(Last Updated On: )
ہاشم ندیم کا ناول ‘بچپن کا دسمبر’ تو شاید آپ نے پڑھا ہی ہو تاہم اس تحریر میں میں اپنے بچپن کی کچھ ایسی انمٹ یادوں کو قلمبند کرنے جارہی ہوں کہ جن کا تعلق میرے بچپن کے ایک غیر معمولی موسمِ سرما سے ہے ۔
یہ بات غالباً 2003 یا پھر 2004 کی بات ہے۔۔۔۔ میں پانچویں جماعت کی طالبہ تھی ۔
اور تب تک ہم چک ہراج (فیروزپور) میں ہی رہا کرتے تھے ۔
یوں تو ہر موسم سرما ہی کشمیر، پنجاب، ہماچل اور اس کے علاؤہ شمال مشرقی ریاستوں میں خوب جم کے سردی پڑتی ہے لیکن اس سال موسم سرما میں سری غیر معمولی حد تک شدید تھی ۔۔۔ آئیندہ کئی سال بھی اس سردی کا ریکارڈ نہ ٹوٹ پایا ۔۔۔۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ متواتر 15 روز تک گہرے بادلوں کی وجہ سے ایک گھنٹے کے لیے بھی سورج نہ نکلا ۔۔۔ دھوپ کی مکمل عدم موجودگی میں درجہ حرارت گرتا ہی چلا گیا اور شاید ہی کسی دن درجہ حرارت 2,3 سے اوپر گیا ہو ۔
اور راتوں کو درجہ حرارت نقطہ انجماد کو بھی پہنچ جاتا تھا جس کا پتا ہمیں یوں چلتا تھا کہ پانی کے حمام کی سطح پر صبح برف کی ایک تہہ جمی ملتی تھی ۔
ان 15 میں سے کم از کم 8 ، 9 دن بارش ہوئی۔۔۔۔ موسم سرما کی بارش بھی ہلکی جھڑی کی صورت میں متواتر کئی گھنٹوں تک برستی ہے ۔
اور جب بارش رکتی تھی تو سرد، یخ بستہ ہوا چلنے لگتی تھی جس سے شدید سردی، شدید تر سردی میں بدل جاتی ۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ہمارے ہاں گیس نہیں ہوا کرتی تھی ۔۔۔ لکڑی ، ٹانڈوں اور گوبر کے اُپلوں کو ہی ایندھن کے طور پر جلایا جاتا تھا ۔
بجلی کا ہیٹر بھی تب کے اعتبار سے اچھا خاصا مہنگا ہوا کرتا تھا اس لیے ہیٹر کا تردد بھی نہ تھا ۔
گرمائش کا واحد ذریعہ کوئلوں کی انگیٹھی تھی ۔۔۔۔ جس کے لیے بھی ضروری تھا کہ ہر چند منٹ بعد لکڑی سے اس کے کوئلوں کو ہلا جلا کر راکھ جھاڑی جاتی رہے ورنہ بہت جلد بجھ جاتے تھے کوئلے ۔
ان دنوں میری تو موسمِ سرما کی تعطیلات چل رہی تھیں ۔۔۔۔ پاپا بھی اس دور میں سرکاری معلم تھے اس لیے انہیں بھی چھٹیاں تھیں ۔۔۔
مسلسل بارش کی وجہ سے بھینس اور گائیوں کو چرانے لے کر جانے والا بھی سین نہ تھا اور مویشیوں کو باڑے میں ہی بھوسہ اور کَھل ڈال دی جاتی تھی ۔۔۔۔ البتہ گاؤں کے وہ مویشی بان بہت مشکل میں تھے کہ جن کے پاس بھوسے ، کھل بنولے کا سٹاک موجود نہ تھا ۔۔۔ انہیں بڑی منتیں ترلے کرکے مستعار لینا پڑرہا تھا باقی گھروں سے ۔
