہلی سیاسی اور سماجی تھی۔ جو غیر فرقہ ورانہ بنیادوں پر 1882 میں قائم ہوئی۔ جماعت کے پہلے صدر سیٹھ آٹما رام بوجھوانی تھے۔ دیوان دیارام جیٹھمل اور دیوان دیا رام گدومل اس جماعت کے روح روان تھے۔
اس جماعت کے قیام والے سال میں لارڈ رپن نے وہاں کے رہنے والے افراد کو مکانی خودمختیاری بڑھا کر دینے کا خیال کیا اور میونسپل چاہے لوکل بورڈز کے انتخابات کا سرشتہ عمل میں لانے کا بل تیار کرایا ”سندھ سبھا“ نے ہندوستان کے آئین اور عمل میں اہم پارٹ ادا کیا۔ اور پھر خود کو اتنا تو منظم کیا کہ سندھ میں میونسپلٹیز کے انتخاب ہئے تو ان میں سے اکثریت اس پارٹی کو ہی نصیب ہوئی۔
1884 میں لارڈ رپن کو اعزاز دینے والے معاملے پر حسن علی آفندی جو اس وقت جماعت کے نائب صدر تھے، استعفیٰ دیکر چلے گئے، اور پھر آہستہ آہستہ یہ پارٹی اختلافات کا شکار ہوگئی۔
23. سندھ سوراج سوسائٹی:
یہ سوسائٹی جون 1921 میں قائم کی گئی تاکہ ایک طرف تو رکاوٹوں والی سیاست کو ٹھنڈا کیا جاسکے اور دوسری طرف اس وقت کی قائم مقام حکومت کے سیاہ کر توتوں کو ظاہر کرکے عوام کو باخبر کیا جائے۔
سوسائٹی کا صدر دفتر حیدرآباد میں ہوتا تھا، اسکے پہلے عہدیدار مندرجہ ذیل تھے۔
صدر: رئیس غلام محمد بھرگڑی
نائب صدر: گوپال داس، جھٹ مل
سیکریٹری: سنداس منگھارام، چھٹومل تھدانی، کارباری کمیٹی، کھیمچند امرت رائے، جیٹمل پرسرام، پہلاج راء، گنگارام، کرم چند گرمکھداس، پیر آنند سنتوک رام، جمشید مہتا اور ڈاکٹر بولچند۔
24. سندھ سوشلسٹ پارٹی:
یہ پارٹی 1936 میں نارائن داس آنند جی، بیچر کی قیادت میں بنی۔ اس جماعت نے سندھ اسیمبلی کے پہلےانتخابات میں کانگریس کے ساتھ الحاق کیا۔
25. سندھ لیبر پارٹی:
یہ پارٹی جون 1936 میں کراچی میں قائم ہوئی، ڈاکٹر تاراچند اس جماعت کے پہلے صدر اورائے، ایم خان اور عبدالرحمان اس کے پہلے سیکریٹری تھے۔ یہ جماعت کے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ لایا جائے اور بیراج، زمینیں آسان اقساط پر کسانوں دلائی جا سکیں۔
26. سندھ لیگ آف پروگریس:
یہ جماعت اکتوبر 1922 میں کراچی میں قائم کی گئی، اس کا پہلا ہرچند رائے وشنداس اور پہلی کاروباری کامیٹی سی، ایف، ڈی، ابریو، جی، برچ، ڈیچند چاندومل، ولی محمد حسن ولی، اے، ایچ، ماما، جمشید مہتا، میر ایوب خان، شقرتن مہتا، اے، ایل، پرائس اور روپ چند بیلارام پر مشتمل تھی، جماعت کے پہلے سیکریٹری سرمانئمیگو ویب تھے۔
ملکی سطح پر یہ جماعت ان جماعتوں میں سے ایک تھی، جنھوں نے غیر فرقہ وارانہ پالیسی اختیار کی۔ جماعت کی باگ دوڑ یوں تو انتھاپسندوں کے ہاتھ میں تھی پر اس کے باوجود بھی اسکے ارکان بہت اثر رسوخ والے ہوتے تھے، جنہوں نے سندھ کے مسائل کو گلیوں اور راستوں میں حل کرنے کے بجائے ایوانوں میں اسمبلیوں تک پہنچانے کی کوشش کی۔
27. سندھ مسلم پولیٹکل پارٹی:
