جون ایسے منفرد شاعر گزرے ہیں جو اپنی طرز شاعری کے موجد ہیں مگر ان کا طرز کوٸی دوسرا نہیں اپنا سکا۔وہ عشق وعاشقی کے روایتی موضوعات کو منفرد طرز سے برتتے ہیں کہ روایتی موضوعات بھی جدت اختیار کر جاتے ہیں۔جون کا عہد ترقی پسند تحریک کے عروج کا عہد تھا مگر جون پر اس کا اثر زیادہ نظر نہیں آتا
وہ 14 دسمبر 1931 کو امروہہ کے ایک علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوے۔ریٸس امروہوی ان کے بھاٸ تھے جو جنگ اخبار میں روز ایک قطہ لکھتے دوسرے بھاٸ نامور صحافی سید محمد تقی تھے ۔مشہور مصور اور خطاط صادقین جون کے بھانجے تھے۔جون کو اقدار شکن اور باغی بھی کہا جاتا ہےان کا حلیہ ،طرز زندگی،حد سے زیادہ شراب نوشی زندگی کی طرف لا ابالی پن کی مظہر ہے ان کا یہ انداز شاعری میں بھی جھلکتا ہے وہ کہتے ہیں
نہیں دنیا کو جب پروا ہماری تو پھر
دنیا کی پروا کیوں کریں ہم
جون نے محبوب سے بے تکلفانہ اور لاگ لپٹ سے پاک انداز اپنا رکھا تھا وہ دوسرے موضوعات کو بھی بے تکلفانہ انداز میں برتتے ہیں
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو کوٸ
رہتاہے آسمان میں کیا
ہر جاٸ پن ملاحظہ ہو
شاٸد مجھے کسی سے محبت نہیں ہوی
لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہو میں
ایک اور ملاحظہ کریں
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
جون کی کتب لیکن ، شاٸد،گمان،گویا ہیں
نوجوانوں کو جون کی شاعری حلیہ سب کچھ بہت پسند ہے مگر در حقیقت ان کی کتب تک رساٸ بہت کم لوگوں نے کی ہے
شرم وحشت جھجھک پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
آپ ،وہ،جی،مگر یہ سب کیا ہے
تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں
نوے کی دہاٸ میں خالد احمد انصاری نے جون کی شاعری کو محفوظ کرنے میں بہت کام کیاآج کل جون کے چاہنے والے فیس بک اور سوشل میڈیا پر اپنے الفاظ لکھ کر جون کے نام سے بھیج رہے ہیں مگر بہت کم نے جون سے کم ہی سہی کچھ جون جیسا مطالعہ کیا ہو
یہ ہے ایک جبر اتفاق نہیں
جون ہونا کوٸی مذاق نہیں