(Last Updated On: )
سیّدہ شاہدہ مبین (رحیم یار خان )
تخلیق شعور کا فیصلہ ہے اور شعور کے فیصلے امکانی اثرات کی پرواہ نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی تخلیق کار کو اور کبھی اس کے فن کو وہ اہمیت نہیں ملتی جس کا وہ حقدار ہوتا ہے۔ اردو شاعری کے حوالے سے دیکھا جائے تو گذشتہ زمانوں میں یہ کسی نہ کسی صورت شاہی دربار سے منسلک رہی ہے اور بہت سے شعراء نے اپنے دور میں مقام و مرتبہ پایا، جب کہ غالبؔ کی ’’ استادِ شہ‘‘ بننے کی حسرت نا تمام ہی رہی۔ وہ ذوقؔ جیسی اہمیت نہ پا سکے۔ ابراہیم ذوق اپنی شاعری میں محاورات کا استعمال کرتے اور زبان دانی کی بناء پر خوب داد پاتے، اور اسی وجہ سے ملک الشعراء کہلائے۔ غالب اپنی شاعری کو گنجینہء معنی کا طلسم مانتے اور اکثر کہتے کہ میرے اشعار کو وہ پذیرائی نصیب نہیں ہوئی جن کے وہ حق دار تھے، لیکن ایک دور آئے گا جب اہلِ شوق و اہلِ نظر میری شاعری کو تسلیم کریں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج ذوقؔ کی شاعری کی وہ اہمیت نہیں جو غالبؔ کی ہے۔
فنی معیارات کو پرکھنے کے لئے بنائے جانے والے اصول تبدیل ہوتے رہتے ہیں جس کی بناء پر کسی بھی لمحے کوئی شاعر ابھر کر سامنے آ سکتا ہے اور نامی گرامی شعراء غیر مقبول ہو سکتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جس دور کا ادب اپنے اطراف بکھری زندگی اور اس کی جراحتوں سے ناواقف ہو اور اپنے عصری تقاضوں کا ادراک نہ رکھ سکے، وہ بس اتنی دیر ہی سانس لے سکتا ہے جتنی دیر کوئی سوہنی مٹی کے گھڑے پر دریا پار کر سکتی ہییا پرجوش ہجوم کی بے ہنگم آوازوں کے شور میں کسی کم سن بچے کے رونے کی آوازجو اپنے ہونے کا احساس دلائے بغیر ارد گرد کی توانا آوازوں میں دم توڑ جاتی ہے۔ہر دور اپنے ادب کی حقیقتوں، تہذیبی عوامل، اس کے خد و خال کی شکست و ریخت اور سماجی قدروں کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے اور اس کی شعری روایات و کردار و عمل کا نگران و پاسدار بھی۔
شاعری ایک الہامی وصف کی صورت ہے اور اس کا تعلق باطنی حواس سے بہت گہرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب شعر کو اظہار کے پیرائے میں ڈھالا جاتا ہے تو اس میں شعور اور لاشعور، دونوں کارفرما ہوتے ہیں۔اس طرح ایک سچا اور کار آمد شعر ذہنی مشقتوں سے گزر کر اور فہم و فراست کو بروئے کار لا کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
تاریخی حوالوں سے دیکھا جائے تو شعراء کے ہاں دو قبیلوں کا ذکر آتا ہے۔ ایک’’ شعرلکھنے والے‘‘،جن کا تعلق علم عروض کے ماہرین سے ہے۔ دوسرے’’ شعر کہنے والے‘‘، جن میںلفظ کی صحت، موثر سلیقہء اظہار، لفظوں کو برتنے کے فن،زندگی کے مختلف پہلوؤں کو محسوس کرنے اور کلام کی روح سے آگاہی رکھنے والے شامل ہیں۔
منیر انورؔؔ جیسے واقفِ فن، پر مغز، بالغ نظر اور بے تاب جواں شاعر کا تعلق’’ شعر کہنے والے‘‘ قبیلے سے ہے جس کی شاعری میں لفظوں اور اس کی فکر میں ایک عجیب سی چمک دکھائی دیتی ہے۔ وہ خود کہتا ہے۔
اک عروضی عروض کے فن کو
چاہتا ہے کہ شاعری سمجھوں
میرے کچھ دوستوں کی خواہش ہے
ہر سخن ساز کو ولی سمجھوں
اس نے روایت کے تسلسل میں اپنے سفر کا آغاز کیا لیکن جلد ہی امکانات کے نئے افق اس کی نگاہوں میں سمانے لگے اور وہ فکر و فن کی ابتدائی منازل کو تیزی سے طے کرتے ہوئیدورِ جدید کے ان غزل گو شعراء میں شامل ہو گیا جو روایات و جدّتِ فکر کو اپنے کمال فن میں سمیٹ سکتے ہیں۔ ؎