جب ”سندھ یونائیٹڈ پارٹی“ میں ایک ڈپٹی لیڈر کے منتخب ہونے پر اختلاف پیدا ہوئے تو سر غلام حسین ہدایت اللہ اور محمد ایوب کھڑو نے یہ پارٹی چھوڑ کر ایک رات میں ”سندھ مسلم پولیٹکل پارٹی“ بنائی۔ اس پارٹی نے سندھ اسمبلی کے پہلے انتخابات میں صرف 3 نشستیں لے سکے، لیکن اس وقت کے گورنر نے اکثریت حاصل کرنے والی پارٹیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اس پارٹی کو وزارت کی دعوت دی:
یہ پارٹی 21 مارچ 1938 تک اقتدار رہی، یہ پارٹی 31 اکتوبر 1936 میں بنائی گئی تھی۔
28. سندھ مسلم لیگ:
کہا جاتا ہے کہ رئیس غلام محمد بھرگڑی نے 1917 میں سندھ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی شاخ کھولی تھی۔ پر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ”سندھ محمدن ایسوسیشن“ اس وقت کی حکومت کی پالی ہوئی جماعت بن چکی تھی، اس سے کتنے ہی آزاد ی پسند اور قومپرست سربراہ بیزار ہو چکے تھے۔ ان سے جان چھڑانے کے لئے ”سندھ مسلم لیگ“ بنائی گئی، جس کے نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس جماعت کا آل انڈیا مسلم لیگ سے کوئی بھی واسطہ نہیں تھا، اور یہ اپنی جگہ پر ایک خودمختار سیاسی جماعت تھی، یہی سبب ہے کہ جب 1917 میں مانٹیگو اور چیلمفورڈ ہندوستان میں آئینی اصلاحات لانے کے لئے ہندوستان کے دورے پر آئے تو ”سندھ مسلم لیگ“ نے الگ اور خودمختار حیثیت میں ان کے سامنے اپنا میمورنڈم پیش کیا۔
”سندھ مسلم لیگ“ کے پہلے صدر یوسف علی، علی بھائی تھے اور غلام علی چھاگلہ اور حاجی عبداللہ ہارون اس کے سیکریٹری تھے، اپریل 1920 میں اس جماعت کی باگ دوڑ ”سندھ محمدن ایسوسیشن“ کے حریفوں کے بجائے مذہبی نوعیت کے لوگوں کے ہاتھ میں آگئی، اپریل 1920 میں سکھر میں بلائے گئے اجلاس کی کاروائی پڑھنے کے بعد معلم ہوتا ہے کہ اس وقت بھی ”سندھ مسلم لیگ“ کے کرتا دھرتا ”آل انڈیا مسلم لیگ“ کو اس وقت کی حکومت کی بنائی گئی جماعت تصور کیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں رئیس غلام محمد بھرگڑی، جان محمد جونیجو، شیخ عبدالمجید سندھی، مولوی تاج محمد، ڈاکٹر نور محمد، محمد خان، ڈاکٹر حاجی اور سیٹھ امین الدین اسی طرح 1925 کی شروعات میں ”سندھ مسلم لیگ“ کو نئے سرے سے منظم کیا گیا، اس وقت سیٹھ حاجی عبداللہ ہارون کو صدر، سید محمد کامل شاہ کو نائب صدر، ڈاکٹر شیخ نور محمد کو سیکریٹری اور حکیم فتح محمد سیوہانی کو خزانچی مقرر کیا گیا، 1934 میں اس جماعت کی قیادت اور تنظیم میں تبدیلی لاکر حاتم علی کی صدارت میں اسے نئے سرے سے منظم کیا گیا۔
سندھ میں ”آل انڈیا مسلم لیگ“ کا پہلے انتخابات کے وقت بھی کوئی عملی وجود نہیں تھا، حقیقت میں سندھ میں ”آل انڈیا مسلم لیگ“ اکتوبر 1938 میں بلائی گئی ”پہلی سندھ صوبائی مسلم لیگ کانفرنس“ کے بعد ہی سندھ میں اپنے قدم جمائے، اس کے فورن بعد ”سجد منزل گاہ“ والی سیاسی حکمت عملی اختیار کی گئی، جس نے اس جماعت کو ایک ہی وار میں اس تحریک کو مقبول بنایا دیا اس میں ریاضت مذہبی سربراہوں نے کی اور قیادت آل انڈیا مسلم لیگ کو مل گئی۔
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...