مشرقی بنگال کےآتش بجانوں کو سلام
لاہورمیں رائل آرٹلری بازار کی قربت میں گنجِ شہیداں ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈکی زیرِنگرانی اس فوجی قبرستان میں پینسٹھ کی جنگ کے شہیدوں کی قبریں اوریادگاریں ہیں۔ یہیں ایک یادگاراپنی جنم بھومی سےہزاروں میل دورلڑنےوالوں کو یادکرتی ہےجو اتنی مداراتوں کےبعدبھی اجنبی ٹھہرے۔ یہ فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ عرف سینیئرٹائیگرزکےپندرہ شہداء کی یادگارہےجوپینسٹھ کی جنگ میں وطن پرنثارہوگئے۔
لاہورسےقصورکی نیت کرتےہوئےفیروزپورروڈ پکڑیں توقریب قریب نصف راستےکی مسافت پرللیانی کاسٹاپ آتاہےجس کاموجودہ نام مصطفیٰ آباد ہے۔
مین روڈ کے ساتھ للیانی کےقبرستان میں بھی گنجِ شہداء کے نام سے ایک گوشۂ سکون ہے جہاں ایک چاردیواری میں فاتحِ کھیم کرن 5 فرنٹیئرفورس کے وہ سپوت دفن ہیں جو ستمبر پینسٹھ کی جنگ میں کھیم کرن اور اس سے کچھ آگے کی مفتوحہ زمینوں کو دونیم کرتے شہید ہوئے
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
اسی قبرستان کے ایک کونے میں شامی مینار ہے۔ کھیم کرن کی قربت میں شہید ہوئے بریگیڈیئر احسن رشید شامی کی یہ پہلی یادگار تھی جو للیانی میں کھڑی کی گئی۔ اپنے علاقے میں لگائی گھات میں شہید ہوئےبریگیڈیئرکا جسدِخاکی ہندوستانی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ جنگ بندی کے بہت بعد فروری 1966 میں
لاہور کے اس سپوت کا جسدِ خاکی وطن واپس آیا تو پورے فوجی اعزاز کےساتھ آر اے بازار کے نزدیک گنجِ شہداء میں بریگیڈیئر شامی کی تدفین عمل میں آئی۔
ہماری یہ تحریر 5 ایف ایف یا پھر بریگیڈیئر شامی سے متعلق نہیں ہے تو آگے بڑھتےہیں۔ للیانی سے جو راستے بی آر بی نہر کی طرف نکلتے ہیں
ان میں سے ایک راہ جو ویگل گاؤں کو جاتی ہے وہیں پٹھانوالہ ابراہیم آباد میں فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کا ہیڈکوارٹر تھا۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والی نفری پر مشتمل یہ پلٹن سینیئر ٹائیگرز کہلاتی تھی۔
اس رجمنٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ریزنگ کے ایک سال کے اندر 1948 میں بابائے قوم نے
اس کے افسروں اورجوانوں سے خطاب کرتےہوئے عمدہ کارکردگی کی تعریف کی۔ اس کے پہلے بنگالی کمانڈنگ افسر کرنل محمد عطاالغنی عثمانی نے بعد ازاں مکتی باہنی کے کمانڈر کی حیثیت سے شہرت پائی اور آزاد بنگلہ دیش میں بنگابیر کا لقب پایا۔ مگر ابھی ستمبر 1965 تھا اور یونٹ کی کمان
لیفٹیننٹ کرنل ابوطاہرخیرالحق (اےٹی کےحق) کے پاس تھی۔ پٹھانوالہ ابراہیم آباد سے آگے پلٹن کی کمپنیاں بی آربی نہر کےمورچوں پر بیدیاں سے لےکر ویگل گاؤں تک دفاع لیے ہوئے تھیں۔
photo courtesy @leftofthepincer
لاہورسے جنوب میں لڑی گئی ستمبر کی جنگ کی روداد ’میلڈ فِسٹ‘ یعنی پاکستانی رسالے کی کھیم کرن اور آگے کی دورمار نقب کی کوشش اور اس کے نتیجے میں ہندوستانی اور پاکستانی میکانائزڈ دستوں میں چلنے والے چوہے بلی کے کھیل کی کہانیوں میں کھو جاتی ہے۔
مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 6 ستمبر کو بیدیاں ہیڈورکس سے نیچے قصور تک حملے پر آئے ہندوستانی 4 ماؤنٹین ڈویژن کی یونٹوں نے منہ کی کھائی اور تتر بتر ہوگئے۔ اس ناقابلِ تسخیر دفاع میں ایک کلیدی کردار فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ عرف سینیئرٹائیگرز نے ادا کیا۔
اس دلیر رجمنٹ نے بہادری کے شاندار جوہر دکھاتے ہوئے لاہور فرنٹ پر سب سے زیادہ اعزازات، جن میں تین ستارۂ جرات اور سات تمغۂ جرات شامل تھے اپنے نام کیے۔ جنرل محمود بھی جنگِ ستمبر پر اپنی ضخیم کتاب میں بیدیاں کی دفاعی جنگ کا سرسری سا ذکر کرکے آگےبڑھ جاتےہیں، مگر وہ یہ ضرور لکھتے ہیں