میں کا زعم اور عشق کی بازی؟
کیا کرتے ہو، کیا کرتے ہو
بہر کیف، ادب کے ہر فکری موڑ پر ایک نیا ذہن پیدا ہو سکتا ہے۔ غالبؔ، مومنؔ، فراقؔ، فیضؔ، ن م راشدؔ اور کئی شعراء ہیں جنہوں نے اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے فکر کے نئے زاویے متعین کئے ہیں۔
منیر انورؔؔ کا ذہن نیا ہے۔ اس کے ہاں گہرے شعور اور فکر کی بالیدگی کے ساتھ ساتھ اضطراب و جستجو کا عنصر پایا جاتا ہے۔عام گفتگو ہو یا شعر ہو، اس میں ایک شدید کرب موجود ہے۔ ایک مسلسل اداسی کی لہر ہے جو اس کے اندر سے اٹھتی ہے اور اسے سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ یہ سب کیا ہے؟ کیوں ہے؟
اللہ پر ایماں رکھنے والو آخر
کیوں طاغوت سے ڈرتے ہو، کچھ سوچو تو
٭٭٭
آپ کے شہر میں کیا بیت گئی ان پر
پوچھیے خون میں لتھڑے ہوئے غم خواروں سے
٭٭٭
کرب ہے اور دل و جان کو آیا ہوا کرب
اک اداسی ہے کہ ماحول پہ چھائی ہوئی ہے
موجودہ دور میں جب فکری انتشار اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے، وہاں منیر انورؔ کی ذہنی بلونت و بلیغ کاوش کم ہی نظر آئے گی کہ اس نے ذاتی دکھ درد کو سمیٹ کر معاشرے کو شعور و آگہی کا لبادہ پہنا یا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ انفرادی در د و غم اجتماعی دکھ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
ابھی تو آنکھ سے ٹپکا ہے درد کا لاوا
ابھی یہ زہر رگوں کے بھی پار گزرے گا
جہاں تک شاعر کے معاشرتی حقوق و فرائض کا تعلق ہیتو یہ بلا شبہ اس کی تخلیقی صلاحیتوں، قلبی وارداتوں اور احساسات پر مبنی ہے کہ وہ اپنے عہد کی وسعتوں کو سوچ کی گہرائی اور شعوری پختگی کی مدد سے کہاں تک دیکھنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔منیر انورؔؔ کے ہاں یہی گہرائی اور پختگی ملتی ہے جس کی بدولت وہ ادب کے وسیع کینوس پر اپنے عہد کے پس منظر اور پیش منظر کی پرتیں کھولتا نظر آتا ہے۔ وہ اپنے عہد کے اس منافقانہ رویے پر کڑھتا ہے جو ” مردار انسان” کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور ہر اچھا خواب دیکھنے والے کی آنکھیں نوچ کر پھینک دینا چاہتا ہے۔ وہ ان معاشرتی ناسوروں کے خلاف ہر وقت نبرد آزما رہتا ہے جو ’’ شہرِ خیال‘‘ کا سہانا خواب دکھا کر ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ وہ ’’’ منزلِ مراد‘‘ پانے کی خواہش میں اپنے زخمی پاؤں سے’’ رِستے خون‘‘’ اور راستے پر بچھے خاروں سے تازہ گلاب کھلانا چاہتا ہے۔ وہ اپنے بدن پر صدیوں کی مسافت کی تھکن لپیٹے، اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ’’ رہبروں‘‘ کے روپ میں ’’ راہزن‘‘ ملیں گے، منزل کی طرف رواں دواں نظر آتا ہے۔ وہ ایک سچا اور کھرا انسان ہے جسے اپنے عہد میں مقام بنانے اور اپنے عصر کے جغرافیائی پیمانوں سے اپنا فکری و فنی قد ناپنے کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنی ذات میں کائنات ہے اور اپنی فطری خوبیوں کو منکشف کرنے کے راز سے بخوبی واقف ہے۔ ایسا شاعر جو اپنی ذات کا محاسبہ کرتا ہے اور کسی طور جھوٹ اور منافقت پر سمجھوتا نہیں کر سکتا۔ وہ بھڑکتی آگ کے شعلوں کا ہم سفر ہوتے ہوئے بھی اپنے بعد آنے والوں کے لئے راستے بناتا ہے، انہیں منزلِ مقصود پر پہنچانے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ وہ کہتا ہے۔
جھوٹ جب درجہء ایمان میں آ جاتا ہے
