عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
تحریر: انتون چیخوف (روس)
ترجمہ : صہبا جمال شاذلی ( نیوزی لینڈ)
اولاً تو موسم ابھی تک خوشگوار تھا۔کوئلیں شور مچا رہی تھیں، اور قریب ہی دلدل میں کوئی واضح طور پر آوازیں لگا رہا تھا ، جیسے کوئی خالی بوتل میں پھونک رہا ہو۔ایک آبیا پرندہ( ایک قسم کا جنگلی مرغ) ٹڈے جیسی آوازیں نکال رہا تھا ، نئی کونپلیں موسم بہار کی ہوا میں خوشی سے جھوم رہی تھیں۔لیکن جب جنگل میں اندھیرا چھانے لگا تب چبھتی ہوئی سرد ، ناگوار مشرقی ہوائیں چلنے لگیں ، اور شام پر خاموشی چھا گئی۔برف کے ریزے پانی سے بھرے گڑھوں پر گرنے لگے ۔ تنہا اور ویران ، سارا جنگل ناسازگار بن چکا تھا ۔ موسم سرما کا احساس ہونے لگا تھا۔
آئیون ویلیکوپالسکی (Ivan Velikopolsky) ، ایک خانگی اسکول کا طالب علم ، چرچ کے ملازم کا بیٹا ، پانی سے بھری چراگاہ کے راستہ، پرندوں کا شکار کرتے ہوے گھر آ رہا تھا۔شدید سردی سے اس کے ہاتھوں کی انگلیاں شل ہوچکی تھیں اور تیز ہواؤں کی وجہ سے اس کے چہرہ پر جلن کا احساس ہونے لگا تھا۔اسے ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ سردی کے اچانک آغاز نے ساری ترتیب اور ہم آہنگی کو ایسے پامال کر کے رکھ دیا تھا کہ قدرت بھی مایوس ہوچکی تھی اور اسی لیے شام کا اندھیرا وقت سے بہت پہلے پھیل چکا تھا۔اس کے اطراف ایک قسم کی اداسی کے ساتھ ویرانی چھا گئی تھی۔صرف دریا کے قریب بیواؤں کے باغات(widows’gardens) سے روشنی دکھائی دے رہی تھی ؛ لیکن تقریباً دو میل دور دیہات میں ہر چیز پوری طرح سے اس سرد شام کے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ طالب علم کو یاد آیا کہ جب اس نے گھر چھوڑا تھا اس وقت اس کی ماں پیش دالان میں فرش پر ننگے پیر بیٹھے (روسی) چاۓ دان صاف کررہی تھی ، اور باپ انگیٹھی کے پاس لیٹا کھانس رہا تھا۔اور چونکہ وہ گڈ فرائڈے تھا اس لیے گھر میں کھانا نہیں پکا تھا اور اسے بری طرح بھوک لگ رہی تھی۔اور اب سردی کے احساس کے درمیان ہی اسے اچانک خیال آیا کہ رورک(Rurik۔ باروھیں صدی میں روس کا حاکم) کے زمانہ میں بھی اسی طرح ہوا چلی ہوگی ، اور ٹیریبل ایوون (Ioann the Terrible۔ ماسکو کے حکمران کا پوتا اور 1533 سے 1547تک شہزادہ ، اور 1547 سے1584 تک روسی شہنشاہ تھا۔) اور Peter ( پطرس ۔ عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے ایک ) کے زمانہ میں بھی۔
وہ باغ اس لیے بیواؤں کے باغ کہلاتے تھے کیونکہ ان کی دیکھ بھال دو بیوائیں ، ماں اور بیٹی کیا کرتی تھیں۔آگ کافی شدت سے جل رہی تھی اور چٹختی آوازوں کے ساتھ جوتی ہوئی زمین ( ploughed soil) پر کافی دور تک روشنی پھینک رہی تھی۔دراز قد اور گداز جسم والی بوڑھی بیواہ ویسیلیسا(Vasilisa) مردانہ کوٹ پہنے ، آگ کے قریب کھڑی گہری سوچ میں ڈوبی آگ کو گھورے جا رہی تھی۔اور اس کی بیٹی لوکیریا( Lukerya) پستہ قد ، چیچک کے داغوں سے بھرا احمقانہ چہرہ لیے ، زمین پر بیٹھے برتن صاف کررہی تھی۔جس سے ظاہر تھا کہ انھوں نے کچھ ہی دیر پہلے رات کا کھانا کھایا تھا۔کچھ مردانہ آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ وہاں مقامی مزدور اپنے گھوڑوں کو دریا پر نہلا رہے تھے۔
