شعوروادراک شمارہ نمبر ۵ پر تبصرہ
اس نجم فلک سے ہے یہ نجم ادب اعلیٰ
کہ جس سے محبت کا ہے بول ہوا بالا
’’اپنا وطن کشمیر‘‘ اور ’’اپنا گھر جنت‘‘ میں ایک ایسی سچی مسرت پوشیدہ ہے جس کی تاثیر سے انکار ممکن نہیںاور ہرگز نہیں۔ گھر ایک سے بڑھ کر ایک تو ہو سکتے ہیں مگر ’’ایک سے‘‘ نہیں ہو سکتے پھر کیوں ایسا ہے کہ امیر سے امیر تر اور غریب سے غریب تر ہر انسان اپنے گھر کا ذکر پیغام نوید کی طرح کرتا ہے حتیٰ کہ کہنے والوں نے اتنا بھی کہہ دیا کہ
یارانِ جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنب
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی
جب ہم اس پیغام کی تہہ میں اترنے کی سعی کرتے ہیں تو یہ بات قرین قیاس لگتی ہے اور پھر تو صحیح بھی خود کار طریقے سے ہوتی چلی جاتی ہے کیونکہ انسانحسن کا عامل اور مرقع ہے اسی لیے اسے سماجی جانور کہا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ جانور ہم نے فقط سائنسی اصطلاح کے تحت کہا ہے۔ بہرحال ’’گھر‘‘ میں جاذبیت اور کشش اردگرد کے ماحول سے مانوسیت اور احساس ِاپنائیت کی وجہ سے ہے۔ اس سے بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ صرف احساس کے بل بوتے پر کسی شخص، جگہ یا چیز کی فردیت کو منوایا نہیں جا سکتا اس کے لیے کوئی ناقابل ِتردید برتری یا برتری محصولہ سے نسبت نہایت ضروری ہے۔ اس کے بعد صرف تسلیم و رضا، قلب ِسلیم اور محبت کی نظر درکار ہے جس طرح کسی محبت کے پیامی نے کہا ہے،
’’ساری دنیا اپنا گھر ہے مل کر اسے سجائو‘‘
بالکل اسی طرح ہم گڑھی اختیار خان کو اپنا گھر مانتے ہیں اور فخر کرتے ہیں اور اس میں وہ جاندار حوالہ جس کا ہم سطور بالا میں تذکرہ کر آئے ہیں۔ وہ ہے اس کی روحانی فضا جو اللہ والوں کے قدم کی برکت سے میسر آتی ہے۔ تصوف کا عالمی مرکز گڑھی اختیار خان بندگان خدا کے اظہر و اخفا مثبت کارناموں میں معجزہ نما اور جہان ِفانی کی داستانیں اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔
اظہر کی بات کی جائے تو حضرت خواجہ محمد یار فریدی، حضرت خواجہ غلام نازک کریم اور خواجہ غلام قطب الدین فریدی کی تصوف کی ترویج کے لیے خدمات ناقابل ِفراموش اور قابل ِستائش ہیں۔ اگر اخفا کے حوالے سے تصوف کی بے ریا پاسداری کے حوالے سے دیکھا جائے تو مشائخ شاہ آباد شریف کا کردار سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ انہیں مقبولان خدامیں سے ایک اسم گرامی حضرت پیر علامہ فاروق القادری شاہ صاحب کا ہے جنہوں نے میدان ِتحقیق میں قدم رکھ کر اہل تحقیق حضرات کو اپنی سمت متعین کرنے کا گویا روحانی قطب نما فراہم فرما دیا۔ آپ نے ربط یا بے ربطی کی بنیاد صرف اور صرف رضائے الٰہی پر رکھی مگر خلق خدا کی داد رسی اور روحانی اصلاح کے حوالے سے جو مقام حاصل کیا وہ صدیوں میں کسی کو حاصل ہوتا ہے۔ گویا یہ شعر تو کہا ہی آپ کے لیے گیا تھا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روئی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہم اس حوالے سے بڑے خوش نصیب ہیں کہ ہمیں علامہ سید فاروق القادری ایسے عقبری زماں، عالم، فاضل، محقق، مقرر ،خطیب اور ادیب کا زمانہ اور زیارت نصیب رہی ہے۔ اہلِ علاقہ کے لیے آپ کی شفقت اور ذاتی تجربات کا ذکر کروں تو مجھے ضرور یہ خوبصورت شعر لینا ہو گا
نگاہ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
ہمارے بزرگوں نے سادات کرام کی محبت گویا ہماری گھٹی میں ڈالی ہے اور یہ فیضان ِکرم اور باطنی ترتیب کے اس بے مثال مرکز سے مربوط ہے جو راس الاصفیا، زیدۃ الکاملین حضرت پیر سید جعفر شاہ القادریؒ کے دم قدم سے گڑھی اختیار خان کو حقیقی معنوں میں مرکز تصوف ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