ایک مردار سا انسان میں آ جاتا ہے
٭
تعمیر سونپ کر ہمیں شہرِ خیال کی
نقشہ ہماری آنکھ سے اوجھل کیا گیا
٭
ہم اہلِ شوق زخم چاٹتے رواں دواں رہے
سڑک پہ خار تھے بچھے ہوئے گلوں کے روپ میں
کہا گیا تھا منزل مراد پائیں گے مگر
ہمیں جو راہزن ملے ہیں رہبروں کے روپ میں
٭
منافقین کو اپنا بنا نہیں سکتے
ہم اپنی مٹی پہ تہمت لگا نہیں سکتے
٭
آئینے میں اپنا عکس ہے میں جس پر
کتنے سرخ نشان لگائے بیٹھا ہوں
٭
آپ بھڑکائیں آگ کے شعلے
ہم بجھانے کا کام کرتے ہیں
٭
منیر انورؔ اپنی تہذیب و معاشرت کا عکاس نظر آتا ہے جو جغرافیائی حدود و قیود سے بالا تر رہ کر تمام انسانوں کے سچے جذبوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ قبیلہ واریت، رنگ و نسل، ذات پات کی تفریق، افراد کی خود ساختہ ترجیحات ہیں اور طبقاتی تضاد انسان کی عزتِ نفس مجروح کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اسی لئے وہ آدم کی بجائے ’’ آدمیت‘‘ اور ذہن کی بجائے’’ ذہنیت‘‘ قائل ہے۔
آدمیت ہے محترم انورؔؔ
ورنہ مرزا میں کیا ہے، خان میں کیا
٭
عجیب تاریک روشنی ہے، جو سارے منظر کو کھا رہی ہے
غلام ذہنوں کی ضد ہے لیکن کہ درد کے دن بدل رہے ہیں
طبقاتی مناقشت، مذہبی منافرت، نسلی امتیازات اور گروہی تعصبات انسانی فکر کو پست و پامال کر دیتے ہیں۔ منیر انورؔ کی شاعری انہی دکھوں پر بین کرتی ہے۔ وہ کبھی ذات پات کی تقسیم پر کڑھتا نظر آتا ہے تو کبھی ’’ اونچے شملوں‘‘ اور ’’بلند کلغیوں‘‘’ میں ناروا منافست کی نشاندہی کرتا ہے، جس نے انسانی ذہنی ارتقاء کے عمل میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔کہیں وہ خون میں لتھڑے ہوئے غم خواروں کے لئے پریشان ہے جو منتقمِ مجازی کے حکم کے منتظر ہیں کہ کب انہیں انصاف مل سکے گا۔ لیکن مال و منال کی ہوس میں مبتلاء ’’ بڑے لوگوں‘‘ کا غیر منصفانہ رویہ ان کی مجبوری و بے بسی کو بڑھا دیتا ہے۔ کہیں منتشر ہوتے وجود کی کرچیوں کو سمیٹنے کی خواہش میں بکھرتے ہوئے ان افراد کی طرف اشارہ کرتا ہے جو جبرِ نقصان کے انتظار میں اندر سے ریزہ ریزہ ہو چکے ہیں۔
میں اپنے ہونے کا اپنی وسعت کی حد میں تاوان بھر چکا ہوں
کبھی کبھی تو مجھے لگا ہے کہ جیسے اندر سے مر چکا ہوں
مرے عناصر کا انتشار اب کسی کے بس کا نہیں رہا ہے
میں اپنے ریزے سمیٹ لینے کی دھن میں یکسر بکھر چکا ہوں
٭
کسی بڑے کا نام آ گیا تھا اتفاق سے
معاملہ جو زیرِ بحث تھا، دبا دیا گیا
٭
آپ کے شہر میں کیا بیت گئی ہے ان پر
پوچھیے خون میں لتھڑے ہوئے غم خواروں سے
٭
کلغیوں، شملوں کے نیچے آدمی بھی ہے کوئی
کلغیوں، شملوں کے پیچھے سر کٹاتے ظالمو
٭
میں نے کہا کہ پیار ہے انسان سے مجھے
لیکن وہ ذات پات کی جھولی میں جا گرا
٭
نہ تھا جی دار وہ اتنا بھی لیکن
کوئی تھا جو اسے بہکا رہا تھا
اب تو بچوں کے پٹاخوں سے بھی ڈر جاتے ہیں
کھیلنے والے دہکتے ہوئے انگاروں سے
منیر انورؔ کی شاعری اضطرابی کیفیت، تشکیک اور امید و بیم سے اطمینان کی طرف سفر کرتی ہے۔ وہ اپنے فکری زاویوں کو کائنات کے تلخ حقائق سے بے خبر نہیں ہونے دیتا۔ وہ معاشرتی الجھنوں، دشوار گزاریوں کی نشاندہی کرتا ہے لیکن ’’ امید‘‘ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ اس کا ماننا ہے کہ’’ دشمن گر قوی است، نگہبان قوی تر است‘‘۔ اسی لئے وہ امید کی فصلیں بوتا اور دامن میں روشن دنوں کے خوشے بھرتا ہے۔ وہ خدا کے بندوں کو ’’ تذبذب کی کیفیت‘‘ سے نکلنے اور اپنے فکر و شعور کے گرد بیڑیوں کے حصار کو توڑ دینے کا مشورہ دیتا ہے۔وہ یقین دلاتا ہے کہ’’ دشمن چہ کند چو مہربان باشد دوست‘‘۔
