پچھلے دنوں خطوط کی فائلوں کو الٹتے پلٹتے ہوئے 17 خطوں کا ایک پلندہ برآمد ہوا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں انہیں بھول چکا تھا۔یہ خط پاکستان بائبل کارسپانڈنس سکول راولپنڈی سے ریورنڈ ڈینیل سردار اور پاسٹر یونتن مسیح نے میرے سوالوں کے جواب میں لکھے تھے۔ دورانیہ جنوری 1992 سے مارچ 1993 تک کا ہے۔
یہ عجیب دور تھا۔ دنیا کی ہر چیز پڑھ ڈالنے اور سمجھ لینے کا جنون سر پہ سوار تھا( اب سمجھ آیا کہ کچھ بھی سمجھ نہیں آتا!)۔ گلی میں ہوا کی زد پر اڑتے پھرتے کاغذوں کے ٹکڑے اٹھا کر بھی پڑھتا رہتا تھا۔ استعمال کے بعد کاغذی لفافوں کو چاک کر کے اندر کی تحریریں پڑھنے کا چسکا تھا( ان دنوں ردی کاغذ کے لفافوں میں سودا سلف ملتا تھا۔ پلاسٹک بیگ کے طوفان سے دنیا محفوظ تھی)۔ پکوڑوں سموسوں کے کاغذ کی تحریر کا جو حصہ گھی/ تیل سے چپڑ جاتا اسے سورج یا بلب کی طرف کر کے پڑھ لیا کرتا تھا۔
ہاں تو میں خط کتابت کے ذریعے توریت زبور اور انجیل کے کورسز کر رہا تھا۔ اس دوران میں بائبل کے واقعات، احکام اور مسیح کی زندگی بارے بہت سے سوال لکھ بھیجتا تھا۔ مثلا ایک سوال تھا کہ باب خروج میں خداوند فرماتا ہے کہ تو مجسمہ نہ بنانا۔ تو مسیح اور مریم کے مجسمے کیوں بنائے جاتے ہیں؟ مسیحیت کے فرقوں کیتھولک، پروٹسٹنٹ اور آرتھوڈوکس بارے پوچھتا تھا۔ بہت سے سوال تقابل ادیان کے حوالے سے بھی ہوتے تھے اور ان کے جوابات یہ محترم حضرات نہایت تحمل اور سلیقے سے دیتے تھے ۔
تقابل ادیان سے یاد آیا کہ اس سے پہلے میں تقابل مسالک اسلام سے گذر چکا تھا اور ترجمہ و تفسیر کے ساتھ قرآن حکیم اور احادیث کی کچھ کتب مدرسے سے پڑھ چکا تھا ۔ امرتا پریتم، رضیہ بٹ اور احمد فراز کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی ، چودھری افضل حق اور احمد رضا بریلوی کو بھی پڑھتا تھا۔
بائبل کارسپانڈنس سکول سے مجھے مسیحیت اور یہودیت کی بابت گراں قدر معلومات ملیں۔ میں نے تمام 14 کورسز پاس کیے۔ ہر کورس کی تکمیل پر ایک دیدہ زیب سند ملتی۔ 9 کورسز کے بعد انجیل اور آخر میں مکمل بائبل ملی۔ یہیں سے میں اس عظیم ،قدیم اور نہایت اعلی نثر سے متعارف ہوا جسے عہد نامہ عتیق کہتے ہیں( ہائے وہ غزل الغزلات، زبور ، ایوب، خروج کا عظیم الشان اسلوب)۔ جس انگریز پادری نے بائبل کا اردو ترجمہ کیا ہے اس کو داد دینا ناممکن ہے۔ میں آج تک اس متن کے حسن کا اسیر ہوں اور گاہے گاہے پڑھتا رہتا ہوں۔
اگر جناب ڈینیل سردار اور یونتن مسیح تک یہ تحریر پہنچے تو ان کے صبر و تحمل، معاملہ فہمی اور الفاظ کے چناو کی داد ۔ ۔اور ہاں اپنے آخری خط کے لیے میں بے حد معذرت خواہ ہوں۔ شرمندگی اس لیے بھی زیادہ ہے کہ آپ نے اس سخت خط کا جواب بھی خندہ پیشانی سے دیا تھا۔
نظم نزول ِقرآن
نظم : ۔۔۔۔ ۔ نزول ِقرآن ۔۔۔۔۔۔۔ نظم نگار : سید فخرالدین بَلّے چار سو جلوۂ لَولَاکَ لَما رقص میں...