مشترکہ قدروں کو سادہ الفاظ میں کلچر کہا جاتا ہے۔اس طرح یہ کسی بھی نسلی گروہ کے طرز زندگی کو بناتا ہے اور آگے بڑھ کر مشترک طرزحیات کو تخلیق کرنے کا موجب بنتا ہے۔اپنی بناوٹ میں انسانی معلومات ، خوداعتمادی ، میعار اور برتاو کو ترتیب دیتاہے۔جو پھر انفرادی کردار ، اقدار، اخلاقیات، منزل اور رواج کے متعلق فرد کو چوکس رکھتاہے۔یہ خصوصیات کا ایسا مجموعہ ہے جو عقائد، سماجی اصولوں اور نسلی پس منظر کو متعلقہ خطے کی اشتراکی قدروں میں ڈھال دیتا ہے۔گویا کسی بھی خطے کی ترقی اور نظم و ظبط کو تشکیل دینے میں کلچر کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے۔لہزا اقدار ، اصول، عصبیت، سماجی اثر اور انسانی عمل وکردار کی بناوٹ کلچر کے موہون منت ہے۔گروہ کے عملی کردار سے ثقافتی میعار کا تعین ہوتا ہے اور پھر وہی معاشرہ ان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو ان ثقافتی روایات و عقائد اور عملی کردار کو باہم اشتراک سے قبولیت بخشتے ہیں۔ان رویوں، خیالات، اصولوں اور عمل کو جب ایک معاشرہ سانجھے داری میں لیتا ہے تو پھر اس کومیراث کے طورپر اپنی نسلوں میں منتقل کرتا رہتا ہے۔آج کے دور میں اچھا اور برا کلچر محلوں سے لیکر سرکاری محکموں اور تنظیموں کے اندر تک اپنی اپنی جڑیں پھیلاتا ہے جو یقیننا ان سے جڑے تمام لوگوں کے کردار کوتشکیل کرتا ہے ۔کلچر کے چند بنیادی عناصر ہوتے ہیں
1 اصول جوکہ عموما” غیر رسمی، بے تکلف اور غیر تحریر شدہ ہوتے ہیں مگر یہ پورے سماجی رویوں کو چلاتے ہیں۔
2 زبانیں
3 میلہ جات
4 رسومات اور تقریبات
5 فرست کے لمحات گزارنے کے طریقے
6 کھیل کود اور ان کے قوائد
7 خوراک اور اس کے پکانے کے طریقے
8 نئی و پرانی تعمیرات
کوئی بھی معاشرہ بغیر کلچر کے وجود ہی نہیں رکھتا کیونکہ خیالات کا مجموعہ ،اصول اور کردار کا عملی اظہار معاشرہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں جاری رکھتا ہے۔ثقافتی دن اور میلے قدیم دور سے متحرک قومیں مناتی چلی آرہی ہیں۔مثلا” جشن نوروز مارچ کے مہینے میں پورے فارسی بولنے والے ملکوں میں اکٹھا منایاجاتا ہے۔بیساکھی ( بسنت) کا میلہ اپریل کے مہینے میں فصل کی پکائی اور بدھ مزہبی پیشوا کے یوم پیدائش کو یکجا کرکے پورے برصغیر، تبت، تھائی لینڈ، چین،سری لنگاہ اور حتئ کہ منگولیہ وغیرہ تک میں سالانہ منایا جاتا ہے۔