میرے دامن میں امیدوں کے ہیں خوشے انورؔؔ
اور ان پر بھی نظر اس نے لگائی ہوئی ہے
٭
تالیاں پیٹتے مجمعے سے نکل کر انورؔؔ
جیت سکتا ہے جو میدان میں آ جاتا ہے
٭
خدا کے بندو یقین رکھو کہ تم اٹھے تو
یہ خانقاہیں، یہ سارے دربار جل اٹھیں گے
سنو تذبذب کی کیفیت سے نکل کے دیکھو
یہ بیڑیاں ٹوٹ جائیں گی، دار جل اٹھیں گے
ہم امید کی فصلیں بوتے ہیں انورؔؔ
اور کوشاں ہیں دھرتی پر یاس اگے
٭
آئیے انتظار کرتے ہیں
کون، کب، کتنا معتبر ہو گا
٭
آئیں مل کر اپنے بچوں کی خاطر
دھول کدورت کی سینوں سے دھو جاتے ہیں
منیر انورؔ کے ہاں مسلسل اضطرابی کیفیت انسانی ذہن اور اس کے اعصاب کو اپنی لپیٹ میں لے کر اسے میدانِ عمل کے نئے گوشوں سے متعارف کراتی ہے اور انسان اس گھوڑے پر سوار وقت کی طنابیں تھامے زندگی میں نئے امکانات پیدا کرتا ہے۔ اس پر زندگی کے نئے مفاہیم منکشف ہوتے ہیں۔ اضطراب جب کسی انسان پر اپنا تسلط جماتا ہے تو جسم کے ساتھ اس کی روح تک کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ انورؔؔ کی شاعری ایک جان لیوا کرب میں لپٹی ہوئی ہے۔ لیکن وہ عواقب بینی اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے از خود وارفتگی میں مبتلاء نہیں ہوتا بلکہ رنج سہہ کر برو مند ہوتا ہے۔ اس کی غزل میں کچھ سوالات، زیرِ لب جوابات اور ان میں پائے جانے والے اندیشے فرسودہ ذہنوں کو ساکن کر دیتے ہیں۔
ظلم پر خاموش رہتی بستیاں کیسی لگیں
فیصلے کے وقت آتی پرچیاں کیسی لگیں
٭
درد سینے میں دبا کر ناچنا کیسا رہا
آنسوئوں میں بھیگتی سرمستیاں کیسی لگیں
٭
اُٹھ مرے ساتھ رقص کر انورؔؔ
ایسی تیسی تری اداسی کی
انورؔؔ کی شاعری نامنصفی، بے قراری و بے چینی، جذباتی کشمکش، سوگواری، اداسی، رنج و محن، بھوک اور افلاس، ظلمتِ شب، تنہائی، بے حسی و بے بسی جیسے موضوعات سے بھرپور ہے۔ وہ معاشرتی، معاشی، سیاسی کوتاہیوں اور ناہمواریوں کے خلاف شدید احتجاج کرتا ہے۔ظالم اور مظلوم کی نشاندہی اس کی شاعری میں جابجا نظر آتی ہے۔ بعض اوقات وہ ظلم کے خلاف آستینیں چڑھا لیتا ہے اور شدید غم و غصے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن اس کا غصہ ایک ایماندار شخص کا غصہ ہے۔ جو آتا بھی جلد ہے اور جاتا بھی جلد ہے۔ وہ جہاد کرتا ہے، فساد نہیں۔اس کی مطالعاتی، مشاہداتی اور تجرباتی آنکھ سماجی برائیوں اور مخفی حقیقتوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ وہ معاشرتی جبر کا شکار لوگوں کی داستاں بیان کرتا ہے جہاں انصاف حاصل کرنے کی امید میں عمریں بیت جاتی ہیں۔ جہاں بھوک، افلاس میں مبتلاء معصوم بچے بلکتے رہتے ہیںاور مائیں بے بسی کی تصویر بنی رہ جاتی ہیں۔جہاں دکھ، اخلاقی پستی، طبقاتی اور معاشرتی نا انصافیوں کی بلند و بالا فصیلیں ہیں۔جہاں کچی عمر کے سہانے خواب بننے والی لڑکیوں پر بھیڑیا صفت انسان بھنبھناتے نظر آتے ہیں اور بعض اوقات وہ گھناؤنا کھیل کھیلتے ہیں کہ ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ اسی لئے منیر انورؔ یہاں معاشرتی بے حسی و بے بسی پر نوحہ کناں ہے۔
زندگی کا مسئلہ اس کھیل سے آگے کا ہے
آتی جاتی لڑکیوں پر بھنبھناتے ظالمو
کتنی بے بس مائیں پی جاتی ہیں آنسو
کتنے بچے روتے روتے سو جاتے ہیں
٭
