بسم ا للہ الرحمن الرحیم
قلم کاروان،اسلام آباد
لوح و قلم تیرے ہیں
مجلس مشاورت:
میر افسر امان
دکتور ساجد خاکوانی
رانااعجاز
کارروائی ادبی نشست،منگل31مئی2022ء
منگل 31مئی بعد نمازمغرب قلم کاروان کی ہفت روزہ ادبی نشست G6/2اسلام آبادمیں منعقد ہوئی۔ پیش نامے کے مطابق آج کی نشست میں ”قرآن مجید کا تصور تہذیب و تمدن“ کے موضوع پرمحقق، مصنف اورشاعر جناب پروفیسر تنویراخترالپیال کی تحریر طے تھی۔عالمی شہرت یافتہ قاری بزرگ شاہ الازہری نے صدارت کی۔ جناب سلطان محمودشاہین نے تلاوت قرآن مجیدکی،جنا ب چوہدری وقاص احمد نے مطالعہ حدیث نبویﷺ پیش کیا اور جناب ڈاکٹرصلاح الدین صالح نے ترنم سے نعت سنائی جبکہ جناب جمال زیدی نے گزشتہ نشست کی کارروائی پیش کی۔
صدر مجلس کی اجازت سے جناب پروفیسر تنویر اخترالپیال نے پہلے تہذیب اورپھرتمدن اورثقافت کے الفاظ کی لغوی اوراصطلاحی شرح بیان کی،فاضل مصنف نے عربی،فارسی اورانگریزی زبانوں میں حوالوں کے ساتھ ان اصطلاحات کی تفصیلی وضاحت کی، بعدازاں قرآن مجید کا تعارف پیش کیااور دیگرکتب سے ان کا مختصر مقارنہ بھی کیا۔ فاضل مصنف نے قرآن مجیدکے بارے میں غیر مسلم مشاہیر کے اقوال بھی نقل کیے تھے۔ تہذیب وتمدن اور تعارف قرآن مجید کے بعد قرآن مجید کی وہ آیات درج کی گئی تھیں جن میں لباس، طوراطوار، زبان اور دیگر تہذیبی و ثقافتی شعائر درج کیے تھے۔ پروفیسر صاحب نے قرآن سے قبل کی تہذیبوں کوبھی شامل بحث کیا اور ثابت کیا کہ اب تا قیامت قرآن مجید کی تہذیب و ثقافت ہی بالادست رہے گی۔وقفہ سوالات میں مضمون نویس کو تیزوتلخ سوالات کا سامنا کرنا پڑا، میرافسر امان، خالدحسن، ڈاکٹر ساجد خاکوانی،عالی شعاربنگش،شہزادمنیراحمد،اکرم الوری اورمنیرحسین گجرنے سوالات کیے اور بڑے تحمل سے ان کے مختصرجوابات دیے گئے۔مقالے پرتبصرہ کرتے ہوئے ساجد حسین ملک نے کہاکہ حضرت فضہ جو خادمہ رسول تھیں وہ ہربات کاجواب قرآن مجیدسے دیاکرتی تھیں۔جناب سلطان محمودشاہین نے کہاکہ تہذیبی تصادم کانظریہ غلط ہے تہذیبیں ایک دوسرے کے اندرنفوذکرتی ہیں۔میرافسرامان نے کہاکہ قرآن مجید سے پہلے کی تہذیبیں بھی آسمانی ہدایت سے تعمیرہوئیں کیونکہ انسان کوانسان بنانے والی ہستیاں انبیاء کرام ہی تھے۔جناب خالد حسن نے قرآنی تہذیب کابنیادی اصول بیان کرتے ہوئے کہاکہ صحابہ کرام جہادسے پہلے کہاکرتے تھے کہ ہم انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ تعالی کی غلامی میں لاناچاہتے ہیں۔وقفہ شاعری میں ڈاکٹرصلاح الدین صالح،میرافسرامان، عبدالرشیدثاقب،شہزادمنیراحمد،جمال زیدی اورسلطان محمودشاہین نے اپنااپنا کلام سنایااورداد پائی۔معمول کے سلسلے میں جناب شہزادعالم صدیقی نے مثنوی مولائے روم سے اپناحاصل مطالعہ شرکاء کے ساتھ تازہ کیا۔اس کے بعد پروفیسر داؤد نوید چاولہ کی لائی ہوئی کتب شرکاء میں ہدیہ کی گئیں،صدر مجلس نے اپنے دست مبارک سے حاضرین محفل میں اس زخیم کتاب کے نسخے تقسیم کیے۔
