<div>بانگ درا علامہ اقبال کے اردو اشعار کا مجموعہ ہے جو ۱۹۲۴ء میں زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آیا۔ اس طرح امسال اس مجموعے نے اپنی طباعت و اشاعت کی ایک صدی کا سفر طے کر لیا۔ علامہ نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں بکثرت اشعار کہے تاہم ان کے فارسی اشعار کی تعداد اردو کے مقابلہ زیادہ ہے اور یہ اقبال کی خوش بختی ہے کہ ان کے اشعار کے زیادہ تر مجموعے ان کی زندگی میں ہی طباعت و اشاعت پذیر ہوئے جو حسب ذیل ہیں :</div> <div>فارسی اشعار کے مجموعے ۔۔اسرار خودی (۱۹۱۵ء)، رموز بے خودی (۱۹۱۷ء)، زبور عجم(۱۹۱۷ء)، پیام مشرق(۱۹۲۳ء)، پس چہ باید کرد(۱۹۳۱ء)، جاوید نامہ (۱۹۳۲ء)، مسافر(۱۹۳۶ء)، ارمغان حجاز ، اردو فارسی مجموعہ(۱۹۳۸ء علامہ کی وفات کے بعد)</div> <div>اردو شعری مجموعے۔۔بانگ درا(۱۹۲۴ء)، بال جبریل (۱۹۳۴ء)، ضرب کلیم(۱۹۳۶ء)</div> <div>اقبال کی فارسی دانی اور فارسی دوستی سے کسی کو انکار نہیںجس کا اعتراف انھوں نے خود بھی کیا ہے ؎</div> <div>گرچہ ہندی در عذوبت شکر استطرز گفتار دری شیریں تر است</div> <div>فکر من از جلوہ اش مسحور گشت خامۂ من شاخ نخل طور گشت</div> <div>پارسی از رفعت اندیشہ ام در خورد با فطرت اندیشہ ام</div> <div>اقبال کوبچپن میں رواج زمانہ کے مطابق ان کے والد جناب شیخ نور محمد نے داخل مکتب کیا اور آپ نے مولانا ابو عبد اللہ غلام حسن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ایک سال کے بعد آپ کو استاد میر حسن کے سپرد کر دیا گیا جن کی سر پرستی میں آپ کی عربی فارسی اور اردو تعلیم کی ابتدا ہوئی۔انھیں استاد کی معیت میں آپ اسکاچ مشن اسکول میں داخل ہوئے۔سید میر حسن حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ تمام اسلامی اور جدید علوم سے آشنا تھے۔ اس کے علاوہ انھیںادبیات ، معقولات ، لسانیات اور ریاضیات میں بھی مہارت حاصل تھی۔انھیں عربی فارسی اردو اور پنجابی کے بیشمار اشعار از بر تھے جن کا استعمال وہ شاگردوں کو سبق سمجھانے کے دوران فراوانی سے کیا کرتے تھے۔ انھیں استاد محترم کی ترغیب کی بدولت فارسی زبان و ادب میں اقبال کی دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔یہ کہناغلط نہ ہو گا کہ موصوف کی شخصیت سازی میں جن عناصر نے کلیدی کردار ادا کیا ان میں استاد سید حسن سر فہرست ہیں۔ پرائمری ، مڈل اور میٹرک کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد آپ نے انٹرمیڈئیٹ بھی اسکاچ مشن اسکول سے پاس کیا اور یہیں سے باقاعدہ آپ کی شعر گوئی کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ نے گریجویشن کے لئے مع وظیفہ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ یہاں آپ کی ملاقات عربی اسکالر ٹی ڈبلیو آرنالڈ سے ہوئی۔ اسی کالج سے ۱۸۹۹ء میں فلسفہ میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور یہیں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہوئے۔۱۹۰۵ء میں مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے انگلستان کا رخ کیااور کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔آپ نے کیمبرج اور میونخ یونیورسٹی سے فلسفہ کی اعلیٰ ترین ڈگریاں حاصل کیں اورپی ایچ ڈی کے لئے مقالے کا عنوان ’ایران میں ما بعد الطبیعات کا ارتقاء ‘ منتخب کیا۔آپ نے لندن سے بیرسٹری کا امتحان بھی پاس کیا۔ وطن واپس آکر گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہوئے اور ساتھ میں وکالت بھی کرتے رہے۔کچھ عرصہ بعد معلمی ترک کی اور وکالت کو اپنا مستقل پیشہ بنا لیا۔ ایک چھوٹے سے وقفہ کے بعد آپ کا قومی و ملی نظمیں کہنے کا سلسلہ شروع ہوا اور چہار سو ان کی شہرت کا باعث بنا۔۱۹۱۰ء میں آپ کی فارسی مثنوی اسرار خودی شائع ہوئی اور تین سال کے بعد رموز بے خودی منظر عام پر آتی ہے۔ اس طرح اقبال کی فارسی اور اردو شاعری کے جتنے ابعاد پر گفتگو کی جاتی ہے اس کے محرکات انھیں عوامل مذکورہ میں پوشیدہ ہیں۔فارسی ادب کے عمیق مطالعہ کے سبب فارسی شاعری کی روایات ، فارسی اسلوب اور اس کی جمالیاتی کیفیات یعنی آرائش زبان و بیان، استعاراتی نظام، دلکش پیرایہ اظہار، بلندی تخیل ، معنی آفرینی و حظ و انبساط رسانی وغیرہ کا نفوذ ان کی اردو شاعری پر بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔</div> <div>اقبال نے بہت کم عمر میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔۱۸۹۰ء کے ایک طرحی مشاعرے میں اس شعر کو پڑھ کر آپ نے اس وقت کے جید شعرا کو حیرت میں ڈال دیا تھا ؎</div> <div>موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لئے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے</div> <div>شعر میں شان کریمی اور عرق انفعال سے شعر کی پختگی اور عربی اور فارسی سے آپ کی واقفیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔اس کے بعد آپ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں باقاعدہ شرکت کرنے لگے۔۱۹۰۰ء میں انجمن کے ایک جلسے میں آپ نے نظم ’نالہ ٔ یتیم ‘ پڑھی ۔اس نظم کے سوز وگداز نے مجمع کو اتنا متأثر کیا کہ ہر طرف سے یتیموں کے لئے امداد کے در وا ہو گئے۔۱۹۰۱ء میں جب رسالہ محزن کا اجرا عمل میں آیا تو اس میں آپ کی نظم ہمالہ شائع ہوئی۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال تواتر سے اردو میں شعر کہہ رہے تھے مگر اردو کلام کا مجموعہ بہت بعد میں شائع ہوا جب کہ فارسی مجموعے اسرار خودی ، رموز بے خودی ، زبور عجم ، پیام مشرق وغیرہ بانگ درا سے قبل منظر عام پر آ گئے۔پیام مشرق ۱۹۲۳ء میں تو ۱۹۲۴ء میں بانگ درا شائع ہوئی۔اس طرح فارسی اور اردو دونوں مجموعوں کی اشاعت میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے اور دونوں طباعت اور اشاعت کے مراحل سے تقریباً ایک ساتھ گذر رہے تھے۔اردو مجموعہ کا نام بانگ درا بھی فارسی مجموعوں کی طرح فارسی ترکیب پر مبنی ہیں۔بانگ درا کی نظموں کے عنوان بھی اسی قسم کے ہیں مثلاً گل رنگیں، عہد طفلی، ابر کوہسار، خفتگان خاک سے استفسار، گل پژمردہ ، طفل شیر خوار، تصویر آدم ، سرگذشت آدم ، ترانۂ ہندی، حقیقت حسن، اختر صبح، نوائے غم ، عشرت امروز ، جلوۂ حسن ، گورستان شاہی ، بزم انجم ، جواب شکوہ ، شعاع آفتاب ، خضر راہ اور طلوع اسلام وغیرہ۔ پیام مشرق کے عنوانات پر نگاہ ڈالیں تو وہ اس طرح ہیں ۔۔لالۂ طور ، ہلال عید ، گل نخستین ، انکار ابلیس ، تسخیر فطرت ، صبح قیامت ، نوای وقت ، فصل بہار وغیرہ۔ ان دونوں کے عنوانات میں کافی مماثلت نظر آتی ہے۔ بانگ درا میں اقبال کی فارسی سے رغبت کا ایک اور نمونہ اس شکل میں ظاہر ہوتا ہے کہ کبھی پوری نظم ، کبھی نظم کا پورا بند اور کبھی ایک پورا شعر اور کبھی ایک مصرعہ فارسی میں کہا ہے مثلاً فروری ۱۹۱۲ء میں کہی گئی درج ذیل فارسی نظم ’ شمع اور شاعر ‘ بانگ درا میں موجود ہے ؎</div> <div>دوش می گفتم بہ شمع منزل ویران خویش گیسوئے تو ا زپر پروانہ دارد شانہ اے</div> <div>در جہاں مثل چراغ لالۂ صحراستمنے نصیب محفلے نے قسمت کاشانہ اے</div> <div>مدتے مانند تو من ہم نفس سوختم در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے</div> <div>می تپد صد جلوہ در جان امل فرسود من بر نمی خیزد ازین محفل دل دیوانہ اے</div> <div>از کجا این آتش عالم فروز اندوختی کرمک بے مایہ را سوز کلیم آموختی</div> <div>بانگ درا میں درج ’طلوع اسلام‘نو بندوں پر مشتمل ایک طویل نظم ہے۔اس کے ہر بند میں آٹھ شعر ہیں۔ اس کا نواں بند پورا فارسی میں ہے اوراس پر طرہ یہ کہ آخر میں حافظ ؔ کا ایک معنی خیز شعر پیوست کر دیا ہے جس کا لطف پورے بند کی قرأت سے اٹھایا جا سکتا ہے ؎</div> <div>بیا ساقی نواے مرغ زار از شاخسار آمد بہار آمد نگار آمد، نگار آمد قرار آمد</div> <div>کشید ابر بہاری خیمہ اندر وادی و صحرا صداے آبشاراں از فراز کوہسار آمد</div> <div>سرت گردم تو ہم قانون پیشیں ساز دہ ساقی کہ خیل نغمہ پردازاں قطار اندر قطار آمد</div> <div>کنار از زاہداں بر گیر و بے باکانہ ساغر کش پس از مدت ازیں شاخ کہن بانگ ہزار آمد</div> <div>بہ مشتاقاں حدیث خواجۂ ؐبدر و حنین آور تصرف ہاے پنہانش بچشم آشکار آمد</div> <div>دگر شاخ خلیل ؑ از خون ما نمناک می گرددببازار محبت نقد ما کامل عیار آمد</div> <div>سر خاک شہیدے برگ ہاے لالہ می پاشم کہ خونش با نہال ملت ما سازگار آمد</div> <div>’’بیا تا گل بیفشانیم و مے در ساغر اندازیم فلک را سقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم‘‘ (حافظؔ)</div> <div>اسی نظم کے پانچویں اور آٹھویں بند کا آخری شعر فارسی میں کہا گیاہے ۔ ملاحظہ فرمائیں ؎</div> <div>چہ باید مرد را طبع بلندے ، مشرب نابے دل گرمے نگاہ پاک بینے ، جان بیتابے(اقبال)</div> <div>************************</div> <div>بیا پیدا خریدار ست جان ناتوانے را پس از مدت گذار افتاد بر ما کاروانے را(اقبال)</div> <div>نظم دل کا پورا مصرعہ فارسی میں حاضر خدمت ہے ؎</div> <div>قصہ ٔ دار و رسن بازیٔ طفلانۂ دلالتجائے ارِنی سرخی افسانۂ دل</div> <div>نظم’ گل پژمردہ ‘میں مثنوی معنوی مولانا روم کے پہلے شعر ؎</div> <div>بشنو از نے چون حکایت می کند وز جدائی ہا شکایت می کند</div> <div>میں ترمیم و اضافہ کرتے ہو ئے کہتے ہیں کہ میں بانسری کی طرح نرکل کے جنگل کی داستان بیان کر رہا ہوں ۔اے گل ! تو سن لے کہ میں اپنی اصل سے جدا ہونے کی شکایت کر رہا ہوں ؎</div> <div>ہمچو نے از نیستان خود حکایت می کنم بشنو اے گل ! از جدائی ہا شکایت می کنم</div> <div>نظم تصویر درد میں بیدل اور نظیری کے اشعار پیوست کر دئے ہیں ؎</div> <div>درین حسرت سرا عمریست افسون جرس دارمز فیض دل تپیدن ہا خروش بے نفس دارم (بیدل)</div> <div>نمی گردید کوتہ رشتۂ معنی رہا کردم حکایت بود بے پایان بخاموشی ادا کردم (نظیری)</div> <div>’نالۂ فراق ‘میں اس تجربہ نے ایک دوسری شکل اختیار کر لی۔یہاں اقبال نے بیدل کے اشعار، اپنا فارسی شعر اور اس کے ساتھ امیر مینائی کا اردو شعر چسپاں کر دیا ہے ؎</div> <div>تا ز آغوش وداعش داغ حیرت چیدہ است ہمچو شمع کشتہ در چشمم نگہ خوابیدہ است (بیدل)</div> <div>شور لیلیٰ کو‘ کہ باز آرائش سودا کند خاک مجنون را غبار خاطر صحرا کند (بیدل)</div> <div>ابر رحمت دامن از گلزار من بر چید و رفتاندکی بر غنچہ ہا ے آرزو بارید و رفت (اقبال)</div> <div>تاب گویائی نہیں رکھتا دہن تصویر کا خامشی کہتے ہیں جس کو ’ہے سخن تصویر کا‘ (امیر مینائی)</div> <div>اقبال اور دوسرے شعرا کے فارسی اشعار کی ایسی ہی متعدد مثالیں بانگ درا کی دیگر نظموں سے پیش نظر ہیں ؎</div> <div>تپش ز شعلہ گرفتندو بر دل تو زدندچہ برق جلوہ بخاشاک حاصل تو زدند(اقبال، نظم بلالؓ)</div> <div>اگر سیاہ دلم ، داغ لالہ زار تو ام وگر کشادہ جبینم ، گل بہار تو ام(اقبال ، التجائے مسافر )</div> <div>از نفس در سینۂ خوں گشتہ نشتر داشتم زیر خاموشی نہاں غوغائے محشر داشتم (اقبال، وصال)</div> <div>یک نظر کردی و آداب فنا آموختیاے خنک روزے کہ خاشاک مرا وا سوختی(اقبال، وصال)</div> <div>در غم دیگر بسوز و دیگران را ہم بسوز گفتمت روشن حدیثے گر توانی دار گوش (اقبال، شمع)</div> <div>خود گدازینم کیفیت صہبایش بود خالی از خویش شدن صورت مینایش بود (اقبال ، جواب شکوہ)</div> <div>تو مرغ سرائی ، خورش از خاک بجوئیما در صدد دانہ بہ انجم زدہ منقار (اقبال ، ایک مکالمہ)</div> <div>قوی شدیم ، چہ شد، ناتواں شدیم چہ شد؟ چنین شدیم ، چہ شد یا چناں شدیم ، چہ شد؟ (اقبال ، میں اور تو)</div> <div>بہ ہیچ گونہ درین گلستان قرار ے نیست تو گر بہار شدی ، ما خزاں شدیم ، چہ شد؟ (اقبال ، میں اور تو)</div> <div>رفتم کہ خار از پا کشم، محمل نہاں شد از نظر یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد(اقبال، مسلمان اور تعلیم جدید)</div> <div>ہر چہ در دل گزرد وقف زباں دارد شمع سوختن نیست خیالے کہ نہاں دارد شمع (بیدل، نظم ’عبد القادر کے نام)</div> <div>عاقبت منزل ما وادی خاموشان استحالیہ غلغلہ در گنبد افلاک انداز(حافظ، نظم ’نصیحت)</div> <div>غنیؔ روز سیاہ پیر کنعان را تماشہ کن کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را (غنی ؔ ، خطاب بہ جوانان اسلام)</div> <div>سماں ’الفقرُ فخری‘ کارہا شان عمارت ’بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را‘ (مصرعہ حافظ)</div> <div>نظم’ قرب سلطان ‘ دس اشعار پر مبنی ہے اور اس کے چار اشعار ایسے ہیں جن کا دوسرا مصرعہ حافظ ؔ کا ہے اور آخر میں پورا شعر ہی حافظ ؔ کا چسپاں ہے ؎</div> <div>جہاں میں خواجہ پرستی ہے بندگی کا کمالرضائے خواجہ طلب کن قبائے رنگین پوش (اقبال)</div> <div>مزا تو یہ ہے کہ یوں زیر آسماں رہیےہزار گونہ سخن در دہان و لب خاموش (حافظ)</div> <div>یہی اصول ہے سرمایۂ سکون حیاتگدائے گوشہ نشینی تو حافظاؔ مخروش (حافظ)</div> <div>مگر خروش پہ مائل ہے تو تو بسم اللہ بگیر بادۂ صافی ، ببانگ چنگ بنوش (حافظ)</div> <div>محل نور تجلی ست راے انور شاہچو قرب او طلبی در صفاے نیت کوش (حافظ)</div> <div>نظم ’ ارتقا‘میں سات اشعار ہیں جن میں فارسی ترکیبیں بکثرت موجود ہیں ۔اس میں دو شعر فارسی کے اور آخری شعر فرح اللہ شوستری کا پرویا گیا ہے ۔ملاحظہ ہو ؎</div> <div>سکوت شام ’سے‘ تا نغمۂ سحر گاہیہزار مرحلہ ہائے فغان نیم شبی (اقبال)</div> <div>کشاکش زم و گرما ، تپ و تراش و خراش ز خاک تیرہ دروں تا بہ شیشہ حلبی(اقبال)</div> <div>مقام بست و شکست و فشار و سوز کشید میان قطرۂ نیساں و آتش عنبی (اقبال)</div> <div>مغاں کہ دانۂ انگور آب می سازند ستارہ می شکنند ، آفتاب می سازند(فرح اللہ شوستری)</div> <div>اس کے علاوہ بھی سعدی ، عرفی ، حافظ و دیگر فارسی شعرا کے اشعار حسب ضرورت انتہائی فراوانی سے استعمال کئے ہیں ؎</div> <div>نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابیحدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں یابی(نظم عرفی، شعر عرفی)</div> <div>گرت ہواست کہ با خضر ہم نشیں باشی نہاں ز چشم سکندر چو آب حیوان باشی(حافظ،ایک خط کے جواب میں)</div> <div>خرما نتواں یافت ازاں خار کہ کِشتیمدیبا نتواں بافت ازاں پشم کہ رشتیم(فردوس میں مکالمہ)</div> <div>شہپر زاغ و زغن در بند قیدو صید نیستاین سعادت قسمت شہباز و شاہیں کردہ اند (حافظ، اسیری)</div> <div>مرا از شکستن چنان عار (عمادی درد) ناید کہ از دیگراں (ناکساں) خواستن مومیائی (عمادی، دریوزۂ خلافت)</div> <div>نظم’ دنیائے اسلام‘ میں اقبال ایک اور نیا تجربہ کرتے ہیں اور رومی کے شعر کو از روئے پند بروئے کار لاتے ہیں اور مزید اشعار فارسی میں خود کہتے ہیں ؎</div> <div>گفت رومی’’ہر بنائے کہنہ کہ ا ٓباداں کنند می ندانی ’’اول آن بنیاد را ویراں کنند</div> <div>اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش اے گرفتار ابو بکر ؓ و علیؓ ہشیار باش</div> <div>مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار ہر زماں پیش نظر ’لا یخلف المیعاد ‘دار</div> <div>چہ باید مرد را طبع بلندے ، مشرب نابے دل گرمے، نگاہ پاک بینے، جان بیتابے</div> <div> بانگ درا میں انیسی شاملو ، ملا عرشی ، میر رضی دانش ، ابو طالب کلیم ہمدانی، صائب تبریزی ، ملک قمی ، بیدل ، فیضی وغیرہ فارسی شعرا کے اشعار پر کہی گئی تضمینیں بھی شامل ہیں ؎</div> <div>با ہر کمال اندکے آشفتگی خوش است ہر چند عقل کل شدہ ای بے جنون مباش (بیدل)</div> <div>ہمان بہتر کہ لیلیٰ در بیاباں جلوہ گر باشدندارد تنگناے شہر تاب حسن صحرائی (صائب)</div> <div>تو اے پروانہ ! این گرمی ز شمع محفلے داری چو من در آتش خود سوز اگر سوز دلے داری (فیضی)</div> <div>سر کشی با ہر کہ کردی ، رام او باید شدن شعلہ ساں از ہر کجا برخاستی ، آنجا نشیں (ابو طالب کلیم)</div> <div>رفتم کہ خار ازپا کشم ، محمل نہاں شد از نظریک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دور شد (ملک قمی)</div> <div>شمع خود را می گدازد درمیان انجمن نور ما چون آتش سنگ از نظر پنہاں خوش است (میر رضی دانش)</div> <div>وفا آموختی از ما ، بکار دیگراں کردیربودی گوہرے از ما نثار دیگراں کردی (انیسی شاملو)</div> <div>اتنا ہی نہیں اپنے ہم زمانہ اکبر الہ آبادی کو یاد کرتے ہوئے عربی فقرے بھی اپنے شعر میں انتہائی مہارت سے پیوست کر دیتے ہیں جو توجہ طلب ہیں ؎</div> <div>اے مسلماں ہر گھڑی پیش نظر آیۂ ’لا یخلف المیعاد‘ رکھ</div> <div>یہ لسان العصر کا پیغام ہے اِنّ وعد اللہِ حق یاد رکھ</div> <div>حکمت و تدبیر سے یہ فتنۂ آشوب خیز ٹل نہیں سکتا وَقَد کنتم بِہِ تستعجلون</div> <div>کھل گئے یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرف ِ ینسلون</div> <div>حکم حق ہے لیسَ للانسانِ الا ما سعیٰکھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار</div> <div>اسی ضمن میںاب بانگ درا میں استعمال کی گئی فارسی تراکیب پر نگاہ ڈالتے ہیں۔اس مجموعہ میں درج پہلی نظم ہمالہ ہے جو ۱۹۰۱ء میں رسالہ مخزن میں شائع ہوئی تھی ۔اس کا انداز ملاحظہ ہو ؎</div> <div>مطلعِ اول فلک ہو جس کا وہ دیواں ہے توسوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تو</div> <div>برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کلاہِ مہر عالم تاب پر</div> <div>مطلع اول ، خلوت گاہ دل ، دامن کش انساں،دستار فضیلت ، کلاہ مہر عالم تاب ، ایسی ہی ترکیبوں سے بانگ درا کی نظمیں اور غزلیں جا بجا مزین ہیں اور مفہوم کو واضح کرنے کے لئے اقبال نے عرفی ، بیدل اور غالب کی طرح نئی تراکیب بھی وضع کر لیں۔ ہمالہ آٹھ بندوں پر مشتمل نظم ہے اور ان بندوں میں استعمال کی گئی فارسی تراکیب پیش نظر ہیں ؎</div> <div>فصیل کشور ہندوستاں، گردش شام و سحر، کلیم طور سینا، چشم بینا، امتحان دیدۂ ظاہر، دیوار ہندوستاں، دامن کش انساں، عمر رفتہ ، عہد</div> <div> کہن ، سرگرم سخن ، پہنائے فلک ، چشمۂ دامن، آئینۂ سیال، دامن موج ہوا،رہوار ہوا، برق سر کہسار ، دست قدرت، فرط طرب ، فیل بے زنجیر، جنبش موج نسیم صبح ، نشہّ ہستی ، زبان برگ ، دست گل چیں ، کنج خلوت خانۂ قدرت، فراز کوہ، شاہد قدرت ، سنگ رہ ، عراق دل نشین ، لیلی شب، زلف رسا، رنگ شفق، مسکن آبائے انساں ، غازۂ رنگ تکلف وغیرہ ۔</div> <div>دوسری نظم گل رنگیں میں چار بند ہیں اور اس میں مستعمل فارسی ترکیبیں اس طرح ہیں ۔۔شناسائے خراش عقدۂ مشکل، گل رنگیں ، زیب محفل، شریک شورش محفل، بزم ہستی، سوز و ساز آرزو، بے گداز آرزو، نگاہ چشم صورت بیں، دست جفا جو ، دیدۂ حکمت، دیدۂ بلبل، برگ ریاض طور، زخمی شمشیر جستجو، سامان جمعیت، چراغ خانۂ حکمت، سرمایۂ قوت، رشک جام جم، آئینۂ حیرت، تلاش متصل، شمع جہان افروز، توسن ادراک وغیرہ۔</div> <div>ان کے علاوہ بانگ درا میں شامل اشعار کی فارسی تراکیب کی چند دیگر مثالیں بھی توجہ طلب ہیں۔۔شیرازہ بند ِ دفتر ِ کون و مکاں، یزدانِ ساکنانِ نشیب و فراز، گل فروشِ اشکِ شفق گوں، اصلِ کشاکش من و تو، آہنگ طبع ناظم کون و مکاں، ظہور جلوۂ ذوق شعور، زبان شاعر رنگین بیان، آتش زن طلسم اعجاز، برق دیدۂ خفاش، انجم کم ضو،گرفتار طلسم ماہتاب، گرمیِ گفتار ِ اعضای مجالس، ممنون سیر عرضۂ ہستی، منت کش تاب شنیدن، جولان گہ اطلس قبایانِ تتاری، ہمنشین خفتگان کنج تنہائی، جوش عاشق حسن قدیم وغیرہ۔