تم اپنا سورج سنبھال رکھو، مجھے اب اس سے غرض نہیں ہے
کہ میں رویوں کی سرد آغوش میں مکمل ٹھٹھر چکا ہوں
حکم تو ہے یہی مگر کیسے
ظلمتِ شب کو روشنی سمجھوں
٭
کم تو کچھ میرا اثاثہ بھی نہیں ہے اور کچھ
تیرا دکھ بھی میرے سامان میں آ جاتا ہے
٭
کوئی تو میرا کرب سمجھے گا
کوئی تو صاحبِ نظر ہو گا
٭
ماہرینِ نفسیات کے انکشافات کے مطابق محبت اور نفرت جبلی خصوصیات ہیں اور ان کا تعلق روح اور جسم سے ہے۔ گویا یہ جسم اور روح کی یکجائی کا اظہار ہے۔ شعراء کے ہاں ان جذبات و احساسات کی ترجمانی کے لئے غزل سے بہتر صنف شاید ہی کوئی ہو۔اُردو شاعری میں رومانوی موضوعات کی بہت اہمیت رہی ہے۔ اور بدلتے ہوئے معاشرتی رویوں کے پیشِ نظر ان میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ محبوب سے گفتگو، اس سے چھیڑ چھاڑ اور اس کے حسن و جمال کا تذکرہ ہمیشہ انسان کو بھاتا ہے۔ یہ موضوعات پوری آب و تاب سے منیر انورؔ کے ہاں بھی جلوہ گر ہیں۔ ان کی غزل میں معاملاتِ عشق، متعلقاتِ محبت، محبوب کا حسن و جمال، سادگی و پرکاری، معصومیت، وفا ناشناسی، نا آسودگی اور ہجر و وصال کی لذتیں بڑے دلکش انداز میں بیان ہوئی ہیں۔ اس کی شاعری میں ’’آنکھ‘‘ کو عشقیہ اور جمالیاتی انداز میں عمدگی سے برتا گیا ہے۔
ان ستارہ مثال آنکھوں سے
دل کے شب زار جگمگاتے ہیں
٭
تیری آنکھیں اداس ہوں تو مجھے
سارا عالم اداس لگتا ہے
٭
تیری آنکھوں کا ذکر بھی آیا
گفتگو جب چلی اداسی کی
٭
ابھی تو آنکھ سے ٹپکا ہے درد کا لاوا
ابھی یہ زہر رگوں کے بھی پار گزرے گا
ہائے وہ زندگی نواز آنکھیں
کھو گئیں جانے کن خیالوں میں
اور اچانک آنکھ سے اوجھل ہونے والے
پلکوں میں اشکوں کے ہار پرو جاتے ہیں
غزل میں حسن و عشق کا بیان ولی دکنی سے غالب، فیض اور فراز سے ہوتا ہوا منیر انورؔ تک، تقریباً سب کے ہاں ملتا ہے۔ہر ایک نے اپنے اپنے نکتہء نظر سے تصورِ عشق کو غزل میں پرویا ہے۔موضوعات کے حوالے سے دیکھا جائے تو سب شعراء کے ہاں تقریباً ایک ہی جیسے ملتے ہیں۔ حسن و خوبی، التفات، کج ادائی اور پھر رقیب کا کسی نہ کسی صورت موجود رہنا۔
منیر انورؔ کے ہاں بھی یہ روایتی موضوعات قدرے مختلف انداز سے موجود ہیں۔ اس کیہاں حسن و عشق کے موضوعات پر کہے گئے اشعار میں تنوع اور رنگا رنگی کے ساتھ ساتھ وسعتِ نظر اور تخیلاتی گہرائی ملتی ہے۔
مثال کوئی محبت کی دی نہیں میں نے
وہ سامنے تھا تو ایسی کہاں ضرورت تھی
٭
اک تصور کہ محیطِ دل و جاں ہے انورؔؔ
گل کہوں، رنگ کہوں، خوشبو، کہ فرحت اس کو
٭
میرے اشعار کے جھروکوں سے
اس کا حسن و جمال جھانکتا ہے
٭
مجھے پتا بھی نہیں چل سکا مگر مجھ میں
تمام رنگ محبت کے بھر گیا کوئی
ہوائیں جن کے اشاروں پہ رقص کرتی ہیں
چراغ وہ میرے رستے پہ دھر گیا کوئی
اس کا محبوب تصوراتی نہیں بلکہ جیتا جاگتا متحرک انسان ہے۔جو روایتی طور پر حسین و جمیل، معصوم ادا ہونے کے ساتھ وفا نا شناس بھی ہے۔ لیکن منیر انورؔ شقاوتِ محبوب کا خیر مقدم کرتا نظر آتا ہے۔
میرے ہر تارِ نفس نے تجھے محسوس کیا
دل کی بستی سے دبے پائوں گزرنے والے
ہم اب بھی چاہتے ہیں مسائل کا حل مگر
اس کی طرف سے اب بھی وہی قیل و قال ہے
٭
بھول جانے پہ معذرت کیسی
تو نے رکھا ہی کب تھا یاد ہمیں
٭
تمہیں بھلانا مشکل ہو گا
میرا اچھا وقت رہے ہو
٭
رہِ وفا نہیں سب کے نصیب میں انورؔؔ
یہاں سے صرف کوئی راز دار گزرے گا