آخرمیں صدر مجلس جناب قاری بزرگ شاہ الازہری نے اپنے صدارتی خطبے میں کہاکہ علوم دوقسم کے ہوتے ہیں،پہلی قسم وہبی علوم کی ہے اوردوسری قسم کسبی علوم کی ہے۔صدرمجلس نے کہاکہ اللہ تعالی نے اپنے انبیاء علیھم السلام پر وہبی علم بذریعہ وحی نازل فرمایا اورباقی انسانوں کو کسبی علم مرحمت کیا جوانہیں محنت سے حاصل ہوتاہے۔صدر مجلس کے مطابق قرآنی تہذیب وتمدن کی بنیاد وہی وہبی علم ہے جو ہر شک سے بالاتر ہے۔جناب قاری صاحب نے قلم کاروان میں شعروشاعری کے سلسلے کو کوبھی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھااورکہاکہ اس طرح علمیت کابوجھل پن دورہوجاتااورمحفل ہلکی پھلکی ہوجاتی ہے،انہوں نے سیرۃ النبی ﷺ سے بھی ہلکی پھلکی محافل کی مثالیں دیں اور اس کی متابعت میں اپنی ایک مزاحیہ نظم بھی پیش کردی جس سے شرکاء محفل بہت محظوظ ہوئے۔صدارتی خطبے کے بعد محترم حبیب الرحمن چترالی کی والدہ مرحومہ کے لیے دعائے مغفرت کی گئی جو چنددن پہلے رحلت فرماگئی تھیں۔فاتحہ کے ساتھ ہی آج کی نشست کااختتام ہوگیا۔
بسم ا للہ الرحمن الرحیم
(عالمی مجلس)
بیداری فکراقبالؒ
(مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرادیکھ)
مجلس مشاورت:
میرافسرامان
دکتورساجدخاکوانی
رانااعجاز کارروائی ادبی نشست،بدھ یکم جون2022ء
بدھ یکم جون2022ء بعد نمازعشاء (عالمی مجلس)”بیداری فکراقبالؒ“کی ہفت روزہ ادبی نشست لہروں کے دوش پر منعقدہوئی۔ پیش نامے کے مطابق آج کی نشست میں ”ہرپست کوبالاکردے(نصف آخر)“کے عنوان پرمحترمہ لبنی فروغ،سربراہ فروغ قرآن اکادمی،اسلام آبادکاخطاب طے تھا۔ملتان سے ماہراقبالیات محترمہ دکتورہ فارحہ جمشید نے صدارت کی۔جامعۃ الازہر،قاہرہ مصرسے علامہ کاشف نور نے اپنی شاندارتجویدمیں قرآن مجیدکی تلاوت کی،بیلجیم سے ڈاکٹرمحمدجنید ندوی نے مطالعہ حدیث نبویﷺ پیش کیا اورسیالکوٹ سے بی ایس اردوکی طالبہ محترمہ عاصمہ عبدالمجید نے گزشتہ نشست کی کاروائی پڑھ کر سنائی۔
