فلسفے میں جو موضوعات آج تک زیر بحث آئے ہیں ان میں فطرت یا مادی دنیا کے حوالے سے ایک اہم ترین علت و معلول کے درمیان رشتے کی نوعیت کو دریافت کرنا ہے، علت و معلول کے درمیان تعلق میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آیا علت و معلول کے درمیان کوئی ناگزیر تعلق پایا جاتا ہے یا یہ محض اتفاقی ہے؟ بیشتر فلسفی علت و معلول کے حوالے سے فطرتی اشیا کے درمیان تعلق کو لازمی گردانتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب ایک عمل کے نتیجے میں ایک واقعہ ہوتا ہے تو دوسرا بھی لازمی ہو گا۔ جیسا کہ سو ڈگری پر پانی لازمی طور پر ابلنا شروع ہو جائے گا، یا اگر ہم چیز اوپر کی جانب پھینکیں گے تو وہ لازمی طور پر نیچے کی جانب گرے گی۔ بعض فلسفی اس عمل کو عقلی لزوم سے ہٹ کر محض تجربے سے حاصل شدہ ایک تصور سمجھتے ہیں جس کی جڑیں خود عقل کی فعلیت میں نہیں ہیں، بلکہ اس کی بنیاد حسی تجربہ اور اس پر قائم ہوئی یادداشت اور عادت ہے کہ جن کے تحت اس تعلق کو ناگزیر تصور کر لیا جاتا ہے۔ ارسطو وہ پہلا فلسفی تھا جس نے اپنی کتاب ”فزکس“ میں علت اور معلول کے درمیان ایک ناگزیر رشتے کو دریافت کیا۔ جبکہ بعد ازاں ابو حامد غزالی نے معجزوں کو بنیاد بنا کر فطرت میں ایسی کسی ناگزیریت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ عظیم ارسطو نے اس سلسلے میں چار علتوں کا ذکر کیا ہے، جن میں مادی، صوری، فاعلی اور علتِ غائی ہیں، جبکہ غزالی نے ارسطو کی چار علتوں میں سے صرف علتِ فاعلی پر تبصرہ کیا ہے۔ وجہ اس کی یہ کہ غزالی کے نزدیک اگر فطرتی دنیا میں ہی علت فاعلی کی حتمیت کو تسلیم کر لیا جائے تو خدا کی کسی قسم کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ لہذا ارسطو کی پیش کردہ مثال کہ آگ روئی یا لکڑی کو جلاتی ہے کو غزالی نے اپنی کتاب ”تہافت الفلاسفہ“ کے سترھویں باب میں اپنے تجزیے کا موضوع بنایا ہے۔
ارسطو کی پیش کردہ چار علتوں میں بنیادی مادی دنیا یا کائنات ہے۔ مثال کے طور پر آگ اسی مادی دنیا کا ایک حصہ ہے، جس کے اندر ہی اس کی دوسری علت موجود ہے جو کہ جلانے کا عمل ہے، یعنی علت فاعلی (جلانے کی صلاحیت) آگ سے ماورا نہیں ہے بلکہ خود آگ کی صفت ہے۔ اور جب بھی آگ روئی کو چھوئے گی تو روئی کا جلنا لازم ہے۔ غزالی یہ سمجھتا ہے کہ اگرچہ آگ روئی کو جلاتی ہے لیکن جلانے کا یہ عمل خود آگ کی وجہ سے نہیں ہے۔ اس بارے غزالی کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
”ہم یہ مانتے ہیں کہ احتراق [جلنے کا عمل] کا فاعل جو روئی میں سیاہی اور روئی کے اجزا میں پراگندگی پیدا کرے، اور اسے سوختہ یا خاکستر کر دے، وہ بلاشرکت غیرے صرف اللہ تعالیٰ ہے، یا تو بہ وساطت ملائکہ یا بلاواسطہ، رہی آگ کہ ایک جماد ہے تو اس کا اپنا کوئی فعل نہیں ہے۔“
یعنی جلانا خود آگ جو کہ مادی حیثیت کی حامل ہے وہ اس کی سرشت میں نہیں ہے، مطلب وہ فعال یا مختار نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ ہے جو آگ کی وساطت سے روئی کو جلاتا ہے۔ لہذا غزالی یہ سمجھتا ہے آگ اور اس کے جلانے کا عمل اتفاقی ہے، نہ کہ ناگزیر، اور اگر اللہ چاہے تو آگ کو جلانے سے روک سکتا ہے۔ ”تہافت الفلاسفہ“ کے سترھویں باب میں ہی غزالی نے حضرت ابراہیم کی مثال پیش کی ہے کہ جب انہوں نے آگ میں چھلانگ لگائی تو آگ کو اس کے جلانے کی صفت سے محروم کر دیا۔ اب ظاہر ہے کہ غزالی بغیر فلسفیانہ دلائل کے ایک متکلم کی حیثیت سے بحث کر رہا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ غزالی کی مذکورہ الٰہیات کو بعد ازاں خاطر میں نہیں لایا گیا، بلکہ اس کے برعکس سولہویں صدی میں ڈیکارٹ نے علت و معلول کے درمیان ایک ایسا سخت میکانکی تعلق دکھایا کہ اس نے مادے اور خیال کے درمیان ایک حتمی دوئی قائم کر دی۔ اور وہی حتمی دوئی بعد ازاں ڈیوڈ ہیوم کے فلسفہ تشکیک کی بنیاد بنی، جس میں ہیوم کی تشکیکی فکر سے غزالی کی الٰہیاتی فکر بآسانی رد ہو جاتی ہے، جس کا ہم آگے چل کر جائزہ لیں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غزالی آگ کے جلانے کے عمل کو تجرباتی سمجھتا ہے، اور اس کے عقلی لزو م کا بھی انکار کرتا ہے لیکن بعد ازاں اسی تجرباتی تصور سے یہ نتیجہ بھی نکال لیتا ہے کہ جلانے کا عمل اللہ کے ذریعے طے پاتا ہے، تو کیا غزالی کا نکالا گیا نتیجہ خود میں کوئی عقلی بنیاد رکھتا ہے؟ یعنی کیا غزالی علت و معلول کے حوالے سے جس عقلی، منطقی لزوم کا انکار کرتا ہے، وہ خدا کی شمولیت سے اپنے ہی نکالے گئے نتیجے کی نفی کر دیتا ہے، مطلب یہ کہ غزالی کے پاس خدا کی فاعلی اور خود مختارانہ حیثیت کو ثابت کرنے کے لیے عقلی و منطقی دلائل موجود نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہم خود بھی یہ نہیں جانتے کہ آگ جلاتی ’کیوں‘ ہے، یہی وہ نکتہ ہے کہ جہاں سے برطانوی متشکک ڈیوڈ ہیوم کی تشکیک کی بنیاد پڑتی ہے اور وہ استقرا ہی نہیں بلکہ علت و و معلول کے درمیان عقلی لزوم کا انکار کر دیتا ہے۔ یعنی ہیوم کے نزدیک آگے کے جلانے کا عمل منطقی نہیں ہے، بلکہ تجربی ہے، اور ہیوم کے الفاظ میں ”وہ خاص مخفی قوت جو فطری افعال کا مصدر ہیں کبھی حواس کے سامنے نہیں آتے۔“ (فہم انسانی، پانچواں باب)۔ ہیوم کی تشکیکی فکر کا تفصیلی جائزہ اور اس کا غزالی کی متکلمانہ سوچ کے ساتھ تقابلی جائزہ لینے سے قبل یہ ضروری ہے کہ ہم ایک بار ارسطو کی چار علتوں کو مثالوں سے واضح کر دیں تاکہ قاری کو اگلی بحث سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔
پہلے تو یہ بات واضح رہے کہ میں نے ارسطو کے فلسفہ فطرت میں جن چار علتوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی فطرتی، مادی دنیا سے الگ یا ماورا وجود نہیں رکھتی۔ سب سے پہلی مادی علت ہے، جیسا کہ آگ، دوسری صوری علت ہے، اس کا مطلب یہ کہ آگ کی بنتر یا فام اس کے اندر موجود ہے نہ کہ اس سے ماورا۔ تیسری جو سب سے اہم ہے وہ علتِ فاعلی ہے، جس میں ایک وجود جب کسی دوسرے وجود پر عمل آرا ہوتا ہے تو دوسرے پر کیا اثر مرتب کرتا ہے، اور چوتھی علتِ غائی ہے کہ جب علتِ فاعلی (جب ایک وجود کا کسی دوسرے وجود پر اثر ڈالنا) تو اس سے کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ ارسطو یہ سمجھتا تھا کہ کائنات خود کفیل ہے اور خدا نے اس کائنات میں صرف حرکت کو پیدا کیا تھا، جبکہ خود خدا میں کوئی حرکت موجود نہیں ہے۔ کائنات میں موجود حرکت کے قوانین کے تحت کائنات میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے، اور خدا چونکہ حرکت سے ماورا ہے، اس لیے وہ کائنات میں برپا ہونے والی تبدیلی میں شامل نہیں ہے۔ لہذا یہاں ارسطو کائنات کو فعال مانتا ہے اور کائناتی تبدیلی کی داخلی منطق کا قائل ہے، اور یہی ارسطو کی فکر میں استقرائی منطق کی بنیاد ہے کہ وہ کائنات سے ماورا کسی ہستی کو کائنات میں تبدیلی میں حصہ دار نہیں سمجھتا۔ جب ارسطو خدا کو کائنات سے باہر تسلیم کرتا ہے تو بعد ازاں گہری بحث کے بعد یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ آگ، روئی وغیرہ کائنات میں موجود جزیات ہیں، اور خود خدا کو جزیات کا علم نہیں ہے۔