پشتون کلچر ڈے 23 ستمبر کے دن اور سندھ کلچر ڈے ہرسال دسمبر کی پہلی اتوار کو منایا جاتا ہے۔اسی طرح پچھلے کئی سالوں سے ہرسال 2 مارچ کو بلوچ خطوں خصوصا” ایران ، افغانستان ، بلوچستان بشمول کراچی، جیکب آباد، راجن پور ،ڈیرہ غازی خان اور مشرق وسطئی میں ایک ہی دن منایا جاتا ہے۔ موجودہ پیچیدہ عالمگیریت کے دور میں ثقافتی جشن دوسرے ہم عصر تقافتوں کیلے وسعت کے دروازے کھولتے ہیں۔ یہ مشترکہ مقاصد اور ان کو حاصل کرنے کیلئے اتفاق پیدا کرتے ہیں۔رواج اور دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں آگاہی دیتے ہیں۔یہ اپنے اجداد کے عظیم ورثے اور روایات کو بیان کرنے کا مواقع فراہم کرتے ہیں۔اس دن بلوچ نوجوان اپنے کلچرل لباس کو زیب تن کرتے ہیں۔اور یوں اپنی آس پاس کی دنیا کو اپنے قیمتی ورثے سے روشناس کراتے ہیں۔اپنی خوداعتمادی کو 9,000 سال قدیم تہزیب مہرگڑھ کے آثار سے جوڑتے ہیں۔اس دن نوجوان بغیر کسی سماجی رتبوں کی تخصیص ، عقائد اور فکری تفریق کے مظاہروں اور موسیقی کے پروگرواموں میں شرکت کرتے ہیں۔ کالجوں ، اسکولوں، یونیورسٹیوں اور چوراہوں پر ڈھول کی تھاپ میں دوچاپی اور اتنڑ کا فوک رقص کرتے ہیں۔دیہاتوں اور قصبوں میں کھیل کے ٹورنامنٹس کرتے ہیں۔
ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور میں ہر ایک ضلع میں ایک ایک کھیل کے اسٹیڈیمز بنانے کے لئے رقم مختص کی گئ تھی اور ایک ایک ضلع کو بیس بیس لاکھ روپے کھیلوں کے فروغ کیلئے گرانٹس دی گئی تھیں۔ سنا ہے وہ گرانٹس آج بھی دی جارہی ہیں ، یہ اور بات ہے بلوچستان کے مشہور کھیلوں نشانہ بازی، فٹ بال اور اب کرکٹ کی کوئی باضابطہ سرکاری ٹیمیں کسی ایک ضلع میں بھی نہیں بن سکیں۔ ایک اور اہم کام ڈاکٹر کے دور میں ہوا تھا کہ بلوچستان کی تین اہم ادبی اکیڈمیوں بلوچی، براہوی اور پشتو کو علیحدہ علیحدہ ایک ایک کروڑ روپے کی گرانٹس دی گئی تھی۔ چند ترجموں کے علاوہ کوئی اچھی کتاب تو نہیں چھپ سکی الٹا ادیبوں اور لکھاروں کے جھگڑے زبان زد عام ہوگئے اسی طرح اس دور میں ہر ایک ضلع میں ایک ایک پبلک لائبریری بنانے کیلئے بجٹ رکھا گیا تھا ان میں کچھ عمارتیں بن بھی گئیں تھیں تاہم جب عملہ اور کتابوں کا وقت آیا تو اکیس دن کے شبانہ روز محنت کے نتیجے میں باپ پارٹی تیار کر کےاقتدار جمہوریت کے سر سے بال اتار دیے گئے، آگے کا حشر وہی ہونا تھا جو پچھلے پچہتر سالوں سے اس سرزمین کا مقدر بنا ہوا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں کنکرنٹ لسٹ ختم ہوگئی ہے اور سیاحت و ثقافت کے امور صوبوں کو منتقل بھی ہوگئے ہیں۔مگر ہنوز ان اداروں کے لیئے ملکیت اور لاحہ عمل نظر نہیں آرہا ہے۔ البتہ کرپشن کے ثمرات چالاک مرکز ی افسر شاہی سے نکل کر کم خواندہ اور حریص مقامی بابووں کے ہاتھ ضرورآ گئے ہیں ۔ دکھاوے کے لیئے آثارقدیمہ کے تحفظ ،نوادرات کی کلکشن کیلئے ایک ادارہ نوری خان نصیر کمپلیس کوئٹہ میں ضرور موجود ہے۔ محکمہ آرکیالوجی کے نام سے منسوب بلوچستان کی ویب سائٹ کے مطابق اب تک بلوچستان بھر میں 119 نایاب لوکیشنز کا ذکر موجود ہے۔