پورا دن سورج کی رونمائی نہ ہونے کی وجہ سے شام کا سماں رہتا تھا اور شام ہوتے ہی جیسے رات کا ماحول بن جاتا تھا۔۔۔ یہ صورتحال بچوں کے لیے بیحد تکلیف دہ تھی ۔۔۔ کیونکہ آج کل تو بچوں کے پاس تفریح کے ہزار آپشنز ہوتے ہیں ۔۔۔ کارٹونز، گیمز، ٹی-وی ،کمپیوٹر ، موبائل پر اس دور میں ہمیں صرف ایک پرانا سا سونی ٹیلی ویژن ہی میسر تھا 1990 کی دہائی کا ۔۔۔ کیبل ، ڈش کا تو سین ہی نہیں تھا چار پانچ چینل آتے جن میں کوئی بھی کارٹون چینل نہ تھا ۔۔۔ کارٹون دن میں بس ایک آدھ گھنٹہ ہی لگتے تھے باقی وقت سخت بوریت ۔۔۔ بس چپ چاپ بستر میں دبکے رہو ۔۔۔ قیامت خیز سردی ، اور بارش کی وجہ سے گھر سے باہر نکلنا تو درکنار گھر کے صحن میں کھیلنا بھی محال تھا ۔
ہاں بچوں کو یہ ایڈوانٹیج حاصل تھا کہ آرام سکون سے صبح 9, 10 بجے جاگو ۔۔۔۔
ان دنوں میرے لیے تفریح کا واحد ذریعہ ایک ہرا طوطا تھا جو میں نے پال رکھا تھا ۔۔۔۔ یخ بستہ سردی کے ان نیم تاریک دنوں میں بس طوطے کے ساتھ کھیلنا ، اسے مونگ پھلی اور سیب کھلانا ہی میرا واحد مشغلہ تھا ۔
اس کے علاؤہ بس یہ کہ کچن میں جا کر آگ سے ہاتھ تاپتے رہنا ۔۔۔۔ کچن میں ان دنوں آگ پورے کا پورا دن ہی جلتی تھی ۔ چولہے پر گھی کا ایک پرانا خالی کنستر پڑا رہتا جس میں پانی گرم ہوتا رہتا تھا تاکہ پورا دن اسے نہانے دھونے ، برتنوں کی دھلائی وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاتا رہے ۔۔۔ کھانا پکانے کے وقت کنستر ہٹا کر ہانڈی اسی چولہے پے رکھ دی جاتی تھی ۔۔ دن بھر آگ جلنے کا فائدہ یہ تھا کہ کچن خوب گرم رہتا تھا ۔۔۔ وہ پرانا کچن ، محض کچن ہی نہیں بلکہ تین وقت کھانا بھی وہیں کھایا جاتا تھا زمین پر ، پٹ سن کی بوریوں پے بیٹھ کے۔۔۔اس سال شدید سردی کی وجہ سے وہاں کچھ چارپائیاں بھی رکھ دی گئیں تاکہ سردی کی شدت سے بچنے کے لیے ادھر “پناہ” لی جا سکے ۔
۔۔۔۔۔ یہ وہ موسمِ سرما تھا کہ جس نے مجھے چائے کا نشہ پڑوایا ۔۔۔۔ کیونکہ تب دن میں 3 کے بجائے 5 مرتبہ چائے بننے کا سلسلہ شروع ہوا ۔۔۔ بھینس کیونکہ اپنی تھی اور ہمہ وقت خالص دودھ میسر رہتا تھا اس لیے خوب چائے چلتی تھی ۔۔۔ ناشتے کے ساتھ چائے، دن کو کھانے کے بعد چائے ، سہہ پہر کو تِل کے مرنڈوں کے ساتھ چائے ، رات کو کھانے کے بعد چائے اور پھر ٹی-وی دیکھتے مونگ پھلی کھاتے ہوئے پھر سے چائے ۔۔۔
یہ سردی بہت تباہ کن تھی کیونکہ کہرے کے باعث بہت سی فصلیں تباہ ہوگئیں۔۔۔کچے مکانوں کو مسلسل بارش سے نقصان پہنچا ، کئی مقامات پر چھت گرنے کی خبریں آنے لگیں ۔۔۔ سردی اور بارش کے باعث لوگوں نے گھر سے نکلنا کام پے جانا چھوڑ دیا ۔
اور پھر عجیب و غریب افواہوں کا بازار گرم ہوگیا جس سے نیا خوف و ہراس پھیلنے لگا ۔۔۔ایسی افواہیں کہ مثلاً ” کچھ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سردی کی یہ لہر کئی ماہ تک چلے گی۔۔۔”
لیکن پھر 15 دن بعد سب نے پہلی مرتبہ سکون کا سانس لیا کہ جب سورج کو بادلوں کی گھونگھٹ کے پیچھے سے نمودار ہوتے دیکھا گیا ۔۔۔ دل تو چاہا کہ سورج کو جی بھر کے گالیاں سنائی جائیں کہ “اتنے دن کس ماں کے پاس تھے۔”
تو اس طرح میرے بچپن کی سب سے خوفناک سردیوں کی کہانی اختتام پذیر ہوئی۔۔۔۔