میں نے مضمون کے پہلے حصے ارسطوکی نسبتاََ تفصیل سے وضاحت پیش کی تھی، جبکہ غزالی اور ہیوم کی فکر کا سرسری تعارف پیش کیا تھا۔ مضمون کے اس حصے میں غزالی کی پیش کردہ مثالوں سے ہی فلسفیانہ نقطہ نظر سے نتائج اخذ کیے جائیں گے جن سے فکرِ غزالی میں مضمر تضادات کو سمجھنے میں مدد ملے گی، اگرچہ غزالی کا خیال یہ تھا کہ یہ تضادات فلسفیوں کی فکر میں موجود ہیں۔ ابنِ رشد نے صحیح کہا تھا کہ غزالی فلسفیوں کے بارے میں ”غلط بیانی“ کرتا ہے۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ غزالی نے ارسطو کی کتاب ”مابعد الطبیعات“ اور ”طبیعات“ کا ناقص مطالعہ صرف اپنی مذہبیت کی تسکین کے لیے کر رکھا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فلسفہ غزالی کا مقصد نہیں تھا، اس کی کوشش یہ تھی کہ فلسفیوں کے کچھ ایسے تضادات کو عیاں کرے جن سے الٰہیات کے لیے گنجائش نکل آئے۔ غزالی کے بعد جدید فلسفے میں جدلیاتی فکر دکھائی دیتی ہے، اس میں ان تضادات کو جدلیاتی سطح پر نہ صرف یہ کہ دکھایا گیا ہے، بلکہ ان کو قبول بھی کیا گیا ہے۔ اس طرح جدید فلسفے میں ارسطو کی منطق کی جدلیاتی منطق میں رد و نمو ہو جاتی ہے۔ اور جیسا کہ محمد اقبال ”فکر اسلامی کی نئی تشکیل“ کے پانچویں لیکچرز میں یہ نتیجہ نکالا ہے کہ غزالی اپنی کتاب ”مذہب کی سائنس“ میں ”مجموعی طور پر پر ارسطو کا مقلد ہی رہا اور ”قسطاس“ میں اس نے قرآنی استدلال کو ارسطو کی منطقی اشکال میں پیش کیا۔“تاہم ہمیں فی الوقت اس بات سے غرض ہے غزالی نے فلسفیوں پر جو اعتراضات کیے ہیں ان کی منطقی حیثیت جاننے کے لیے قدرے تفصیل سے جائزہ پیش کریں۔
غزالی لکھتا ہے کہ فلسفی ”اسباب و مسببات میں افتراق محال ہونے کے مدعی ہیں۔“ واضح رہے کہ یہاں غزالی کے پیش نظر ”افتراق“ کا مفہوم رسمی منطق کے تابع ہے نہ کہ جدلیاتی منطق۔یعنی فلسفیوں کا خیال یہ ہے کہ ہر علت ایک معلول کو پیدا کرتی ہے اور جو علت و معلول کے درمیان رشتے کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ علت و معلول کے درمیان یہ تعلق لزو م بھی رکھتا ہے اور اتفاقی بھی ہے۔ غزالی کے پیش نظر یہ رشتہ صرف اتفاقی ہے اور اس کے نزدیک اس بات کا قوی امکان ہے کہ ”روئی آگ کے چھوئے بغیر ہی جل کر خاکستر ہو جائے، فلسفی اس امکان کے منکر ہیں۔“ لیکن غزالی اس کا منکر نہیں ہے۔ میرا یہاں پر نکتہ یہ ہے کہ غزالی نے یہ نتیجہ عقلی و منطقی لزوم سے نہیں نکالا۔ عقلی و منطقی لزوم کا وہ خود انکار کر چکا ہے، تو سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ کیا غزالی نے یہ نتیجہ مشاہدے سے نکالا ہے؟ اگر یہ نتیجہ مشاہدے سے نکالا گیا ہے تو غزالی کو اس کی مثال رقم کرنی چاہیے تھی، تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ غزالی مشاہداتی عمل کی مثال تو پیش کرتا ہے لیکن جس نتیجے پر وہ خود پہنچتا ہے اس کے لیے کوئی بھی مثال پیش نہیں کرتا۔ ایک ایسا نتیجہ جس کی بنیاد میں نہ مشاہدہ موجود ہے اور نہ ہی کوئی منطقی لزوم شامل ہو تو اس کا فقط ایک ہی جواب رہ جاتا ہے کہ غزالی کا یہ نتیجہ اس کے عقیدے کی پیداوار ہے، اور اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
غزالی رقمطراز ہے کہ”فلسفیوں کے پاس دلیل جو کچھ ہے صرف یہ مشاہدہ ہے کہ ”آگ سے مس ہونے پر روئی میں سوختگی کا رونما ہونا دیکھنے میں آتا ہے“۔ حالانکہ یہ مشاہدہ صرف یہ بتاتا ہے کہ ”مس ہونے کے وقت صرف جلنا ہوتا ہے“، یہ نہیں بتاتا کہ ”مس ہونے کے سبب جلنا ہوتا ہے، اور مس ہونے کے علاوہ جلنے کی کوئی اور علت نہیں ہے۔“ (تہافت الفلاسفہ)۔