ایسی ہمت و جرات، جو محبت یا عشق عطا کرتا ہے، اسی کو ملتی ہے جو محبت میں دل تو وار دے لیکن دماغ نہ ہارے۔منیر جو محسوس کرتا ہے اسے اپنے لاشعور کی طاقت سے تخلیقی عمل سے گزار کر شعر کے سانچے میں ڈھالتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کے اشعار میں انفرادی و اجتماعی تجربات بولتے ہیں۔
تیرے الفاظ میں تلخی کی چبھن یاد رہی
تیرے لہجے میں چھپا قہرِ بلا یاد آیا
اس کے انداز کی خوبی تھی کہ اک عمر کے بعد
اس کے جذبوں میں صداقت کا خلاء یاد آیا
اس کے کئی اشعار بہت نازک اور لطیف تاثر سے بھرپور اچھوتے تصورات بیان کرتے ہیں۔ مثلاً
حسد بڑھاتا ہے پیہم رفاقتوں کا مزا
کوئی رقیب رہے درمیاں ضروری ہے
٭
جانے کس زعم میں کرتا ہے بچھڑ جانے کی بات ۔۔۔۔دے نہ دوں میں بھی کسی روز اجازت اس کو
٭
ہم محبت تمام کر بیٹھے ۔۔۔۔آئو حجت تمام کرتے ہیں
٭
تو مرے پیار کی کہانی کا
گم شدہ اقتباس لگتا ہے
منیر انورؔ کی شاعری میں روایتی شعور اور ذاتی تجربہ، دونوں شامل ہیں۔ اس کی غزل میں مختلف کیفیات ظاہر ہوتی ہیں۔ جب محبوب سے راز و نیاز کی سرگوشیاں ہوں یا معاملہ بندی کی حالت کا ذکر ہو تو اس کی زبان نرم، کومل اور دھیمی ہو جاتی ہے۔ جبکہ حالتِ معتوب و متنفر ہو تو اس کی ذات کی تلخیاں اس کے لفظوں سے جھانکنے لگتی ہیں۔ معاملہ بندی کے حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
لمس تھا کوئی کہ جادو کی چھڑی تھی
میں اسی لمحے مکمل ہو گیا تھا
ایک نقطے پر سمٹ آئے تھے دونوں
آئینے کا مسئلہ حل ہو گیا تھا
اس کے لفظوں سے مہک آنے لگی تھی
اور سب ماحول صندل ہو گیا تھا
اکتشافِ ذات کا لمحہ تھا انورؔؔ
اور میرا ذہن ہی شل ہو گیا تھا
٭
اس نے تسلیم کر لیا ہے مجھے
اضطراب و حجاب اپنی جگہ
٭
ان ہونٹوں نے سرگوشی کی
انورؔ تم کتنے اچھے ہو
عاشق کے لئے رومانی وارداتوں کو بھلانا ممکن نہیں ہوتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ نامہ و پیام اور میل ملاقاتوں کا سلسلہ خواب و خیال لگنے لگتا ہے لیکن وہ کسی نہ کسی صورت گذشتہ سے پیوستہ رہتا ہے۔ اسی لئے ہجر و وصال کی لذتوں اور تلخیوں کے ذائقے کبھی فراموش نہیں کئے جا سکتے۔ منیر انورؔ کے ہاں یہ کیفیات اکثر ملتی ہیں اور ان کی شدت سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ اس کا ذاتی تجربہ ہو۔
عادتاً چھوڑ دیا اس نے مجھے
فطرتاً میں نے گلہ تک نہ کیا
٭
میری غزلوں کا معجزہ دیکھا
ہجر سے بھی وصال جھانکتا ہے
٭
جانے کب واپسی کا اذن ملے
میں نے مڑ مڑ کے اس کو دیکھا تھا
٭
لہو میں رقص کرتی ہے محبت
رگوں میں نارسائی چیختی ہے
٭
وہ جب ان آنکھوں سے اوجھل ہو گیا تھا
شہر انسانوں کا جنگل ہو گیا تھا
٭
مقام ایسا محبت میں آ گیا ہے جہاں
فراقِ دوست کا لمحہ بھی سال لگتا ہے
دل میں ایک بیل تھی محبت کی
آج وہ بھی اُکھاڑ دی اس نے
٭
پھول اور کانٹے یکساں لگنے لگتے ہیں
ہونٹوں پر جب صحراؤں کی پیاس اگے
منیر انورؔ کے ہاں غنائیت میں رچا ہوا باوقار لہجہ ملتا ہے۔ مضمون و معانی الفاظ سے مربوط اور ہم آہنگ ہو کر شعر میں حسن و خوبصورتی اور موسیقیت پیدا کرتے ہوئے اس کی تشکیل و تکمیل کا باعث بنتے ہیں۔ شاعر کے الفاظ ہوں یا مغنی کی آواز کا زیر و بم، کسی مصور کے حسیں شاہکار کے ابھرتے نقوش ہوں یا سنگ تراش کی مجسمہ سازی۔ فنکار کو ذاتی اظہار کے لئے فہم و فراست، شعور کی پختگی اور فکری بلندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ منیر انورؔ کا کلام ان سب محاسن سے مالا مال ہے۔ اس کی غزل روایت اور اقدار سے جڑی ہوئی ہیاور اس کی یہ وابستگی معاشرتی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور روز مرہ کے متنوع تقاضوں کا شعور دیتی ہے۔وہ ایک نرم و گداز دل رکھنے والا شاعر ہونے کے باوجود عقلیت پسند انسان ہے اور عقل و شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے ذہنوں میں زندہ رہنے کا متمنی ہے۔ سستی اور سطحی شاعری کو محورِ فن سمجھ کر لکھنے والے ادب کی دنیا سے آہستہ آہستہ غائب ہو جاتے ہیں۔
