بے پتا شاہجہان سالف کا پتا کس سے پوچھیں؟
فیس بک فورم کا نام یاد نہیں، چھہ سات برس پہلے وہاں ایک شب دو لوگوں سے چٹ چیٹ ہوئی؛ ایک کا نام توقیر عباس اور دوسرے کا شاہجہان سالف تھا۔ روایت سے باغی نوجوانوں جیسی باتیں کرتا سالف مجھے کچھ خاص نہیں بھایا، کہ وہی گھسی پٹی باتیں کہ انقلاب آئے گا، تو غریب غریب نہیں رہے گا، امیر امیر نہ رہے گا؛ وغیرہ۔ المیہ یہ ہے کہ روایت کی نفی کرنے والے بھی وہی روایتی باتیں کرتے ہیں؛ اور پھر باتیں ہی باتیں ہیں، عمل کہیں نہیں دکھائی دیتا۔ توقیر عباس اور میں کبھی اسے چھیڑنے لگتے تو کبھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتے؛ یوں وہ رات کٹی۔ ان دنوں میں کوئٹہ میں مقیم تھا اور بڑی یکسانیت کا شکار تھا۔ کوئٹہ میں دوست احباب تھے نہیں، تو میری کل کائنات سوشل میڈیا تک محدود ہوکے رہ گئی تھی۔
کوئی پانچ چھہ مہینے بعد راول پنڈی آنا ہوا، تو شاہجہان سالف نے رابطہ کیا، کہ وہ ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ یوں بیکری چوک راول پنڈی کے ایک ڈھابے کی طرح کے ریستوران پر پہلی ملاقات ہوئی۔ اس کے ساتھ دلاور علی آذر بھی تھا، جس کے بارے میں معلوم ہوا کہ ابھرتا ہوا نوجوان شاعر ہے۔ احمد خلیل جازم، میں، شاہجہان سالف اور دلاور علی آذر؛ ہم چاروں بہت دیر تک گپ شپ کرتے رہے۔ ہم چاروں میں سے ایک میں ہی تھا جو شاعر نہ ہوا۔ شاہجہان سالف سے فیس بک کی حد تک رابطہ رہتا؛ کسی نہ کسی ادبی فورم میں ٹکراو ہوجاتا؛ بہت سے اختلافات، اور اس کی زودرنجی کے باوجود شاہجہان سالف سب دوستوں کا چہیتا رہا۔ شاید اس لیے بھی کہ شاہجہان سالف ہر کسی سے چاہت سے ملتا تھا؛ کم از کم مجھ سے تو ہمیشہ دوستانہ رویہ رہا۔ دوسری ملاقات، پہلی ملاقات کے لگ بھگ دو برس بعد، واہ کینٹ میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی کے دوران ہوئی؛ اس محبت سے ملا کہ جیسے برسوں سے ملنے کو ترستا تھا۔ 2014ء میں جب عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنا دیا، ان دنوں میں ایبٹ آباد میں مقیم تھا۔ توقیر عباس اور شاہجہان سالف چھٹیاں منانے میرے یہاں آگئے۔ یہ دو تین راتیں تھیں کہ شاہجہان سالف سے خوب باتیں ہوئیں، اسے سمجھنے کا موقع ملا۔
شاہجہان سالف، ڈاکٹر لال خان کی ”طبقاتی جدوجہد“ کا حصہ رہا ہے؛ کچھ عرصہ پہلے اس تنظیم کا ایک دھڑا ڈاکٹر لال خان سے اختلاف کرتے ہوئے الگ ہوگیا۔ شاہجہان اس دوسرے دھڑے کا حصہ ہے۔ ”طبقاتی جدوجہد“ ٹراسکائیٹس کہلاتے ہیں، اسٹالن دور کے ناقد ہیں؛ سوشل ازم کا پرچار کرتے ہیں۔ سماج میں طبقاتی تفریق کے خاتمے کے علم بردار ہیں۔ سوشلسٹ کا ذکر آتے ہی آپ کے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجنا شروع ہوگئی ہو، تو بتائے دیتا ہوں، کہ اس کا احوال آج کل کی جماعت اسلامی سے بھی برا ہے، سو مقتدرہ کو ان سے کیا خطرہ ہونا۔ شاہجہان سالف پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ میں ملازم تھا۔ دسمبر 2016ء میں شاہجہان سالف کے بارے میں سنا کہ ”نامعلوم“ ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کے دوستوں نے پریشانی کا اظہار کیا، کچھ دنوں میں وہ لوٹ آیا، تو میں نے میسینجر پر رابطہ کیا۔ چھوٹتے ہی بتانے لگاکہ اپینڈکس کا آپریشن ہوا ہے، بذریعہ ڈاک دفتر میں اپنا استعفا بھجوادیا ہے۔ میں نے پوچھا تمھارے مسنگ ہونے کی خبر پھیل تھی وہ کیا ہے؟
اس نے جواب میں لکھا، ”حقیقت تھی۔۔ بھائی صاحبان ہی لے گئے تھے۔۔ آپ کے رشتے دار“۔
(”میرے رشتے دار“ میرے لیے واضح ہے کہ شاہجہان سالف کس کی طرف اشارہ کررہا ہے)
میں نے مزید کریدا، ”غلط فہمی؟ یا کوئی قصور؟
”بیش تر غلط فہمی“۔ پھر اس نے لکھا، ”ظفر بھائی ہزار باتیں تھیں؛ سر پیر کی مجھے بھی سمجھ نہیں آئی۔ آپ کو تو پتا ہے یہاں کون ترقی پسند محفوظ ہے۔ اب سلمان بھائی (سلمان حیدر) ہی کو دیکھ لیجیے، میرے بعد سلمان، اس کے بعد کوئی اور، اور پھر کوئی اور۔۔۔۔“
میں نے اسے لکھا کہ ”مسئلہ کیا ہے؟ یہ نام نہاد (آپ جیسے ترقی پسند) اب کیچوے سے بڑھ کے نہیں ہیں، ان کی سنتا کون ہے؟ تو پھر اٹھائے جانے کی سمجھ نہیں آتی۔“ (اس جملے کو ترقی پسند اپنے پر نہ لیں، کہ میں اپنے دوست سے مخاطب تھا)
اس نے لکھا، ”یہی تو میں کہتا رہا، ہو دا ہیل آئی ایم؟“
پھر آگے چل کے اپنے بارے میں اطلاع دی، ”خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔“ نیز راقم کے بارے میں ذومعنی انداز میں لکھا کہ ” ویسے آپ کے نمبر کا انتظار ہے۔“ (اسمائلی)
میں نے جواب دیا، ”میری ۔۔۔۔۔ پوسٹس پہ میرے کئی دوست پریشان ہوجاتے ہیں، بعض گم سم سے دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ تو کرکیا رہا ہے۔“
سالف نے لکھا، ”جی بالکل میں خود بہت پریشان ہوتا ہوں آپ کے لیے۔۔۔ آپ بہت سے دیگر ایشوز پر بھی اچھا لکھ سکتے ہیں۔۔ بھابھی بچوں کا خیال کرلیجیے۔۔۔ یہ بھائی کا مشورہ ہے، سوشل ایکٹویسٹ کا نہیں۔“
یہ تفصیل اس لیے لکھی ہے، کہ شاہجہان سالف جو سوشل ایکٹویسٹ بن کے نہیں بھائی بندی میں مشورہ دے رہا تھا کہ میں دیگر موضوعات پر لکھوں، وہ نہ لکھوں جو ان حلقوں کی پیشانی پر بل ڈال دیتا ہے، جو شاہجہان سالف کو اٹھا لے گئے تھے۔ وہی شاہجہان سالف ایک عرصے سے ”نامعلوم افراد“ کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے۔ میں شاہجہان سالف کے لیے اور کچھ نہیں کرسکتا؛ ماسوائے اس کے کہ آج اس کے لیے یہ چند سطریں لکھ کر دعا کروں، وہ جہاں ہے، سلامت ہو۔ خیر سے گھر لوٹے۔ ریاست اگر ماں ہے تو سوتیلی ماں کا سا سلوک کیوں کرتی ہے؟ یقین کریں میں ایسی ریاست کا پرستار ہرگز نہیں ہوں؛ آپ مجھے غدار وطن کہنا چاہیں تو کہ لیں۔
ایک پرانی تحریر جو صحرا میں صدا ثابت ہوئی.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