یہاں غزالی اس بات کا انکار کر رہا ہے کہ آگ سے جلنے کا عمل آگ کو بطورِ علت پیش کرنے کی دلیل نہیں ہے بلکہ صرف یہی علم ہوتا ہے کہ مس ہونے سے جلنے کا عمل واقع ہوتا ہے۔ میرا اعتراض یہ ہے کہ ”مس ہونے“ کو ”سبب ہونے“ سے الگ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ایک طرف تو یہ عمل تجربے میں انگنت بار ثابت کیا جا سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ جب تک علت عمل آرا نہیں ہو گی، مس ہونے کا عمل بھی واقع نہیں ہو گا۔ مسلسل تجربے سے اخذ شدہ نتائج سے یہ سائنسی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ جب بھی آگ کو روئی سے مس کیا جائے تو جلنے کا عمل وقوع پذیر ہوگا، مس ہوئے بغیر آگ کو علت کہا ہی نہیں جا سکتا اور مس ہونے کا یہ عمل مخصوص حالات میں طے پاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر روئی گیلی ہے تو جلنے کا عمل واقع نہیں ہو گا۔ مشاہداتی عمل میں لزوم کی بنیاد کو مشاہدے کے اندر ہی تلاش کرنا ہوگا۔ غزالی کی بات کو ایک اور مثال سے واضح کرتے ہیں۔ فرض کریں کہ مٹی پر پانی گرایا گیا تو مٹی گیلی ہو جائے گی۔ غزالی یہاں پر یہ دلیل دے گا کہ یہ عمل بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ پانی کو مٹی پر گرایا گیا تو مٹی گیلی ہو گی، لہذا یہاں پانی کے گرنے کا عمل یا پانی کے زمین کو مس کرنے کی وجہ سے مٹی گیلی ہوئی ہے، لیکن غزالی کی دلیل یہ ہو گی کہ پانی مٹی کو گیلا کرنے کی علت نہیں ہے۔ غزالی کی بات کا مطلب یہ ہوگا جس طرح آگ روئی کو جلانے کی علت نہیں ہے بالکل اسی طرح پانی زمین کو گیلا کرنے کی علت نہیں ہے۔ غزالی کی غلطی یہ ہے کہ وہ علت کو مس ہونے سے الگ کر کے خدا کو شامل کر رہا ہے۔ اگر علت کو مس نہیں کرنا تو پھر خدا کو شامل کر کے بغیر مس ہونے سے آگ لگنے کی مثال پیش کرنی چاہیے۔لیکن وہ صرف پانی کو اس کے گیلا کرنے کی صفت اور آگ کو جلانے کی صفت سے الگ کر رہا ہے۔ اور علت کے طور پر خدا کو شامل کرتا ہے، جبکہ خود اس سوال کا جواب پیش کرنے سے قاصر ہے کہ آگے جلائے گی کیوں نہیں اور پانی گیلا کیوں نہیں کرے گا؟
اس سے پہلے کہ میں غزالی کی اگلی مثال پیش کروں، میں چاہوں گا کہ فطرت میں لزوم اور اتفاق کی ایک ہی عمل میں مثال پیش کی جائے، تاکہ لزوم اور اتفاق کو سمجھنے میں مدد ملے۔ فرض کریں کہ ہم زمین میں تربوز کا بیج بوتے ہیں۔ بطورِ لازمہ اس میں سے تربوز ہی برآمد ہو گا اور تربوز بھی اس وقت پیدا ہو گا جب خارجی حالات موافق ہوں گے۔ ایسا ہونا سائنسی طور پر ممکن نہیں ہے کہ تربوز کے بیج میں سے خربوزہ برآمد ہو جائے۔ لیکن تربوز کے بیج سے جو تربوز پیدا ہوں گے، امکان ہے کہ ہر تربوز کا حجم مختلف ہو، اور کوئی تربوز میٹھا اور کوئی پھیکا ہو۔ یہ مثال صرف لزوم اور اتفاق کے درمیان تعلق کی وضاحت کرنے کے لیے پیش کی گئی ہے۔ اگر انہی مثالوں کو غزالی کے مشاہدے میں لزوم کی عدم موجودگی کے طور پر دیکھیں تو ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ چونکہ خدا معجزے دکھا سکتا ہے اس لیے تربوز کے بیج سے خربوزہ برآمد ہو سکتا ہے، وجہ غزالی کے نزدیک یہ ہو گی کہ تربوز کا بیج تربوز کے پیدا ہونے کا سبب نہیں ہے۔ اس تناظر میں غزالی کی یہ مثال مضحکہ خیز ہو گی۔ علت و معلول کے درمیان تعلق کو سمجھنے کے لیے غزالی کی پیش کی گئی ایک اور مثال پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ غزالی کہتا ہے،
”مادر زاد اندھا اگر اس کی دونوں آنکھوں میں پردہ ہو، اور دن اور رات کا فرق اس نے کبھی لوگوں سے نہ سنا ہو، اگر دن کے وقت اس کی آنکھوں سے پردہ ہٹ جائے اور وہ اپنی پلکیں کھولے اور مختلف رنگوں کا مشاہدہ کرے، تو سمجھے گا کہ رنگوں کی شکل و صورت کا ادراک جو میری آنکھوں میں حاصل ہوا، وہ آنکھ کھولنے کی وجہ سے حاصل ہوا، ادراک کا فاعل و موجد آنکھ کھولنا ہے، اور جب میری آنکھ صحیح سالم اور کھلی ہوئی ہے اور پردہ اٹھا ہوا ہے، سامنے جو جثہ جو ڈھانچہ ہے رنگ دار ہے، تو مجھے دکھائی دینا محالہ لازم ہے، اور نہ دکھائی دے یہ ممکن نہیں، حتیٰ کہ فضا آفتاب غروب اور فضا تاریک ہو جائے گی تو اب جانے گا کہ، نورِ آفتاب اس دکھائی دینے کا سبب تھا، اور سورج کی روشنی کی وجہ سے وہ میری آنکھوں میں مختلف رنگوں کی تصویر اتر رہی تھی۔“