منیر انورؔ کے ہاں جذبات شعور سے ہو کر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرتی حوالے سے اس کا رویہ مثبت، متوازن اور حقیقت پسندانہ ہے۔ اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ زندہ ہے۔اس کی متعدد غزلیات میں ترنم کی چاشنی پائی جاتی ہے جنہیں موسیقاروں نے سر بخشے۔ چند غزلیں ریڈیو پاکستان لاہور سے ریکارڈ ہو کر نشر ہوئیں۔ مثلاً
خواب سب ایک خواب لگتا ہے
تیرا ملنا سراب لگتا ہے
٭
ہم زباں، ہم نفس، ہم قدم
راستے، دوریاں، زیر و بم
سب محبت کے ادوار ہیں
مسکراہٹ، ہنسی، چشمِ نم
اس نے روایت سے منسلک رہتے ہوئے جدید رویوں کی دنیا میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ کسی شاعر کی عظمت، شہرت و مقبولیت کا راز یہ ہے کہ حروف سے اس کا یارانہ ہو جائے۔ منیر انورؔ کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ چابک اس کے ہاتھ میں ہے اور لفظ اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ اس نے شعوری کوشش کئے بغیر نہایت سادگی سے روز مرہ اور محاوروں کو مکمل صحت سے برتا ہے۔
جل نہ جائے جلتی پر
تیل ڈالنے والا
٭
یوں تو اس کی داڑھی میں بھی تنکا تھا
آئینے کی بات چلی تھی، یوں بھی ہے
٭
کچھ تو وہ بھی تیز مزاج کا تھا لیکن
ہم نے دکھتی رگ پکڑی تھی، یوں بھی ہے
منیر ایک سنجیدہ مزاج، باشعور اور مثبت فکری رجحان رکھنے والا داخلی و خارجی پہلوؤں کا باریک بینی سے مشاہدہ کرنے والا شاعر ہے۔ وہ دنیاوی رکھ رکھائواور اگر مگر کے چکروں میں پڑنے کی بجائیسچی، سیدھی اور کھری بات کرنے کا قائل ہے۔ اسے شاعرانہ تعلّی کہیں، انا پرستی یا احساسِ ذات۔ دیگر مانے ہوئے شعراء کی طرح اس کی شاعری میں بھی یہ شعور پوری طاقت اور توانائی کے ساتھ ملتا ہے۔
ہم نے دو ٹوک بات کی انورؔؔ
لوگ الجھے رہے مثالوں میں
٭
عام سا آدمی سہی انورؔؔ ۔۔۔۔اس میں کچھ بات خاص ہے تو سہی
میری تحریر پھاڑ دی اس نے
میخ سینے میں گاڑ دی اس نے
منیر انورؔ کے ہاں فنی حقیقتوں کا ادراک اور سنبھلی ہوئی فکری کاوشیں عظیم ادبی شعور کا پتہ دیتی ہیں۔اس کی غزل غم جاناں و غم دوراں کی ترجمان ہے۔ اس کی غزل میںدھوپ، آنگن، اضطراب، چراغ، ستارہ، آنکھیں، خوشبو، گل، رقص، دکھ، کرب، امید، وصال و ہجر، تنہائی، پیاس اور عکس وغیرہ، وہ حوالے ہیں جو اردو غزل میں ایک مخصوص تناظر رکھتے ہیں۔ اردو شاعری میں دلچسپی رکھنے والا قاری ان کی اہمیت اور ضرورت سے بخوبی آگاہ ہے۔ ’’رنگ محبت کے‘‘ میں یہ سب حوالے منیر انورؔ کی نکھری ہوئی امیجری کے ذریعے اشعار کے سانچے میں ڈھل گئے ہیں۔منیر کے ہاں چشمِ نم، زیر و بم، چمن زار، شہرِ خیال، تارِ نفس، پیہم رفاقتیں، ظلمتِ شب، حجت تمام کرنے اور اکتشافِ ذات جیسی تراکیب اپنی پوری معنویت اور قوت کے ساتھ استعمال میں آئی ہیں۔ وہ نئی تراکیب وضع کرنے کے ساتھ مروج تراکیب کو منفرد سلیقے سے اپنے استعمال میں لایا ہے۔ اس کی غزل کے موضوعات میںوسعت و گہرائی، پختگی، بلند خیالی، تخلیقی انداز، ترنم، استفہامیہ لب و لہجہ، جذباتی کشمکش، معاشرتی اونچ نیچ اور جدت و ندرت جیسے پہلو نمایاں ہیں۔ اس کے لفظ، جذبے، مفاہیم، تراکیب، امیجری اور فکرو شعور نہایت پر کشش ہیں۔’’ رنگ محبت کے‘‘ اس کا تیسرا مجموعہ کلام ہے۔ اس میں غزلیات کے علاوہ سات نظمیں، ’’ گردشِ ایام، آغاز، تضاد، کہانی، شاعری، ایف بی فرینڈ، اور امرینہ‘‘ شامل ہیں۔