اور ان کے زمانہ میں بھی اسی طرح کی بے رحمانہ غربت اور بھوک تھی ؛ وہی گھاس پھوس کے ٹپکتے چھپر ، جہالت ، کوفت ، اذیت، گرد و پیش میں پھیلا خالی پن اور اندھیرا ، جبر و ظلم کا احساس _ اس طرح کے خوف و دہشت کا ماحول ہمیشہ سے تھا اور رہیگا اور اگلے ہزار سال گذرنے کے بعد بھی زندگی بہتر نہیں ہوگی۔بس اب وہ گھر جانا نہیں چاہتا تھا۔
“ ٹھیک ہے ، یہاں پھر سے سرما کا موسم واپس آگیا ہے ،” آگ کے قریب جاتے ہوے طالب علم نے کہا۔ “ گڈ ایوننگ!”
ویسیلیسا واپس جانے کے لیے پلٹی لیکن فوری اس کو پہچان لیا اور ایک محبت بھری مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔
“ میں نے تمھیں پہچانا نہیں تھا ۔ تم پر خدا کی رحمت ہو ، “ ویسیلیسا نے کہا ، “ تم ایک امیر آدمی بنوگے۔” پھر وہ باتیں کرتے رہے۔ویسیلیسا اسی علاقہ میں مختلف کام کرتی رہی تھی ، شرفا کے گھر بچوں کو دودھ پلایا ، پھر بچوں کی آیا کا کام کیا ، ملائم گفتگو ، شریفانہ برتاؤ اور باوقار مسکراہٹ کبھی اس کے چہرے سے ہٹی نہیں۔اس کی بیٹی لوکیریا ایک دیہاتی عورت جو اپنے شوہر سے پٹتی رہی ، خاموشی سے ترچھی نظروں سے طالب علم کو دیکھتی رہی ۔ اس کے چہرے کے عجیب سے تاثرات سے لگتا تھا جیسے وہ گونگی اور بہری تھی۔
“اسی طرح ایک سرد رات کو حواری پطرس نے آگ جلا کر خود کو گرم کیا تھا” ، طالب علم نے شعلوں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوے کہا۔” تو اس وقت بھی ایسی ہی ٹھنڈ تھی۔ آہ ، کتنی خوفناک رات تھی وہ ، نانی! ایک انتہائی لمبی اداس رات !” اس نے اندھیرے میں اپنے اطراف نظر دوڑائی اور تشنجی طور پر سر کو ہلاتے ہوے کہنے لگا : “ میرے قیاص سے اس وقت آپ انجیل کے باب بارہ پر تھیں ؟”
“ ہاں ہاں ، “ ویسیلیسا نے جواب دیا۔
“ آخری عشاۓ ربانی کے وقت ، آپ کو یاد ہوگا ، پطرس نے عیسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا : “ میں آپ کے ساتھ کہیں بھی جانے کے لیے تیار ہوں ، چاہے جیل ہو یا موت۔” اور عیسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا تھا : “ پطرس ، میں تم سے کہتا ہوں ، آج یہ مرغ اس وقت تک بانگ نہیں دیگا، جب تک تم مجھے جاننے سے تین مرتبہ انکار نہیں کردوگے ۔” عشائیہ کے بعد عیسیٰ علیہ السلام باغ میں عبادت کرتے رہے ،موت کے سے لامحدود دکھ کے ساتھ ، اور بیچارہ پطرس روحانی طور پر تھکا ، کمزور دکھائی دے رہا تھا ، آنکھیں اتنی بھاری ہو رہی تھیں کہ وہ نیند کے ساتھ لڑتے ہوے تھک کر سوچکا تھا۔