غزالی کی پیش کردہ اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ وہ علت کا ایک خاص مفہوم ذہن میں رکھتا ہے، جبکہ سلسلہ علیت سے واقف نہیں ہے کہ جہاں علت کی تبدیلی سے معلول میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ آنکھ کھولنے سے رنگوں کا ادراک ہوتا ہے، لیکن آنکھ کو بند رکھنے سے نہیں ہوتا اور یہی غزالی کی دلیل کی حدود ہیں۔ غزالی کا خیال ہے کہ خارجی مظاہر کی تبدیلی سے جب کہ اندھیرا ہو جائے تو پھر بھی علت کو اپنے تفاعل کو برقرار رکھنا چاہیے، یہ بات خود میں لایعنیت کا منبع ہے۔ حالانکہ غزالی کی دلیل اسی ایک نکتے پر ختم ہو جاتی ہے کہ بغیر آنکھ کھولے رنگوں کا ادراک ممکن نہیں تھا۔ البتہ غزالی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ بغیر آنکھ کھولے بھی ایک اندھا روشنی میں رنگوں کو دیکھ سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے غزالی کو مثال پیش کرنی ہوگی کہ جب کسی اندھے نے رنگوں کا کوئی تصور قائم کر رکھا ہو۔ خارجی فطرت میں معروض کی تبدیلی سے دیکھنے کا عمل نہ ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ سلسلہ علیت پر نظر ہو۔ علت کی کوئی ایک قسم نہیں ہے کہ جسے حتمی سمجھ لیا جائے، تاہم علیت اپنا ایک مخصوص تفاعل رکھتی ہے۔ ہم گزشتہ سطور میں یہ دیکھ چکے ہیں آگ روئی کو جلا دیتی ہے، جبکہ لکڑی خود آگ کے جلنے کا باعث بنتی ہے۔ یہاں علیت کا عمل دو طرفہ ہے کہ ایک طرف آگ لکڑی کو جلائے اور دوسری طرف لکڑی آگ کی علت بن جاتی ہے۔لیکن یہی آگ ہے جو لوہے کو نہیں جلا سکتی، وجہ اس کی یہ کہ خارجی معروض کی نوعیت تبدیل ہو چکی ہے۔ اب غزالی یہ سوال تو اٹھا نہیں سکتا کہ معروض کی تبدیلی سے علت اپنے فعل سے دست برادر کیوں ہوتی ہے، جبکہ ہم خود مشاہدہ کر رہے ہیں کہ روشنی کے ختم ہو جانے سے آنکھ کے عمل پر فرق ظاہر ہوا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ سلسلہ علیت میں داخلی عوامل اور خارجی مظاہر کو ان کے مخصوص جدلیاتی عمل میں دیکھا جائے۔ فطرتی مظاہر کو ان کی حرکت اور تبدیلی کے عمل میں دیکھا جائے، جہاں علتوں کا ایک وسیع سلسلہ پہلے سے ہی موجود ہے۔ غزالی ایک علت قائم کرتا ہے، اور بعد ازاں اس کا دوسری علت سے فرق دکھا کر دونوں میں حتمی تفریق قائم کر کے خدا کے لیے جگہ بنانا چاہتا ہے، جو کہ علتوں کے ناقص فہم سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ علتوں کی مختلف اقسام میں بعض علتیں موضوعی اور بعض معروضی ہوتی ہیں، بعض علتیں بالواسطہ اور بعض بلاواسطہ ہوتی ہیں اور معروض کی تبدیلی سے ابتدائی علت اپنی فعلیت سے دست بردار ہو جاتی ہے۔کائنات کو اس کی کلیت میں اس کے سلسلہ علیت میں دیکھنا پڑے گا، تبھی علتوں کے حقیقی مفاہیم واضح ہو سکیں گے۔ پہلے سے عقیدے پر قائم تصورات کی تصدیق کے لیے استقرائی عمل کی عدم تفہیم نمایاں ہو جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غزالی آج سے تقریباََ ایک ہزار برس قبل لکھ رہا تھا، اور مستزاد یہ کہ وہ الٰہیات کے حصار میں تھا، اس کے لیے علیت کو اس کے استقرائی اور استخراجی مفاہیم میں سمجھنے کے لیے مواد موجود نہیں تھا، جس کا کہ ہم ڈیوڈ ہیوم کی تشکیک کے دوران تجزیہ کریں گے۔
ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ غزالی نے فطرت کے حوالے سے علت و معلول کے درمیان لزوم کے تصور پر جو سوالات قائم کیے ہیں، وہ غزالی سے پہلے موجود نہیں تھے۔ یہ خیال یونانی فلسفے سے قطعی طور پر نابلد ہونے کا نتیجہ ہے۔اسی بنیاد پر یہ دعویٰ بھی کر دیا جاتا ہے کہ سترھویں صدی کے متشکک ڈیوڈ ہیوم اپنا فلسفہ غزالی سے مستعار لیتا ہے۔تاہم جونہی ہم ان خیالات کی کھوج میں تحقیق کرنے نکلتے ہیں تو آخرکار اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ غزالی کے اپنے خیالات یونانی فلسفے سے مستعار ہیں، جس کا کہ اگلی سطور میں تجزیہ پیش کیا جائے گا۔ یونانی فلسفے میں مادیت پسندی کی روایت جو انیکساغورث سے پہلے اور بعد ازاں ڈیموکریٹس اور ایپیکورس تک پہنچتی ہے اس میں فطرتی عوامل کی ان کی خود رو حرکت کے تحت تعبیر کی جاتی ہے، جو کہ ایک سائنسی رجحان ہے۔ انیکساغورث سے پہلے کائنات کی تشریح مادیت کے نقطہ نظر سے کی جاتی تھی، جس کا تفصیلی ذکر ارسطو اپنی کتاب ”مابعد الطبیعات“ کے پہلے چند صفحات پر ہی کر دیتا ہے، اور مادیت کے اس غالب پہلو کو ارسطو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے۔ وجہ اس کی یہ کہ اس میں صرف مادی علت باقی رہتی ہے جبکہ دیگر علتوں (صوری، فاعلی، غائی) کا کوئی کردار نہیں رہتا۔ یہ ایک ایسی تعیین ہے جس میں ”اتفاق“ کا کوئی امکان نہیں ہے، جبکہ ارسطو ”اتفاق“ کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ’اتفاق‘ ہی ہے جو غزالی کو ’معجزات‘ کی جانب لے جاتا ہے۔ ’اتفاق‘ کی وجہ سے لزوم کے تصور پر زَد پڑتی ہے۔ مادیت پسندفطرت میں لزوم کو دیکھتے ہیں جب کہ کائنات کی تخلیق کو ’اتفاق‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ارسطو اور وہ تمام فلسفی جو ارسطو سے متاثر ہوئے، بالخصوص اسلامی دنیا میں، ان میں سے بعض ارسطو کے ’اتفاق‘ کے فلسفے سے متفق ہوئے اور غزالی جیسے مذہبی طبع کے متکلمین نے اپنا راستہ اسی ’اتفاق‘ کے تصور کی وجہ سے الگ کر لیا۔ ’اتفاق‘ کا مطلب ہے کہ کائنات میں ہمہ وقت لزوم نہیں رہتا، بلکہ اتفاقات کی مکمل گنجائش موجود ہے۔ ارسطو اپنی کتاب ”طبیعات“ کی کتاب دو کے باب چار میں اتفاق کے تصور پر بحث کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اوّل تو یونانی فلسفی”اتفاق کو تسلیم ہی نہیں کرتے، اور اگر تسلیم کرتے ہیں تو اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔“ اس حوالے سے وہ ایمپیڈوکلز کی مثال پیش کرتا ہے جس کے سائنسی نتائج اس کے اپنے عہد میں ہی نہیں بلکہ بقول برٹرینڈرسل ہمارے عہد میں بھی مسلمہ تسلیم کیے جاتے ہیں۔ایمپیڈوکلز کائنات سے متعلق ایک باب میں لکھتا ہے کہ
So chanced it then to run, but often otherwise. Quoted by Aristotle, Physics, P,43.
یہی نہیں بلکہ ایمپیڈوکلز یہ سمجھتا ہے کہ جانوروں کے جسم کے حصے اتفاق سے وجود میں آتے ہیں۔ اتفاق کا مطلب ہی یہ ہے کہ لزوم کی مطلق العنانیت میں کسی اور شے کی گنجائش نکل آئی ہے۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ علت ایک مخصوص معلول کی جانب لے جائے بلکہ علت و معلول کے تعلق میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے اور اشیا اتفاقاََ وجود میں آسکتی ہیں۔ غزالی بڑی چالاکی سے اس کا اظہار ان الفاظ میں کرتا ہے کہ ”ایک کا اثبات دوسری کے اثبات کو متضمن نہیں، اور نہ ایک کی نفی دوسری کی نفی کو متضمن۔“ فلسفے میں اتفاق کا یہی مفہوم ہے کہ جسے غزالی یونانی فلسفے سے باتمام و کمال مستعار لیتا ہے۔ غزالی چونکہ مذہب کے چند بنیادی تصورات کے لیے گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے وہ ”اتفاق“ کو کائنات کی داخلی قوتوں کے ایک ایسے مظہر کے طور پر دیکھنے میں ناکام رہا جو کہ خود کائناتی جوہر کی خصوصیت ہے نہ کہ کسی ماورائے کائنات ہستی کی کارستانی! مذہب میں چونکہ ”مقصدیت“ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اس لیے غزالی کو بھی اسی مقصدیت کی تلاش تھی، یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان عوامل کی تلاش تھی جو غزالی کو اس مقصدیت کی جانب لے جانے کا راستہ ہموار کرتے۔