ہمارے اندازے کے مطابق زمین پر ان جگاہوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔مسلہ یہ ہے کہ بلوچستان کو تلاش ہی نہیں کیاگیا ۔ دوسرا ایک ڈسپلے سنٹر بلوچستان اسٹڈی سنٹر کوئٹہ یونیورسٹی کے زیراہتمام قائم ہے جس کے پاس نادر چیزوں کی مناسب کھیپ موجود ہے ۔اس کے علاوہ تربت ، سبی اور گوادر میں بھی عجائب گھر کے نام سے عمارتیں منصوب ہیں کوئٹہ کے علاوہ کسی بھی مقام بشمول تربت کمپلیکس عملہ تعینات ہے اور ناہی قابل توجہ نوادرات موجود ہیں۔ہمارے نوجوان بلوچ کلچر ڈے کو تو منالیتے ہیں مگر اصل کام کی طرف توجہ کم دیتے ہیں ان کو چاہیئے کہ وہ آگے بڑھ کر نادر نوادرات جوکہ متعدد گھروں کے کباڑ خانوں اور ویرانوں میں پڑے ہیں ان کو اپنے نام سے ان اداروں کو عطیہ کریں۔اور اسی طرح پرانی نادر یادگاروں خصوصا” عمارتوں کو تباہی سے بچانے میں مددگار ثابت ہوں ایسی تمام اشیا کی اطلاع اسپینی روڈ نزد ایوب اسٹڈیًم نوری نصیر خان کمپلیکس میں واقع آرکیالوجی کے پاس جمع کرائیں۔ بتایا جاتا ہے کہ لگ بھگ 17000 آرٹیکلز یعنی قیمتی بلوچ ورثے کی نوادرات مرکزی حکومت اپنے دور میں کراچی لے گئی ہے۔اب جبکہ یہ اختیارات صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں تو صوبائی حکومت کو اتنے بڑے قومی ورثے کو واپس لانے کیلئےاقدامات اٹھانے چاہیئے۔مہر گڑھ کے آثار پر جب آتے ہیں تو ایک نئی مگر ورطہ حیرت میں ڈالنے والی دنیا سامنے آتی ہے۔یہ جگہ ضلع کچھی کے میدانی علاقے میں کوئی 2 مربع کلومیٹر پر محیط رقبے پر 7000 قبل مسیح کے انسانوں کی پہلی بستی کی روئیداد بتاتی ہے جو جنوبی ایشیا میں پروان چڑھی ہے۔اس کو دو مراحل 1974 اور پھر 1996 میں دریافت کیاگیا۔اب تک اس میں 32،000 قیمتی آرٹیکلز ملے ہیں۔ان آثار کو آرکیالوجی کی زبان میں Neolithic نیوتھلک یعنی پتھر کے آلات کے استعمال اور جانور و فصلات کو پالنے کے شروعات کے دور سے بتاتی ہے۔ یاد رہے مہنجو داڑو اور ہڑپہ کے قدیم آثار کی دریافت مہر گڑھ سے دوہزار سال جونیر ہیں ان ادوار میں انسان نے بالترتیب تانبے اور بعد میں لوہے کا استعمال سیکھ لیا تھا۔ماہرین کہتے ہیں یہی مہرگڑھ کی تہزیب آگے چل کر انڈس سولائشزیشن بنی۔جنانچہ بلوچ تہزیب کویہ اعزاز حاصل ہے کہ جنوبی ایشیا کی قدیم تہزیب نے یہاں سے جنم لیا ہے۔ دوسری طرف جب ہم اس سے بھی پیچھے یعنی ماقبل انسانی تاریخ بلوچستان کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ مشرقی بلوچستان میں سات کروڑ بیس لاکھ سال پہلے بارکھان کے مقام پر دلدلوں اور جنگلات میں مشہور وٹاکڑی، کھیتران، مری، سلیمان، بلوچستانی اور پاکستانی درندے سارس جن کی جسامت آٹھ میٹر لمبی اور چار میٹر اونچائی رکھنے والی عجیب مخلوق پائی جاتی تھی۔