(Last Updated On: )
محمد رمضان ( گڑھی اختیار خان )
وہ صورتیںِ الہٰی کس دیس بستیاں ہیں
کہ جن کے دیکھنے کو اَکھّیاں ترستیاں ہیں
اس حقیقت سے کسی کومفر نہیں کہ ہر آنے والا دن ابتر ہے ۔ مطلب کہ ہر گذشتہ دن سے بہتر ہے اور اس سے پہلے والا دن بہتر ین ہوتا ہے کہ یہ بات قرین حقائق بھی ہے کہ ہر وقت کے ساتھ اس سے جڑے ہوئے فیوض و برکات بھی ہماری حدِ تصرف سے بعید ہوتے چلے جاتے ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے کچھ چنیدہ بندے اپنے وقت کے لیے باعثِ رحمت ہوتے ہیں بلکہ ان کا وجود ِ مسعود بلاتفریق ساری انسانیت کے لیے ظاہری و باطنی اِفادے کا ذریعہ ہوتا ہے ۔
ان ہی مقبول بارگاہ ہستیوں میں ایک نامِ نامی اسمِ گرامی حضرت قبلہ سیّد محمد فاروق القادری ؒ کا ایسے پس ماندہ اور سامراجی شکنجے میں جکڑے علاقے سے اُٹھ کر علمی میدان میں اپنی فراست اور علم پروری کے جھنڈ ے گاڑ لینا ، نہایت قابلِ فخر اور لائقِ داد و تحسین ہے ۔ اس وقت کے حالات اور حضرت سیّد صاحب کے عمل کو غور سے دیکھتا ہوں تو اَیسا لگتا ہے کہ
یہ مصرع کہا ہی ان ہی کے لیے گیا تھا کہ
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
آمدو رفت کے وَسائل نہ ہونے کے برابر ہوں اور سفر کی صعو بتیں برداشت کر کے علمی معرکہ سَر کر لینا سیّد صاحب ہی کا کمال ہے ۔ہماری خوش بختی ہے کہ ہمیں آپ کا دَور ۔ آپ کی زیارت اور آپ کی صحبت کا شرف حاصل رہا ۔ قبلہ سیّد صاحب ہمارے علاقے کی بہت بڑی علمی اَدبی روحانی اور دینی شخصیت تھے ۔
آپ کا خاندانی پسِ منظر یقینی عصری ، روحانی اور صدری علوم میں عرصہ قدیم سے ممتاز و منفرد رہا ہے لیکن یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ پیرِ طریقت سیّد محمد فاروق القادریؒ نے از خود فرمودات مشائخِ شاہ آباد شریف کی روشنی میں وقت کی آواز پر اس وقت لبیک کہا جب بہاول پور میں اعلیٰ تعلیم کا روجحان بہت کم تھا اور گڑھی اختیار خان سے پنجاب یونیورسٹی تک رسائی اور پھر اعلیٰ مقصد متعین کرنا پھر محنت ِ شاقہ سے ایم اے کا امتحان اس طرح پاس کر کے گولڈ میڈل حاصل ہو جائے اور آپ کی نسبت سے تمام ضلع کی عوام کا سر فخر سے بلند ہو جائے کوئی کم کارنامہ نہ تھا مگر آپ نے حکومت کی طرف سے از خود ملنے والی انتہائی پر کشش جاب آفر ز کو یہ کہہ کر لات مار دی کہ مجھ پر میرے علاقے کا حق فائق ہے تاریخ گواہ ہے کہ اسی شمع نے روشنی بانٹی ۔ آپؒ کے قول کو صادق جاوید نے شعر میں ڈھال دیا ۔
جگر کا خوں میسر ہو اگر شمع جلانے کو
کرن بس ایک کافی ہے ظلمت کے مٹانے کو
اور لگ بھگ پچاس سال تک نوادر علمی کے متلاشیوں کو فیضِ بہم پہنچایا ۔ ساتھ ہی روحانی معالج کا کرداد خوب نبھایا ۔ وقت کے جید طبیب آپ کی تشخیص کے نہ صرف قائل تھے بلکہ مشعلِ راہ بناتے تھے ۔ جہاں بھی جاتے مجمع کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے ۔ آپ نے ۴۰ سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں اور کئی کتابوں کے تراجم بھی کیے ہیں جس میں فتوح المکیہ نہایت قابلِ ذکر ہے ۔
آج جب آپ کے فیض یافتہ طبقے کا گذرے ہوئے وقت سے تقابل کرتے ہیں تو بلاساختہ ایک ایک مثبت انقلاب برپا دکھائی دیتا ہے ۔ ساتھ کی قبلہ سیّد صاحب کا کارِخلوص یاد آیا ہے تو یہ اعتراف کرناپڑتا ہے کہ
یہ نصف صدی کا قصہ ہے
دو چار برس کی بات نہیں
تقریباً دس ماہ ہوئے آپ اپنے مالکِ حقیقی سے جا و اصل ہوئے ہیں ۔ یقینا آپ کی رحلت سے پید اہونے والا خلا پور ا نہیں ہوسکتا لیکن آپ کے تینوں بیٹے اپنے عظیم والد کی چلائی ہوئی ساری کرنوں کی لوئیں بڑھاتے ہوئے مصروف و کامران دکھائی دیتے ہیں تو دل کو خوشی ہوتی ہے ۔
آپ جہانِ ابدی میں عافیت گزین ہو چکے ہیں ۔ مگر آپ کی سادہ مزاجی ، دھیما لہجہ ، پیاری باتیں ہمارے دلوں میں موجود ہیں اوررہیں گی اور ہماری رہنمائی بھی کرتی رہیں گی ۔
اللہ کریم آپ کے جنت الفردوس میں درجات بلند فرمائے اور ہمیں آپ کی تعلیمات پر عمل کر نے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
*مضمون نگار گورنمنٹ بوائز سیکنڈری سکول گڑھی اختیار خان
میں نہایت مشاق اور منجھے ہوئے مدرس ہیں ۔
٭٭٭