اتفاق اور لزوم میں تعلق کی نوعیت کو مزید گہرائی میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ماقبل سقراط یونانی فلسفے میں اس کی جڑوں کو کریدا جائے۔ تاکہ ہمیں اس نتیجے پر پہنچنے میں زیادہ مشکل پیش نہ آئے کہ غزالی نے کس طرح ایک فلسفیانہ تصور کا استحصال کر کے اس پر خارج سے ایک مذہبی تصور مسلط کر دیا ہے جو کہ ایک غیر فلسفیانہ اور غیر منطقی رجحان ہے۔ چونکہ اس کی بنیاد ’اتفاق‘ پر ہے جس کو غزالی نے بوجوہ معجزات کا نام دے رکھا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس تصور کو بالکل ویسے ہی سمجھا جائے جیسا کہ وہ حقیقت میں ہے۔
انیکسا غورث جس کا کہ مختصر ذکر اوپر کیا جا چکا ہے وہ سقراط سے قبل ایتھنز میں پہلا فلسفی ہے، یعنی ایسا فلسفی جس نے ایتھنز میں فلسفے کی بنیاد رکھی تھی۔ اگرچہ انیکساغورث کا چاند گرہن کا سائنسی نظریہ آج بھی سائنس کی تاریخ میں ’درست‘ مانا جاتا ہے، تاہم ہمیں اس سے فی الوقت سروکار نہیں ہے۔ ہمارے لیے ضروری یہ جاننا ہے کہ انیکساغورث نے کائنات کی وضاحت جن تصورات کے تحت کی تھی ان کی اہمیت کیا ہے اور مابعد انیکساغورث یونانی فلسفے بالخصوص سقراط اور ارسطو وغیرہ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ارسطو نے ”مابعد الطبیعات“ میں انیکساغورث پر تنقید کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ انیکساغورث جہاں تک ہو سکے فطری مظاہر کی تعبیر و تشریح فطری عوامل کے پیش نظر کرتا ہے، جبکہ کائنات اس کے لیے کسی خاص لمحے تخلیق نہیں کی گئی ہے، تاہم جہاں وہ کائناتی مظاہر کی تعبیر و تشریح کائنات کے اندر موجود لزوم کے تصور کے تحت نہیں کر سکتا وہاں وہ کائنات سے ماورا ایک ”ذہن“ کو تصور کر لیتا ہے، تاکہ اس کی آڑ میں اپنے نتائج کو آگے بڑھاتے ہوئے ان میں تسلسل کو قائم رکھ سکے۔ بنیادی بات تو یہ ہے کہ انیکساغورث مادی کائنات کی تخلیق کا منکر ہے، اور یہ تسلیم کرتا ہے کہ مادے کے اندر جو بھی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ان کی تحریک کہیں باہر سے نہیں ملتی، بلکہ مادے کے اندر اپنے اجزا کو بکھیرنے اور سمیٹنے کا رجحان موجود ہوتا ہے۔ مادے کی مختلف اشکال پانی، آگ، ہوا، لکڑی وغیرہ مادے کے مخصوص اظہارات ہیں اور ان سب میں اپنے مخصوص ذرات کو مجتمع کرنے کی فطری صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اور وہی صلاحیت انہیں ان کی موجود مادی صورت میں ایک مخصوص شناخت عطا کرتی ہے۔ انیکساغورث کے لیے مادہ مسلسل تقسیم ہوتا رہتا ہے۔ ڈیموکریٹس جیسا اعلیٰ سائنسدان جو کائنات کی تخلیق میں کسی بھی عقلی قوت کا قائل نہیں تھا، اس کا خیال تھا کہ مادے کی مسلسل تقسیم کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے جب مادی ذرات ناقابل تقسیم ہوتے ہیں، اور یہ سارا عمل ازخود ہے، یعنی مادی کائنات میں موجود تنظیم، ہم آہنگی اور توازن خود مادے کے اپنے اوصاف کی وجہ سے ہے۔اس کے برعکس انیکسا غورس یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ مادے کی تقسیم کا عمل کبھی رکتا نہیں ہے، بلکہ مادہ مستقل طور پر قابلِ تقسیم ہے۔ تاہم انیکساغورس کے خیالات میں تبدیلی واقع ہوئی اور آخر کار ڈیموکریٹس کے سائنسی نظریات کے برعکس وہ یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ مادی کائنات کے پیچھے ایک ”ذہن‘ موجود ہے،اس طرح انیکساغورس نے کائنات کی ازل سے موجودگی کے تصور کے لیے علت و معلول کاجواز پیدا کر دیا۔ یہ ایسا فلسفہ ہے جو کائنات سے متعلق مذہبی فکر سے کہیں زیادہ وسیع مفاہیم کا حامل ہے۔ اسی خیال نے سقراط کو متاثر کیا۔ سقراط جو کہ خدا پر یقین رکھتا تھا، اور انیکساغورس کے نام سے بخوبی واقف تھا،جب انیکساغورس کے فلسفے کی روشنی میں اس نے کائنات سے متعلق حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی تو اسے خاصی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ افلاطون کے مکالمے ”فیڈو“ میں سقراط اس کا اظہار یوں کرتا ہے:
”پھر میں نے ایک شخص کو، بقول اس کے، انیکساغورس کی کتاب سے یہ پڑھتے ہوئے سنا کہ ہمارا ذہن کل چیزوں کا سبب اور علت ہے اور میں اس خیال سے جو خاصا معقول معلوم ہوتا تھا، بہت خوش ہوا اور اپنے دل میں کہا، اگر ہمارا ذہن سبب ہے تو جو کچھ کرے گا بہترین کرے گا اور ہر چیز کو اس کی مناسب جگہ دے گا۔“(افلاطون، مکالمات، 167)
سقراط مزید کہتا ہے:
”کیا کیا امیدیں میں نے باندھ رکھی تھیں اور کس قدر مایوسی مجھے اٹھانی پڑی۔ آگے چل کر دیکھا کہ میرے فلسفی نے ذہن کو اور ہر اصول ترتیب کو چھوڑ کر ہوا، پانی، ایتھر اور اسی قسم کے انوکھے تصورات سے کام لینا شروع کر دیا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ سقراط کے ہر فعل کی علت ذہن ہے لیکن جب میرے افعال کی مفصل توجیہ کرنے پر آئے تو یہ کہے کہ میں یہاں اس وجہ سے بیٹھا ہوں کہ میرا جسم ہڈی اور پٹھوں سے بنا ہے، ہڈیاں اور ان کے درمیان کو جوڑ سخت ہیں، پٹھے لچک دار ہیں۔“ (مکالمات، 168)
اس ساری تفصیل کا مقصد یہ بیان کرنا تھا کہ غزالی نے جو سوالات اٹھائے اور ان کے نتیجے میں جو تصورات پیش کیے ان پر غزالی سے ایک ہزار برس قبل مباحث ہو چکے تھے، اور ان سے متعلق نتائج بھی اخذ کر لیے تھے۔ ارسطو کی علتِ فاعلی جو کہ فطرت میں متحرک تھی، جو کہ تمام تر تبدیلی اور حرکت کا باعث تھی وہی علتِ فاعلی انیکسا غورث کے فلسفے میں قدرے انفعالی دکھائی دیتی ہے، جبکہ سقراط نے انیکسا غورث پر غزالی سے ایک ہزار برس قبل جو سوالات اٹھائے ہیں، ان کی وہی نوعیت ہے جو غزالی کے پیش کردہ خیالات کی ہے۔ جیسا کہ سقراط طنزیہ انداز میں کہتا ہے کہ جسم ’پٹھوں“ سے بنا ہے، لیکن پٹھے کہاں سے آئے ہیں؟”ہڈیوں کے درمیان کے جوڑ سخت ہیں“ تاہم یہ ”سختی“ کس نے پیدا کی ہے؟ اس طرح کسی نہ کسی حوالے سے الٰہیاتی عوامل کے لیے گنجائش نکالنے کی کوشش کی جاتی رہی ہیں۔ اور جہاں تک فطرت میں علت و معلوم کے درمیان علیحدگی کا تعلق ہے جس کی بنیاد پر غزالی نے معجزات کی جگہ بنانے کی کوشش کی ہے، تو یہ علیحدگی کا یہ تصور اتفاق و لزوم کے فلسفے میں موجود تھا جسے غزالی اپنے مقاصد کے ح صول کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غزالی یونانی فلسفیوں میں صرف ارسطو اور افلاطون سے واقف تھا۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ انیکسا غورس سے قبل تقریباََ سبھی فلسفی سائنسی رجحان رکھتے تھے اور کائنات کی تشریح و تعبیر انہی عوامل کی بنیاد پر کرتے تھے۔ چونکہ کائنات کو حرکت دینے کا تصور خود ارسطو کے فلسفے میں موجود تھا، اور یہیں سے اسلامی متکلمین کے لیے وہ گنجائش نکل سکتی تھی کہ وہ اسلامی الٰہیات کو یونانی فلسفے میں موجود فطرت کے تصور سے ہم آہنگ کر سکیں۔ تاہم کائنات کی تخلیق کے بارے میں تشکیک اور علت و معلول کا تصور یونانی مادیت پسندوں کے لیے کوئی خاص معنی نہیں رکھتا تھا۔ یونانی مادیت پسندوں نے کائنات کی تخلیق میں علت و معلول کے تصور کو رَد کر دیا، یعنی کائنات کی تخلیق میں ایسے کسی بھی لزوم کو تسلیم نہ کیا، اور کائنات میں موجود اسی لزوم پر غزالی نے وہ سوالات اٹھائے، جو اپنی سرشت میں باطل تھے۔جن کا مختصر تجزیہ اوپر پیش کیا جا چکا ہے۔ جس’اتفاق‘ پر غزالی نے اپنی معجزاتی الٰہیاتی فکر پر بنیاد رکھی وہ پہلے سے ارسطو کی ’طبیعات‘ میں زیرِ بحث آ چکی تھی۔ غزالی نے یہ کام کیا کہ فطرت میں موجود ”اتفاق“ کی بنیاد پر الٰہیات کے لیے راستہ ہموار کیا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
علامہ اقبال يا اکبر علی ايم اے اصل رہبر کون؟
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...