مشائخ شاہ آباد شریف اور خصوصاً سید محمد فاروق القادریؒ کے ذکر خیر سے اپنے ذہن، قلم اور ڈائری کو مشرف ،منور اور سعید کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ان شاء اللہ جلد یہ سعادت حاصل کرنے کی سعی کریں گے۔ فی الوقت شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جناب محمد یوسف وحید صاحب کا جنہوں نے انتہائی مشکل حالات میں بھی ادبی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ تمام تر کاوشوں اور فروغ ادب کے لیے نئی راہیں تراشنا اور تحقیقی میدان میں کمرہ جاتی تحقیق کی بجائے Door to door،Face to face،Place to placeاورKnow before you convey ،کے عملی تحقیقی روایت کی بحالی کی داغ بیل ڈالی ہے۔
جسے جگ نے سمجھ آساں کیا نام ہے نسیاں کے
وہی پہلو اجاگر کر کے رکھا ہے جہاں آگے
مِرے یوسف تجھے ہم نے بڑی تحقیق سے سمجھا
کبھی بھی جا نہیں سکتا ارے تجھ سے زماں آگے
مقدار کی بجائے معیار پر نظر رکھنا محمد یوسف وحید کی وہ خوبی ہے جس نے اسے روایتی ادیبوں سے الگ تھلگ مقام دلانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ’’شعور و ادراک‘‘ میں مختلف نامور ادیبوں کے لیے گوشے کا اہتمام ان کی اعلیٰ ادبی سوچ کا نہ صرف ثبوت ہے بلکہ مشعل راہ بھی ہے۔
خدا جب حسن دیتا ہے
نزاکت آ ہی جاتی ہے
بالکل اسی طرح شعور و ادراک کتاب نمبر 5میں تصوف روحانیت اور علم و فضل کے حوالے سے عالمی شہرت رکھنے والے فخر سادات طبیب روحانی حضرت علامہ پیر سید فاروق القادریؒ کے حوالے سے مخصوص گوشے کا اہتمام کسی روحانی فیض رسانی کی قدرتی تنظیم کی کرشمہ سازی بھی مانی جا سکتی ہے کیونکہ اسلام کی بنیاد بھی پانچ پر ہے مخلوق کی خالق کے حضور حاضریوں کی تعداد بھی پانچ ہے۔ نسبت حق کی امین ہستیاں بھی پانچ ہیں۔ لفظ بروزن فعولن کے حروف بھی پانچ ہیں۔ سید شہنشاہ ہوتا ہے اور اگر آپ کی کوئی خدمت قبول ہو جاتی ہے تو بڑی بات ہے۔ یقین ہے کہ یہ کتاب نمبر 5گوشہ تمام تر روحانی نوازشات کا پیش ِخیمہ ثابت ہو گا اور سادات کرام کی باطنی سخاوت محمد یوسف وحید کے لیے مثبت روی اور حق شناسی کا مزید سامان کر دے گی کیونکہ
لج پال پریت نوں توڑ دے نئیں
جیدی بانہہ پھڑدے اونوں چھوڑدے نئیں
شعور و ادراک کی محض تین کتابیں کتاب نمبر 4، کتاب نمبر 5 اور کتاب نمبر 6کو ہی دیکھ لیا جائے تو صرف اور صرف مخصوص گوشوں میں ہی اعلیٰ ادبی عمرانیات کا بہترین خاکہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔
کتاب نمبر 4حیدر قریشی کے حوالے سے مخصوص گولڈن جوبلی نمبر پر مبنی ہے جس میں وطن سے محبت مٹی کا مدھر پن اور مونجھ کی کرشمہ سازیاں پوری کتاب میں جگہ جگہ بکھرتی چلی جا رہی ہیں۔
کتاب نمبر 5میں زیدۃ المحققین حضرت علامہ پیر سید محمد فاروق القادریؒ کی علمی، ادبی، قلبی اور روحانی کرم فرمائیوں پر مبنی اس کتاب کی حقیقت بلاشبہ منفرد اور مثالی ہے۔
کتاب نمبر 6میں ادب کے شمس و قمر حفیظ شاہد کی ادبی خدمات کے حوالے سے گوشہ مخصوص کیا جا رہا ہے اور جب یہ اہتمام مکمل ہوتا ہے تو ادب کی جھولی میں کتنے نئے موتیوں کا اضافہ ہو جاتا ہے اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ
آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
ہم آخر میں ایک بار پھر خلوص ِدل سے معتبر نوخیز ادیب محمد یوسف وحید کی خدمت میں سلام پیش کرتے ہیں اور تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جس نے نہ صرف ادب میں نئے افق تلاش کیے ہیں بلکہ ان میں مدھر پن مدھم ستاروں کو واضح کرنے میں بھی مثالی کردار ادا کیا ہے۔ اس شعر میں دشواریوں کا مردانہ وار مقابلہ کر کے نئے آنے والے طبقے کی ڈھارس بندھانے کی عملی اور کامیاب کاوش کی ہے، گویا
اب جس کو چاہیے وہ لے لے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا
(صادق جاوید)
ساتھ ہی ساتھ محمد یوسف وحید نے ذاتی آرام اور حقِ راحت کو ثانوی قرار دے کر ادب کے آسمان پر نئے ستارے نمایاں کر کے اس شعر کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
٭٭٭
تبصرہ: مجاہد حسین ( گڑھی اختیار خان )