نقشہ پرسرخ اور پیلے رنگ کی بیلٹ جب نظر آتی ہے، اسے جیالوجی کی ٹرم میں ٹیتھئن میگمیٹک آرک کہتے ہیں اور اسے دنیا کی سب سے امیر آرک یا بیلٹ کہا جاتا ہے کیونکہ اس بیلٹ میں قدرت نے قیمتی معدنیات کےخزانے چھپا رکھے ہیں۔یہ بیلٹ چین سے پیچھے منگولیا، پاکستان، افغانستان اور یمن سے ہوتی ہوئی ایران کے راستے جنوب مشرقی یورپ تک جاتی ہے۔ سونا، تانبا اور دوسری قیمتی دھاتیں اسی بیلٹ پر موجود ہیں۔اس پس منظر میں ریکوڈک کا جب جائزہ لیاجاتا ہے۔تو سامنے آتاہے کہ1993میں بلوچستان کے وزیراعلی نصیر مینگل نے آسٹریلوی کمپنی بی ایچ پی کے ساتھ چاغی کے مقام پر 56 سالہ مائننگ کا ایک معاہدہ کیا جس کے تحت جو بھی مشترکہ سرمایہ کاری ہو گی تو اس میں بی ایچ پی کا شئیر 75 فیصد اور بلوچستان حکومت کا شئیر 25 فیصد ہوگا اور اسی حساب سے ریونیو کی تقسیم ہوگی۔ اگر بلوچستان حکومت سرمایہ کاری نہیں کرتی تو اسے مائننگ سے حاصل ہونے والی آمدن میں سے صرف 2 فیصد رائلٹی ملنا تھی۔اس وقت تک کسی کو اندازہ نہ تھا کہ چاغی کے علاقے ریکوڈک میں کیا رکھا ہوا ہے۔بی ایچ پی نے مائننگ کا لائسنس لے کر جب کان کنی شروع کی تو تھوڑی سی کھدائی کے بعد اسے خالص کاپر اور گولڈ کے جو ابتدائی آثار ملےاسے دیکھ کروہ حیران رہ گئے۔
بین الاقوامی معدنی مارکیٹ میں یہ خبر جب آئی تو بہت سی کمپنیوں نے دلچسپی لینا شروع کی ۔اس دوران ایک کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ نےچلی کی ایک کمپنی ٹیتھیان کےساتھ مل کر مشترکہ پروجیکٹ بنا کر بی ایچ پی سے ریکوڈک کا معاہدہ خرید لیا۔ یوں پھر 2008 میں ریکوڈک میں ایکسپلوریشن مکمل کرکے بیرک گولڈ نے اپنے پروپوزل کا مسودہ جمع کروایا جس کے تحت انہیں باقاعدہ لائسنس دے کر وہاں سے تانبے اور سونے سمیت تمام دھاتوں کو نکالنے کا اختیار مل جانا تھا۔بی ایچ پی کےساتھ 1993 کو ہوئے معاہدے اور بعد میں جو مزید شرائط شامل ہوئیں ان کےتحت بیرک گولڈ کی اس پروپوزل کا جواب بلوچستان حکومت نے ایک مہینے کے اندر اندر دینا تھا۔ انہی دنوں ثمر مبارک مند اورصوبائی حکومت سپریم کورٹ میں چلے گئے اور یوں یہ معاملہ عدالت تک پہنچ گیا۔
اس وقت کے چیف جسٹس چوہدری افتخار نےاس معاہدے کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے بلوچستان حکومت کو ہدایت دی کہ وہ اس پر جلد فیصلہ دے۔ اس تسلسل میں حکومت بلوچستان کی مائننگ کمیٹی نےتقریباً چھ سے بارہ ماہ میں فیصلہ کیا اور بیرک گولڈ کی تجاویز کو رد کردیا۔ ردعمل میں بیرک گولڈ نے اپیل دائر کی اور سپریم کورٹ نےاس اپیل کو بھی مسترد کردیا۔ بیرک گولڈ کو یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف میں اٹھانا تھا ،سو اس نے 2012 میں عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھایا۔ دسمبر 2012 میں عالمی عدالت نے ریکوڈک کے چودہ میں سے صرف اس کمپنی کو ان دو پاکٹس کا حقدار تسلیم کیا جن کی ایکسپلوریشن کی گئی تھی جبکہ باقی 12 پاکٹس پر پاکستان کا حق برقرار رکھا تاہم بیرک گولڈ کی اپیل منظور کرلی کیونکہ انہوں نے ڈھائی سو ملین ڈالرز کی انویسٹمنٹ کرکے ایکسپلوریشن مکمل کی تھی اور معاہدے کے تحت انہیں لائسنس جاری ہونا تھا۔یوں ہم عالمی عدالت میں یہ مقدمہ دسمبر 2012 میں ہارگئے۔البتہ جرمانے کا تعین کرنے کیلئے عالمی عدالت نے مزید وقت لینے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں بیرک گولڈ نے پاکستان پر 11 بلین ڈالرز کے ہرجانے کا دعوائی دائر کیا جو اکتوبر تک صادر ہوجاتا لیکن حکومت پاکستان نے لندن میں اپنی ٹیم کے ذریعے جواب داخل کیا جس پر مزید تین مہینے کی مہلت مل گئی۔ بالآخر 12 جولائی 2019 کو عالمی عدالت انصاف نے 11 بلین ڈالرز کی بجائے تقریباً 6 بلین ڈالرز کی ریکوری جرمانے سمیت منظور کرتے ہوئے پاکستان کو ہدایت کی کہ یہ رقم بیرک گولڈ کواداکرے۔ بیرک گولڈ کے اپنے تخمینے کے مطابق اگلے 30 برس میں اسےریکوڈک سے 240 سے 260 ارب ڈالرز کی آمدنی کی توقع تھی جبکہ پاکستان کے حصے سوائے 2 فیصد رائلٹی کےاور کچھ بھی نہیں آنا تھا۔ یہ 2 فیصد رائلٹی بھی خام مال پر تھی جبکہ بیرک گولڈ کا منافع خالص تیار پیداوار پر تھا۔ چنانچہ پاکستان کو سالانہ 10 سے 20 ملین ڈالر ہی آنا تھا اور بیرک گولڈ کو 8 سے 10 ارب ڈالرز کا منافع ہوتا۔ وال سٹریٹ جرنل کی چند سال قبل شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ریکوڈک سے حاصل ہونے والی معدنیات کا تخمینہ بیرک گولڈ نے کم بتایا تھا اصل میں یہ تخمینہ 400 سے 600 بلین ڈالرز ہے۔ایک امریکی رپورٹ کےمطابق یہاں ایک سے 3 ہزار بلین ڈالرز کی معدنیات موجود ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عالمی عدالت سے 6 ارب ڈالرز کا فیصلہ ملنے کے باوجود بیرک گولڈ کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی پاکستان کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں اور اگر انہیں لائسنس دے دیا جائے تو وہ ہرجانہ چھوڑ دیں گے۔ اب پھر حکومت پاکستان نے ایک نیا معاہدہ کر ڈالا ہے جس کے تحت 6 ارب ڈالر کا جرمانہ بھی معاف کروا دیا گیا ہے جبکہ منافع کی رقم بھی 25 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد حاصل کر لی ہے۔50 فیصد منافع پے ٹھیکہ دے دینا اور ساتھ جرمانہ بھی معاف کروا دینا ایک بہترین معاہدہ گردانا جارہا ہے۔جبکہ ناقدین کہتے ہیں اس طرح کے معاہدے ہمیشہ اداروں سے منسلک بلوچستان کے مصنوعی سیاستدانوں کو اقتدار میں لاکر کروائے جاتے رہے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم سے پہلے مرکزی حکومت ایسے فیصلوں سے صوبوں اور خاص کر بلوچستان حکومت کو اعتماد میں لائے بغیر دیتی رہی ہے۔ اب جبکہ معدنیات متعلقہ صوبائی اختیارکا سبجیکٹ ہے اور اس کا تعین بھی صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں ہے کہ وہ کس طرح اور کن شرائط پر اپنے قیمتی وسائل پر کام کرنا چاہتی ہے۔