</div> <div>بانگ درا میں درج اقبال کے اشعار کی بابت جو رائیں قائم کی گئیں ان کا اظہار اقبال نے پیام مشرق کے ان اشعار میں خود کیا ہے ؎</div> <div>آشناے من زمن بیگانہ رفت از خمستانم تہی پیمانہ رفت</div> <div>من شکوہ خسروی اورا دہم تخت کسریٰ زیر پاے او نہم</div> <div>او حدیث دلبری خواہد زمن رنگ و آب شاعری خواہد زمن</div> <div>برگ گل رنگین ز مضمون من است مصرع من قطرۂ خون من است</div> <div>بانگ درا کی ابتدائی نظموں میں اقبال نے مناظر قدرت کے عمدہ نمونے پیش کئے ہیں جن میں فارسی سبک خراسانی کا اثر نمایاں ہے ۔ مناظر قدرت و مظاہر فطرت اور پند و نصائح اس سبک کا خاصہ ہیں ۔ اقبال کی نظمیں ہمالہ ، گل رنگیں، آفتاب صبح وغیرہ میں یہ رنگ صاف نظر آتاہے۔ نظم ایک آرزو کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎</div> <div>صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوںندّی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو</div> <div>ہو دل فریب ایسا کہسار کا نظارہ پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کر دیکھتا ہو</div> <div>آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو</div> <div>پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو</div> <div>فارسی شاعر منوچہری کے قصیدے کی ابتدا دیکھئے ؎</div> <div>نو بہار آمد و آورد گل و یاسمناباغ ہمچون تبت و راغ بسان عدنا</div> <div>بوستان گوئی ہمچون بت فرخار شدہ استمرغکان چون شمن و بچگان چون وثنا</div> <div>کبک ناقوس زن و شارک سنتور زن استفاختہ نای زن و بط شدہ طنبور زنا</div> <div>بانگ درا کی شروعاتی دور کی نظموں پر وطن پروری کا جذبہ غالب نظر آتا ہے جیسے ہمالہ، ترانہ ہندی ، نیا شوالہ وغیرہ ۔ ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ کہتے وقت اقبال کے ذہن میں فارسی کا یہ شعر ضرور رہا ہوگا ؎</div> <div>بسی رنج بردم درین سال سی عجم زندہ کردم بدین پارسی</div> <div>پھر وہ ہندو مسلمان کے درمیان پنپتی منافرت اور اختلاف سے آزردہ خاطر ہو کر کہہ اٹھتے ہیں ؎</div> <div>سرزمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے وصل کیسا؟ یاں تو اک قرب فراق آمیز ہے</div> <div> ۱۹۰۸ء کے بعد سے اقبال قومیت سے آفاقیت کی جانب قدم بڑھاتے ہیںتو یقیناً سعدی کا یہ شعر ان کے پیش نظر رہا ہوگا ؎</div> <div>بنی آدم اعضاے یکدیگر ند کہ در آفرینش ز یک گوہرند</div> <div>اسی طرح جب وہ بچوں کے لئے آسان سیدھی سادی زبان میں سبق آموز نظمیں لکھتے ہیں تو ایک بار پھر سعدی کا رنگ ان کے ہاں نظر آتا ہے ۔ مثلاًنظم ہمدردی کا یہ شعر ؎</div> <div>ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے</div> <div>اب سعدی کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں ؎</div> <div>با بداں بد باش و با نیکاں نکوجائے گل ، گل باش و جائے خار خار</div> <div>نظم ’ایک پہاڑ اور گلہری‘ میں پہاڑ گلہری کی تذلیل ’ذرا سی چیز ہے ، اس پر غرور، کیا کہنا ‘ جیسے فقرے سے کرتا ہے تو یہی خیال آپ کو ناصر خسرو کے اس شعر میں مل جائے گا ؎</div> <div>نکوہش مکن چرخ نیلوفری رابرون کن ز سر بادو خیرہ سری را</div> <div>بہ چہرہ شدن چون پری توانیبہ افعال مانندہ شو مر پری را</div> <div>یعنی آسمان کی نکوہش کرنے کی بجائے اپنے سر سے غرور کا خناس نکال دو۔پری جیسا خوبصورت چہرہ رکھنا کمال نہیں ، اپنے افعال کو پری جیسا خوبصورت بنائو۔یہ وہی افعال ہیں جن کی تلقین اقبال نے سراسر اپنے کلام میں ’مسلم خوابیدہ اٹھ ، ہنگامہ آرا تو بھی ہو‘ کہہ کر کی۔</div> <div>اقبال کی وہ نظمیں جن میں وہ ہندوستان کے مذہبی رہنمائوں رام چندرا جی، گوتم بدھ ، رام تیرتھ، گرو نانک و دیگر مشاہیر عالم کا ذکر کرتے ہیں انھیں پڑھ کردفعتاً عجم کو زندہ کرتافردوسی کا شاہنامہ نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ بانگ درا میں تصوف کے رنگ میں ڈوبے وحدت الوجود کے مظاہر اور سوز وگداز سے بھرپور نظمیں بھی موجود ہیں جو خسرو، رومی اور سنائی کی یاد دلاتی ہیں۔