اسی رات ، آپ نے سنا ہوگا ، یہوداس ( Judas-یہود اسقربوطی ، وہ حواری جس نے عیسیٰ علیہ السلام کو دھوکہ دیا تھا) نے عیسیٰ علیہ السلام سے پیار کرتے ہوے انھیں دھوکے سے جلاد وں کے حوالے کردیا تھا۔اب اسے اعلیٰ مذھبی پیشوا کے سامنے پیش تو ہونا ہی تھا ، اور اسے خوب پیٹا گیا۔اور پطرس تھکا ہوا، دکھ اور اذیت کو جھیلتے ہوے ، پتہ ہے آپ کو ، پوری نیند نہ ہونے کی وجہ سے ، محسوس کررہا تھا جیسے عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کچھ بہت خطرناک ہونے جا رہا تھا…… وہ ان سے شدت سے محبت کرتا تھا، اور محض اپنا ذہن ہٹانے کے لیے ، وہ دور سے دیکھ رہا تھا کیسے اسے پیٹا جارہا تھا …… “
لوکیریا نے چمچوں کو چھوڑا اور پلٹ کر طالب علم کو گھورنے لگی۔
“وہ اعلیٰ مذھبی پیشوا کے پاس آے،” اس نے اپنی بات جاری رکھی، “ عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا ، اسی دوران غلاموں نے سردی کی وجہ سے صحن میں آگ جلائی ، تاکہ وہ خود کو گرم کرلیں۔پطرس بھی وہیں کھڑا آگ سینکنے لگا ، جیسے میں اس وقت سینک رہا ہوں۔ ایک خاتون نے اسے دیکھا اور کہا : ‘ یہ شخص بھی عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھا ،’ مطلب کہ اس سے بھی تفتیش کی جانی چاہیے۔ اور آگ کے اطراف کھڑے سارے غلاموں نے اس کی طرف مشکوک اور سخت نگاہوں سے دیکھا ہوگا ، کیونکہ وہ تذبذب میں مبتلا دکھائی دے رہا تھا اور کہہ دیا: ‘ میں اس شخص کو نہیں جانتا۔’ کچھ دیر بعد کسی اور شخص نے بھی اسے پہچان لیا کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھا اور کہا : ‘ تم انہی میں سے ایک ہو۔’ لیکن اس نے پھر انکار کردیا۔ اور تیسری بار پھر کسی نے پلٹ کر کہا : ‘ کیا میں نے آج تمھیں باغ میں ان کے ساتھ نہیں دیکھا ؟ ‘ اور تیسری بار اس نے انکار کیا۔اور اس کے فوری بعد مرغ نے بانگ دے دی ، اور پطرس دور سے عیسیٰ علیہ السلام کی طرف دیکھتے ہوے عشائیہ پر کہے گیے الفاظ یاد کرنے لگا … یاد کیا ، خود کو سنبھالا ، اور صحن کے باہر جا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔انجیل میں لکھا ہے : ‘ اور وہ باہر چلا گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔’ میں نے تخیل میں اس کی تصویر کچھ ایسی بنائی : بے حد خاموشی اور اندھیرے میں ڈوبا باغ ، اور بمشکل سسکیوں کی سنی جا نے والی آوازیں۔ … “
طالب علم نے گہری سانس لی اور سوچوں میں گم ہوگیا۔ویسیلیسا جو اب تک مسکرا رہی تھی ، اچانک دم گھٹتا سا محسوس کرنے لگی اور بڑے بڑے آنسو مسلسل اس کے گالوں پر بہنے لگے۔اس نے اپنی آستین سےاپنے چہرے کو آگ سے چھپا لیا جیسے وہ اپنے بہتے آنسوؤں سے شرمندہ ہو ، اور لوکیریا طالب علم پر نظریں جماے ، چہرے پرسرخی ، بھاری اور تناؤ بھرے تاثرات لیے اسے گھورے جا رہی تھی ، جیسے کوئی شدید درد کو دبانے کی کوشش کر رہا ہو۔