اپنے پہلے دونوں شعری مجموعوں’’ روپ کا کندن 2013 ء اور ” رقص جاری رہے2017 ء
کی طرح زیر نظر مجموعہ میں بھی اس نے کچھ پنجابی کلام اور ایک سرائیکی قطعہ شامل کیا ہے۔ اس کی اردو نظم فکری، احساساتی اور تاثراتی وسعتوں سے معمور ہے۔ اس نے زندگی اور اس کے امور کا نئے فکری تناظر میں جائزہ لیا ہے۔ اس کی نظم’’ آغاز‘‘ پر ایک سرسری نظر ڈالنے پر ہی معلوم ہو گا کہ اس نے بہت نزاکت سے زندگی اور وقت کے بہاؤ میں لمحہء موجود کی اہمیت کا احاطہ کیا ہے۔اس کا کہنا ہے انسان وقت کے ہر آن رواں کارواں کا مسافر ہے اور دنیا میں ہر منظر لمحاتی ہے۔ آغازِ سفر ہی میں گھبراہٹ اور پریشانی کا شکار نہیں ہونا کہ ابھی تو گردِ سفر نے چہرے کے خدوخال پر اپنے نقوش چھوڑنے ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز نے ہمارے جسموں کے زر کو مصائب کی بھٹی میں کندن بنانا ہے۔
آغاز
ابھی تو آغاز ہے سفر کا
ابھی سے گھبرا رہے ہو انورؔ؟
ابھی تو گردِ سفر نے
چہرے پہ رنگ اپنا اُبھارنا ہے
ابھی تو خواہش کی لَو نے
جسموں کے زر کو کندن میں ڈھالنا ہے
انورؔ کی نظموں میں امیجری کا استعمال روایتی شاعری کی مستعمل امیجری سے مختلف ہے۔ اس نے داخلی و خارجی تجربات کو نئے انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہجر و وصال کا مسئلہ ہو یا حسن و عشق کا۔ جذبات و احساسات کا معاملہ ہو یا محبت کی معراج پانے کا خیال۔ جدید تہذیب کی روایتی چکا چوند ہو یا الیکٹرانک میڈیا کا حوالا۔ اس نے موضوعات کو متنوع اور دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔ اس ضمن میں اس کی نظمیں’’ ایف بی فرینڈ، شاعری، تضاد اور امرینہ‘‘ اہمیت کی حامل ہیں۔ اختصار اور افسانوی ماحول اس کی بیشتر نظموں کا خاصہ ہے۔ تضاد
جس کی صورت گلاب جیسی تھی
رنگ پیلا پسند تھا اس کو
تھی مجھے چاکلیٹ کی خواہش
اور ونیلا پسند تھا اس کو
منیر انورؔ کی نظم میں معیاری حسن، طرزِ زیست اور کمال کا اسلوبِ بیان پایا جاتا ہے۔ اس کی نظموں میں جذباتی، تخیلی اور وجدانی شعری انداز اختیار کیا گیا ہے۔ ہم اس کی شاعری میں استعمال ہونے والی تمثالوں کی مدد سے اس کے وسیع مشاہدے اور گہرے تجربات سے روشناس ہو سکتے ہیں۔
ایک قطعہ دیکھیے۔
ہم سے تعبیر ہو نہیں پائے
خواب زنجیر ہو نہیں پائے
یہ محبت کے رنگ ہیں انورؔ
یہ جو تصویر ہو نہیں پائے
لیکن منیر انورؔ نے ان خوابوں کو زنجیر بھی کیا ہے اور مثبت فکری شعور کے بل پر اس میں محبت کے رنگ بھی بھر دیے ہیں۔میں نے اس کتاب کے مسودے کا ایماندارانہ مطالعہ کیا، جو میرا فرض بھی تھا اور مجھ پر قرض بھی، تاکہ ’’ حجت تمام‘‘ ہو سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ حرف و آہنگ کے اصولوں اور نقد و فکر کے ترازو میں شاعر کا حسب نسب نہیں بلکہ اس کی فنی قدر و قیمت اور فکری قد و قامت کو جانچا، پرکھا، تولا اور آزمایا جاتا ہے۔مجھے یقین ہے منیر انورؔ کی اس فکری ریاضت کو ضرور سراہا جائے گا۔
٭
شعری مجموعہ ’’رنگ محبت کے ‘‘۔ 2020ء پر لکھا گیا پیش لفظ
٭٭٭