بچپن میں ایک لومڑی کی کہانی پڑھی جاتی ہے جو انگور تک پہنچ نہ ہونے کے بعد یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتی ہے کہ انگور کھٹے ہیں۔ بچپن کی اس کہانی میں نفسیات کا بڑا اہم پہلو چھپا ہے جسے کوگنیٹو ڈسوننس کا نام دیا جاتا ہے اور یہ ہمارے ذہن کے کام کرنے کا طریقہ ہے۔ ذہنی خلفشار سے بچنے کے لئے ہمارا ذہن ایسی کہانیاں تراشتا ہے جو اسے مطمئن رکھیں۔
اس پر ایک تحقیق سگریٹ پینے والے افراد پر ۲۰۱۲ میں کی گئی۔ سگریٹ پینے کی عادت کے انتہائی نقصاندہ ہونے پر کوئی اختلاف نہیں اس لئے اس عادت کا شکار کچھ لوگ اس حوالے سے ذہنی خلفشار کا شکار رہتے ہیں لیکن زیادہ تر سگریٹ نوش اپنے آپ کو اس بات پر دلاسہ دے کر مطمئن ہو چکے تھے اور ان کی وجوہات اس طرح کی تھیں۔
اس سے ذہنی دباؤ میں کمی آتی ہے
اس کے نقصانات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے
مرنے کے اور بھی بہت طریقے ہیں۔ موت ویسے نہیں تو ایسے سہی
اس سے توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملتی ہے
اسے چھوڑ دیا تو دوست بچھڑ جائیں گے
چند روزہ زندگی مزے میں گزارنا بہتر ہے
سگریٹ نوشی میری شناخت ہے
ہم اپنی عادت اور سوچ سے مطابقت رکھنے والی کمزور سے کمزور دلیل سے کیوں مطمئن ہو جاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا دماغ توانائی مانگتا ہے اور اس سے بچنے کے لئے سوچ سے فرار چاہتا ہے۔ اور جس چیز پر پہلے سے پختہ یقین ہو، اس سے ہٹ کر سوچ کو جگہ دینے میں بھی مزاحمت کرتا ہے۔
ذہن کے کام کرنے کے اس طریقے کی مثال بہت سی اور جگہوں پر نظر آئے گی۔ اپنے جرائم اور دوسروں کو دھوکہ دینے کی وجوہات تلاش کرنا یا پھر عام مشاہدہ سیاسی رویے میں بھی ملے گا جہاں اپنی پسندیدہ سوچ یا شخصیت کی ہر چیز کو جسٹیفائی کرنے یا فرق سوچ کی مخالفت میں کمزور ترین دلیل بھی اگر سوچ سے مطابقت رکھے تو اپیل کرتی ہے۔
اگرچہ اپنے خیالات سے مخالف خیال کو ذہن میں جگہ دینا آسان نہیں لیکن یہ اعلی ترین ذہانت کی نشانی ہے اور انسانی اور مشینی ذہانت کا سب سے بڑا فرق۔
اس کے لئے بیلنس تھیوری کا تعارف یہاں سے