سارے مزدور دریا کی طرف سے واپس لوٹ رہے تھے ، اور ان میں سے ایک جو گھوڑے پر سوار تھا ، بہت قریب آگیا تھا جس کی وجہ سے آگ سے نکلنے والی روشنی ڈولنے لگی تھی۔طالب علم نے دونوں بیواؤں سے الوداع کہا اور وہاں سے چلا گیا۔پھر سے اندھیرا تھا اور ہاتھ سرد ہوچکے تھے۔خطرناک ہوائیں چل رہی تھیں ، اور بیشک موسم سرما واپس آرہا تھا اور ایسا محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اگلے دو دن میں ایسٹر (Easter) کا تہوار آنے والا تھا۔
اب طالب علم ویسیلیسا کے بارے میں سوچنے لگا تھا : اگر وہ رو رہی تھی ، اس کا مطلب کہ حواری پطرس کے ساتھ اس خوفناک رات جو کچھ بھی ہوا تھا وہ ضرور کہیں نہ کہیں ویسیلیسا کی زندگی سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے پیچھے پلٹ کر دیکھا۔تنہا آگ اندھیرے میں اطمینان سے پھڑپھڑا رہی تھی ، اور اس کے اطراف بیٹھے لوگ جاچکے تھے۔طالب علم پھر سوچنے لگا کہ اگر ویسیلیسا رو رہی تھی اور اس کی بیٹی پریشان تھی ، تو واضح تھا کہ اس نے کچھ دیر پہلے جو کہا تھا ان سے ، جو کچھ انیس صدیوں پہلے واقع ہوا تھا ، اس کا تعلق ضرور آج سے تھا __ دونوں خواتین کے ساتھ ، اور غالباً اس ویران دیہات کے ساتھ ، خود اس کے ساتھ اور سارے لوگوں کے ساتھ۔اگر بزرگ خاتون نے رویا تو اس وجہ سے نہیں کہ اس کا انداز بیان بہت موثرانہ تھا بلکہ اس لیے کہ پطرس کو وہ خود سے بہت قریب محسوس کرتی تھی اور خود کے وجود سمیت پطرس کی روح کے ساتھ کیا ہوا ،اس بات میں دلچسپی رکھتی تھی ۔
اور اچانک خوشی کے جذبہ نے اس کی روح میں ہنگامہ پیدا کردیا ، یہاں تک کہ اسے ایک لمحہ کے لیے رک کر اپنی سانسوں کو بحال کرنا پڑا۔وہ سوچنے لگا ، ماضی ، حال کے ساتھ واقعات کی ایک غیر شکستہ زنجیر سے منسلک ہوتا ہے جو ایک کے بعد دیگرے رواں ہوتے ہیں۔اور اسے لگا جیسے اس نے دونوں سِروں کو دیکھ لیا ہو : اس نے ایک کو چھوا اور دوسرا حرکت میں آگیا۔
اور جب اس نے کشتی میں دریا کو پار کیا اور پہاڑی پر چڑھتے ہوے اپنے دیہات کی طرف دیکھا اور پھر مغرب کی سمت جہاں ٹھنڈک کی تنگ پٹی ، غروب آفتاب کا قرمزی رنگ چمک رہا تھا، وہ سوچ رہا تھا کیسے سچائی اور خوبصورتی اس باغ میں اور اعلیٰ مذہبی پیشوا کے صحن میں انسانی زندگی کو راہ دکھا رہی تھی ، وہ آج تک بھی غیر شکستہ طور پر جاری ہے ، لہٰذہ واضح تھا کہ یہ انسانی زندگی کا اٹوٹ حصہ رہا ہے اور علی العموم اس سرزمین پر ؛ اور جوانی ، صحت اورطاقت کا احساس _ وہ صرف اکیس سال کا تھا _ اور ایک ناقابل بیان میٹھی سی خوشی کی توقع ، ایک انجانی ، پراسرار خوشی ، دھیرے دھیرے اس پر غالب ہونے لگی تھی ، اور اس کو زندگی دلکش ، حیرت انگیز اور باوقار اور انتہائی بلند معنوں سے بھری دکھائی دینے لگی تھی۔
(انگریزی سے اردو ترجمہ)
English Title: The Student
Written by:
Anton Pavlovich Chekhov (January 29, 1860- July 15, 1904) was a Russian playwright and short-story writer who is considered to be among the greatest writers of short fiction in history.