اسی طرح پانچ کروڑ سال قدیم حاملہ وہیل مچھلی کے فوسلز بھی بارکھان سے ہی ملے ہیں۔جبکہ تین کروڑ سال پرانا بلوچی تھیریم ( جانور) کے فوسلز ڈیرہ بگٹی میں ملے ہیں۔ یاد رہے فوسلز جانوروں کے پتھر نما وہ ڈھانچے ہیں جو مٹی تلے دب کر ثابت حالت میں زمین پر ملتے ہیں۔یہ ساری دریافتیں مہرگڑھ سے کڑوروں سال پرانی ہیں۔
نوجوانوں کو بلوچ دستار اور اعلئ کشیدہ کاری جیسے مظاہروں ، سجی، لاندی،کھڈی روسٹ اور قسم قسم کی مچھلی کی ڈشز کے لطف کے ساتھ ساتھ معدوم اور گرتے میعار کی موسیقی و ادب پر اپنی توجو مرکوز کرنی ہوگی ابھی ماضی قریب میں نصیرآباد، ڈیرہ بگٹی، خاران، کراچی اور مکران کے فنکاروں نے اس فن کو بلندیوں تک پہنچایا تھاحکومت کو چاہیئے کہ ڈاکٹر مالک کے وژن کے مطابق تربت کی طرز پر ہرایک ضلع میں ایک ایک کلچر سنٹر بنائے۔
سیاست اور وطن کے کلچر کا تحفظ ہر ایک بلوچ نوجوان کی ذمہ داری ہے۔کیونکہ بلوچ قوم ، ون یونٹ کے خاتمے سے لیکر کنکرنٹ لسٹ کی تحلیل اور اب موجودہ شورش تک تلوار،بندوق اور قلم سمیت سب کچھ لڑائی میں استعمال کرچکی ہے۔ وہ ساڑھے چھ لاکھ مربع کلومیٹر رقبے ( اسی ہزار افغانستان ، ایک لاکھ اسی ہزار ایران اور ساڑھے تین لاکھ صوبہ بلوچستان، راجن پور،جیکب آباد اور ڈیر غازیخان کے اٹھائیس ہزار مربع کلومیٹر ) کو ہزاروں سالوں بدنظر حملہ آور طاقتوں سے بچاتا آرہا ہے۔اس کے پاس کوئی مربوط حکومتی مرکز و انتظام بھی نہیں تھا۔اس نے قبائیلی، نیم قبائیلی نظام میں رہتے ہوئے صرف اور صرف کلچر کے ایک ہی بندھن خاص کر بلوچی میار سے اس کو تحفظ دیا ہےمگر اتنا کچھ قربان کرنے کے باوجود کتابوں میں ابھی تک حقائق کا عشرعشیر بھی اپنی جگہ نہیں پاسکا۔ کہتے ہیں انسان وہ اچھا ہے جو سب کا سوچتا ہے اور اسی طرح کلچر بھی وہ اچھا ہوتا ہے جو انسانی مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ نسلوں کی لاتعداد قربانیوں سے رنگنے کے بعد اب اس میں کوئی شک نہیں رہا ہے کہ بلوچستان بلوچوں کی سر زمین ہے اس میں رہنے والے تمام اقلیتی ثقافتوں کے امین جنہوں نے وقت کے تھپیڑوں سے گزر کر یہاں پناہ لی اور اپنا سب کچھ نچھاور کردیا وہ سب بھی اتنے ہی احترام کے قابل ہیں۔ اس معاشرے کے تمام اسٹیک ہولڈرز یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ بلوچ کلچر پھل پھول رہا ہے اور سب کیلئے رواداری اور مسابقت کے دروازے بھی کھلے رکھتا ہے۔
تنویر بخاری۔۔۔ پنجابی دا مینارہ نور
ساڈے اپنے عہد وچ اجہے شاعر تے قلمکار موجود نیں جہیڑے فکر تے فن دے اجہے چراغ روشن کرن لئی...