ایسے میں وفاقی حکومت پہلے تو سینڈک کا ماورائے دستور پندرہ سالہ تجدیدی معاہدہ کرچکی ہے۔ اور مزید اب 6 سو ارب ڈالر کی آمدنی والا ریکوڈیک کا خزانہ صرف 6 ارب ڈالر کے جرمانے کے عوض بیچنا چاہتی ہے۔یہ جرمانہ تو وفاقی حکومت کی نااہلی کے سبب ہوا ہے اور اس سے متعلق جرمانے کی ادائیگی بھی اسی کی ذمہ داری بنتی ہے جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ کسی ذمہ دار پر نااہلی اور مجرمانہ غفلت تک کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔ جس سے ثابت ہے کہ اونے پونے وسائل کو بیچنا وفاقی حکومت کا پرانا وطیرہ رہا ہے۔یہی حال سینڈک منصوبے کے اخراجات جوکہ چین کی کرنسی اور اپنی مارکیٹ ریٹ کے حساب سے آپریشنل اخراجات نکال کر چین خود اس بات کا تعین کرلیتا ہے کہ کتنا تانبا اور سونا نکلا ہے کیونکہ ریفائنری چین میں ہے اور وہ خود اس پر صوابدید رکھتے ہیں کہ سالانہ بیلنس شیٹ کیا دکھانی ہے۔اسی طرح سوئی کے مقام سے نکلنے والی چاروں فیلڈز سے گیس کو کنوئیں کے اوپر سے میٹرنگ کرنے کا کوئی میکینزم نہیں ہے۔گیس سپلائی کی کمپنیاں خودہی یکطرفہ طور پراس بات پر مختیارکل ہیں کہ وہ اس سال کتنی گیس نکال چکی ہیں اور کیا فناشل اسٹیٹمنٹ جاری کرنی ہے بلوچستان کا تیسرا بڑا منصوبہ گوادر پورٹ ہے جس کو عرف عام میں سی پیک کا نام دیا گیا۔چائنا نے اس میں اٹھانوے فی صد منافع اپنے پاس رکھ کر انوسٹمنٹ کیلئے تین سو سات منصوبے بنائے ان میں سے بلوچستان کے حصے میں صرف 8 منصوبے رکھے گئے جبکہ گوادرسمندری بندرگاہ کے منافع میں بلوچستان کو صفر منافع دیا گیاہے۔ بلوچستان حکومت اوراس کے خزانہ کا محکمہ کا کوئی نمائندہ سینڈک منصوبے، سوئی گیس کی سپلائی کی چیکنگ اور ناہی گوادر کے مالی معاملات پر اپنا کوئی طبعی عمل دخل رکھتا ہے اور ناہی کسی ٹیکنیکل اور فنانشل آڈٹ کا اختیار و رسائی اوردسترس کا ڈھانچہ وجود رکھتا ہے۔ اس خطے کو قدرت کی طرف سے حاصل منفرد جغرافیائی اہمیت کے باوجود غربت کی شرح 72 فی صد سے نیچے جا چکی ہے ۔ علاوہ ازیں بلوچستان دنیا کے غریب ترین صوبے کا توہین آمیز امتیازی مقام پہلے ہی حاصل کرچکا ہے۔ایسے میں قیمتی بلوچ وسائل کو اونے پونے بیچنا تباہی پھیلانے کے مترادف ہے اور مزید انتشار و مایوسیوں کا سبب بنے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں شفاف انتخاب کراکر صوبے کی حقیقی قیادت کو اس طرح کے منصوبوں پر فیصلہ کرنے کے اختیارات تفویض کردیئے جائیں۔ دیگر یہ بھی انتہائی اہم ہے کہ اتنے بڑے قومی وسائل کے معاہدوں کی جزوی اطلاع کی بجائے مفصل تفصیلات عوامی ہلکوں کے سامنے لائی جائیں۔
“حکومتی موقف کے کاپی شدہ حصہ کے ساتھ ساتھ حقیقی تجزیہ ؛
پنجابی دے اچ کوٹی شاعر، کھوج کار، پارکھ تے کہانی کار غلام مصطفیٰ بسمل
ہواواں جسم دے پنجرے 'چ کد تکّ قید رکھو گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پنجابی دے اچ کوٹی شاعر ، کھوج کار ،...