ملاحظہ فرمائیں ؎</div> <div>من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدیتا کس نگوید بعد ازین من دیگرم تو دیگری (خسرو)</div> <div>در راہ قلندری زیان سود تو شدزہد و ورع و سجادہ مردود تو شد</div> <div>دشنام سرود و رود مقصود تو شد بپرست پیالہ را کہ معبود تو شد (سنایی)</div> <div>دل من چون قلم اندر کف تست ز تست ار شادماں و گر حزینیم</div> <div>بجز آنچہ تو خواہی من چہ خواہم بجز آنچہ نمائی من چہ بینم (رومی)</div> <div>یک بیں تری نظر صفت عاشقان رازمیری نگاہ مایۂ آشوب امتیاز</div> <div>میں حسن ہوں کہ عشق سراپا گداز ہوں ای شمع! میں اسیر فریب نگاہ ہوں (نظم شمع ، اقبال)</div> <div>’اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے‘غالبؔ کا قول سچ ہے تو پھر ذکر غیر کیا (اقبال)</div> <div>بانگ درا میں موجود اقبال کے گہرے غم و اندوہ، شدید رنج و الم کا احساس اور سوز و گداز کا اظہار بھی فارسی کے ان شعرا کے کلام میں موجود ہے جن سے اقبال متأثر ہوئے مثلاًفردوسی کہتا ہے ؎</div> <div>بسی پادشاہان گردن فراز کہ رفتند ازینجا بسوز وگداز (فردوسی)</div> <div>چو شمع سحر گاہ دل سوختہ ہر شب بی روے تو در سوز و گداز است چہ گویم (عطار)</div> <div>ای مجلسیان سوز دل حافظ مسکیناز شمع بپرسید کہ در سوز و گداز است (حافظ)</div> <div>اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالےتاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو</div> <div>ہر درد مند دل کو رونا مرا رلا دے بیہوش جو پڑے ہیں ، شاید انھیں جگا دے (اقبال ، نظم ایک آرزو)</div> <div>فارسی ادب اخلاقی مضامین اور پند و نصائح سے مملوہے جن میں محاورات اور روز مرہ سے خوب خوب کام لیا گیا ۔کوشش یہ کی گئی کہ سادہ طور پر کار آمد مضامین باندھے جائیں ۔حافظ کا یہ شعر دیکھیں ؎</div> <div>نہال دوستی بنشان کہ کام دل بہ بار آردنہال دشمنی بر کن کہ رنج بے شمار آرد (حافظ)</div> <div>یا سعدی کا یہ سادہ مگر پر مغز شعر ؎</div> <div>تونگری بہ دل است نہ بمال بزرگی بہ عقل است نہ بسال (سعدی)</div> <div>اقبال نے بچوں کے لئے نظمیں لکھیں یا پھرنوجوانوں اور قوم و ملت کو خطاب کیا ہو ،انھوں نے اخلاقیات اور پند و نصائح کا بھرپور سہارا لیا ہے۔اکبرالہ آبادی کی طرز پر کہا گیا ان کا پورا کلام طنز و مزاح کی صورت اصلاح کی کوشش ہی ہے۔مثلاًوہ کہتے ہیں ؎؎</div> <div>اقبالؔ بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہےگفتار کا یہ غازی تو بنا ، کردار کا غازی بن نہ سکا (اقبال)</div> <div>تمنا آبرو کی ہو اگر گلزار ہستی میں تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کر (اقبال)</div> <div>اقبال نے بانگ درا میں ایک طرف جہاں صوری خوبیوں سے اپنے کلام کو مزین کیا وہیں معنوی نظام کو اس طرح اپنی گرفت میں لیا کہ لفظ معنی کے پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔اس صورت میں وہ صنائع معنوی کا استعمال بکثرت کرتے ہیں ۔ یہاں ان کے کلام کی معنویت لفظی تزئین کے ہمراہ شعری جمالیات میں اضافہ کرتی ہے اور ان کے کلام پر سبک ہندی کے شعرا جیسے رومی ، صایب ، نظیر ی ، کلیم، غنی ، عرفی اور بیدل وغیرہ کا اثر صاف نظر آتا ہے جن کا ذکر انھوں نے اپنے اردو اور فارسی کلام میں بارہا کیا ہے۔بانگ درا کی نظم ’ بزم انجم ‘ کا ایک شعر ملاحظہ ہو جس میں لالہ کا استعمال کنایۃًکس خوبی سے کیا ہے ؎</div> <div>سورج نے جاتے جاتے شام سیہ قبا کو تشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے (اقبال)</div> <div>موصوف عرفی کے تخیل سے متأ ثر ہیں اور اپنی عقیدت کا اظہار یوں کرتے ہیں ؎</div> <div>محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیل نے تصدق جس پہ حیرت خانۂ سینا و فارابی</div> <div>فضائے عشق پر تحریر کی اس نے نوا ایسی میسر جس سے ہے آنکھوں کو اب تک اشک عنابی</div> <div>یہ تو اقبال کا عرفی کے تئیں بیان ہے ۔