صدرمجلس کی اجازت سے محترمہ لبنی فروغ نے اپنے خطاب کے آغازمیں عشق کی حقیقت پرروشنی ڈالی اورکہاکہ یہ ایک لازوال جذبہ ہے اور اللہ تعالی سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہارہے،انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ علامہ کے ہاں ”پست“سے مراد جہالت کے اندھیروں میں ڈوباہوا فرداورمعاشرہ ہے جب کہ بلندی سے مراد نورہدایت سے پھوٹتا اجالا ہے جو االلہ تعالی کی عبادت اور نبی آخرالزماں ﷺکی اطاعت سے مستعارہے،انہوں نے روشنی اوراندھیرے کافرق بیان کرتے ہوئے قرآن مجیدکی متعددآیات اوراحادیث کے حوالے بھی دیے۔اپنے خطاب کے آخرمیں انہوں نے کہاکہ علامہ عمل پسندشاعرہیں اور ذلت وپستی سے بلندی وعروج کی جانب لے جانے والا رویہ عملیت سے عبارت ہے۔خطاب پر محترمہ فارحہ جمشیدنے ایک مختصرساسوال کیا۔تبصرہ کرتے ہوئے بہاولپورسے افضال الرحمن ہاشمی نے کہاکہ علامہ ایک انقلابی شاعر تھے اورپرامن انقلاب پریقین رکھتے تھے۔کینیڈاسے جناب پروفیسرعلی اصغرسلیمی نے کہاکہ عشق کوقوت عمل کی حیثیت سے پیش کرنا فاضل مقررہ کا ارتقائی عروج ہے،انہوں نے پستی کی متعدد وجوہات گنوائیں جن میں ذہنی پستی،عملی انحطاط،فکری جمود،توہم پرستی،کم ترمعیارزندگی اورخوش گمانیاں شامل تھیں،انہوں نے پستی کے ان تمام اسباب و نتائج پر سیرحاصل گفتگوبھی کی۔اسلام آبادسے محترمہ طاہرہ نے کہاکہ آپ ﷺ نبوت سے قبل صادق اورامین کہلائے جاتے تھے چنانچہ نیکی کاسفر صداقت و امانت سے ہی شروع ہوسکتاہے اور برائی کے بیج جھوٹ اور خیانت ہوتے ہیں،انہوں نے انفرادی اصلاح پر توجہ دینے پرزوردیا۔دبئی سے سیدعلی یارنے کہاکہ وہ خطاب ختم ہونے کے بعد شامل نشست ہوئے تاہم انہوں نے جناب پروفیسرعلی اصغرسلیمی کے تبصرے کوپسندکیا۔ڈاکٹرشہنازظہیرنے خطاب کوپسندکیااورکہاکہ ورفعنالک ذکرک کے مصداق بلندی کاسفر تہذیب نفس کے مشکل مرحلے سے ہی ممکن ہوسکتاہے۔جناب شہزادمنیراحمدنے کہا پستی سے بلندی کاسفر سنت و شریعت پرعمل پیراہونے سے ہی ممکن ہوسکتاہے۔اسلام آبادسے محمدسرفراز،لاہورسے وقار مصطفی سپرا،ملتان سے عبدالرؤف اورمظہربلوچ،سوات سے بہاراحمد،محترمہ شکیلہ مبین،صلاح الدین اوروامق تنویرالپیال نے بھی خطاب پراپنی اپنی پسندیدگی کااظہارکیا۔معمول کے سلسلے میں جناب شہزادعالم صدیقی نے علامہ کے فارسی کلام سے حاصل مطالعہ پیش کیا۔
آخر میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے صدر مجلس محترمہ دکتورہ فاحہ جمشیدنے کہاکہ شکوہ مرثیہ تھااورجواب شکوہ پیغام امیدتھا،انہوں نے کہاکہ کلام اقبال دراصل عشق رسولﷺمیں ڈوباہواہے اوراللہ تعالی کہتاہے کہ اگرمجھ سے محبت کرتے ہوتومیرے رسولﷺکہ پیروی کرو،صدرمجلس نے کہاکہ ہمیں حب رسولﷺکا پیمان محبت ازسرنواستوارکرناہوگا تب ہی پستی سے بلندی کی طرف سفرکاآغازہوسکتاہے،انہوں نے صدارتی خطبے کے آخرمیں ابلاغ حق کی ذمہ داری اداکرنے کی اہمیت اجاگرکی۔صدارتی خطبے کے ساتھ ہی آج کی نشست اختتام پزیرہوگئی۔