اس سے آگے وہ عرفی سے قوم کے مسائل کا حل دریافت کرتے ہیں اور جواب میں عرفی کا یہ شعر پیوست کرتے ہیں جس سے عرفی کازور بیان ، جدت طرازی اور بلندی تخیل عیاں ہے ؎</div> <div>نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی</div> <div>لفظ حدی اقبال نے بھی بارہا استعمال کیا ہے اور اس سے امت مسلمہ کے تعلق سے ایک مخصوص خطہ اور دیگر متعلقات فوراً ذہن میں انگڑائی لینے لگتے ہیں ۔مرزاصائب کا تشبیہی نظام اور زندگی کے بڑے واقعات اورکسی بڑے مضمون کو فصاحت اور روانی کے ساتھ باندھنے کی روش بھی بانگ درا میں موجود ہے ۔</div> <div>گرفتم سہل سوز عشق را اول ، ندانستم کہ صد دریائے آتش از شرارے می شود پیدا (صائب)</div> <div>گو سراپا کیف عشرت ہے شراب زندگی اشک بھی رکھتا ہے دامن میں سحاب زندگی</div> <div>موج غم پر رقص کرتا ہے حباب زندگی ہے ’الم‘ کا سورہ بھی جزو کتاب زندگی (نظم فلسفہٗ غم ، اقبال)</div> <div>نظم ’بچہ اور شمع ‘ کا پیش کردہ شعر بیدل کے طرز کی طرف اشارہ کرتا ہے ؎</div> <div>نور تیرا چھپ گیا زیر نقاب آگہیہے غبار دیدۂ بینا حجاب آگہی (اقبال)</div> <div>می کشم چون صبح از اسباب این وحشت سراتہمت ربطے کہ تواں بست بر اجزاے من (بیدل)</div> <div>ان سب کے علاوہ اقبال نے جہاں اپنے پیچیدہ تخیلات و تفکرات کو جمالیات کے ساتھ برتا ہے وہاں ان پر غالب کا اثر نمایاں ہے۔اس کا اعتراف وہ بانگ درا کی نظم مرزا غالب میں اس طرح کرتے ہیں ؎</div> <div>فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا</div> <div>تھا سراپا روح تو ، بزم سخن پیکر ترا زیب محفل بھی رہا، محفل سے پنہاں بھی رہا</div> <div>دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے</div> <div>زندگی مضمر ہے تیری شوخی تحریر میں تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں</div> <div>مرزا غالب کے ایک فارسی قصیدہ کے دو شعر پیش نظر ہیں جن کو پڑھ کر اقبال کی قومی ترانہ اور نیا شوالہ جیسی نظمیں خود بخود قاری کے ذہن میں در آتی ہیں ؎</div> <div>صبحے کے در ہواے پرستاری وثن جنبد کلید بت کدہ ، در دست برہمن</div> <div>در رُفت و روب دیر ، دم گرم راہباں آرد بروں گداختۂ شمع از لگن</div> <div>ناظم ہروی نے امیر خسرو سے لے کر جامی تک فارسی شاعری کے اتمام کا اعلان کر دیا تھا ؎</div> <div>ز خسرو چو نوبت بہ جامی رسید ز جامی سخن را تمامی رسید</div> <div>مگر بعد میں اس میں غالب کا نام شامل ہوا ؎</div> <div>ز جامی بہ عرفی و طالب رسید ز عرفی و طالب بہ غالب رسید</div> <div>علامہ اقبال کی ان کے فارسی کلام کے ذریعہ بیرون ہندوستان خوب پذیرائی ہوئی۔حتیٰ کہ جب ایرانی قوم مغربی استعماریت کے سامنے اپنا تشخص کھو چکی تھی اس وقت وہاں کے رہنما ڈاکٹر علی شریعتی کا احیاء فکر دینی کا تصور اقبال سے ہی ماخوذہے اور انقلاب اسلامی ایران کے تعلق سے اقبال کا یہ شعر بطور پیش گوئی انقلاب تسلیم کیا جاتا ہے ؎</div> <div>می رسد مردی کہ زنجیر غلامان بشکنددیدہ ام از روزن دیوار زندان شما (اقبال زبور عجم)</div> <div>الغرض اقبال کی فارسی شاعری اپنی کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے غالب کے فارسی کلام کی توسیع کی صورت دیکھی جانی چاہئے۔ ہندوستان میں غالب پر فارسی شاعری کا اتمام نہیں ہو جاتابلکہ اقبال کے کلام میں یہ اپنے عہد کے تقاضوں کو برتنے کے لئے صوری اور معنوی اعتبار سے نئے رنگ و آہنگ میں نمودار ہوتی ہے جس کا مکمل اثر ان کی اردو شاعری بالخصوص بانگ درا پر نظر آتا ہے۔</div>