اس محاذ پر ہندوستانی حملے کی خبر سب سے پہلے فرسٹ ایسٹ بنگال کے ایڈجوٹنٹ نے بریگیڈ میجر کوعلی الصبح پونے چار بجے فیلڈ ٹیلیفون پر دی تھی۔ بیدیاں کی رینجرز پوسٹ پر توپخانے کے گولے ایک آنے والے ہندوستانی حملے کی خبر دیتے تھے۔
بیدیاں ہیڈورکس پرآیاہندوستانی 19راجپوت کادھاواسینیئر ٹائیگرز کی براووکمپنی نے15 لانسرز کےایک ٹروپ کی مددسےناکام بنادیاتھا۔
نیچےجنوب میں ویگل گاؤں پر آئے 7گرینیڈیئرزکےحملےکو 9دکن ہارس کےٹینکوں کی سپورٹ حاصل تھی مگر ڈیلٹا کمپنی کے ٹائیگرز نےایک ثابت قدمی میں اسےبھی ناکام بنا دیا۔
حوالدار ظہیر الحق پٹھان ایک سو چھ ملی میٹر ریکائل لیس رائفل کے دستے کی کمان کررہاتھا اور چھ ستمبر کو جبکہ ہندوستانی ٹینک پل کراس کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہے تھے اس دستے نے انہیں چن چن کر شکار کیا تھا۔
ہمارے حوالدارکی دلیری پر اسے تمغۂ جرات عطا ہوا۔
7/8 ستمبرکی رات ہندوستانی پیدل سپاہ کےجان توڑحملےکےسامنے نائیک منیرالحق کی ڈھال تھی۔ وہ اپنی مشین گن کےپیچھےسینہ سپرتھا۔ اس کےہتھیار نےتب تک آگ اگلنی بندنہ کی جب تک کہ منیر خودشہیدنہ ہوگیا۔ دشمن کایہ حملہ پسپاہوگیا تھا۔ نائیک منیرالحق کو بعد از شہادت تمغۂ جرات سے سرفراز کیا گیا۔
لانس نائیک حشمت اللہ اور ابوالہاشم نے چھ ستمبر کو پل کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا۔ گھمسان کے رن میں یہ دونوں نہر کے پار زخمی ہوکر گرے ایک ساتھی کو بھی اٹھا کر واپس لے آئےتھے۔ دونوں جوانوں کو تمغۂ جرات کا اعزاز دیا گیا۔ لانس نائیک ابوالہاشم نے کچھ سالوں کی دوری پر بہادری کا ایک
اور تغمہ بھی لینا تھا، مگر اس کا ذکر ہم کچھ دیر میں کرتے ہیں۔
نو دس ستمبر کی رات کا حملہ بہت شدید تھا جس میں حوالدار عطاالرحمن شدید زخمی ہوگیاتھا۔ نہر کے پاراپنے پلاٹون کمانڈرکا گھائل وجود دیکھتے لانس نائیک امین اللہ کی غیرت نے جوش مارا تو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر شدید فائر
میں حوالدار عطا کو اپنی پشت پر لاد نہرپار کرکے ہوم بنک کے مورچوں تک لے آیا۔ اس فرض شناسی پر ہمارے ہمارے دونوں سپاہی تمغۂ جرات کے حقدار ٹھہرے۔
اٹھارہ ستمبرکوآئے نئےحملے میں نائیک تاج الاسلام مشین گن دستے کی کمان کررہا تھا۔ اس دستےکےمہلک فائرنےہندوستانی سپاہ کابہت جانی نقصان کیا۔
مورچوں کے دفاع میں فائر گرانے کےدوران سامنے سے آئی گولیوں کی ایک باڑھ سے خود تاج الاسلام کا سینہ چھلنی ہوگیا۔ ہمارے جوانمرد نائیک کو بعد از شہادت تمغۂ جرات عطا کیا گیا۔
بیدیاں کے ناقابلِ تسخیر دفاع پر پلٹن کو عطاہوئے تین ستارۂ جرات میں سے ایک لیفٹیننٹ کرنل اے ٹی کے حق
اور ایک صوبیدار محمد علی کے حصے میں آیا۔ تیسرا ستارۂ جرات صوبیدار عظیم خان کی چوڑی چھاتی کی زینت بنا، مگر چند سالوں کی دوری پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب سینیئرٹائیگرز کا یہی صوبیدار میجر عظیم خان جیسور کی ایک پرآشوب صبح ایک بے چارگی کے عالم میں
بہادری کےاسی تغمےکو اپنی چھاتی سےنوچ پھینکے گا۔ مگر اس میں ابھی دیر ہے۔
ابھی تو ہم بی آربی کے مورچوں میں ایک فاتح ستمبر کے گُل ہوتے دنوں کےسرورمیں ہیں۔ بیدیاں پر ہوئے حملوں کے جوابی ہلّےمیں بہادری کے سترہ اعزازات، جن میں تین ستارۂ جرات اورسات تمغۂ جرات شامل ہیں اپنےسینےپر سجائے
مادرِوطن کی حفاظت میں پندرہ جانوں کادان پیش کیے، سینیئر ٹائیگرزکی فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ بھی مسرور ہے۔
وہ پلٹن جوپاکستان کےساتھ جنمی تھی، جسکےبانکپن میں آزاد مملکتِ پاکستان کابانکپن جھلکتاتھا، جس کےپاس بہادری کی ماضی گزیدہ کوئی روایت کوئی جنگِ عظیم کاقصہ کوئی کوئینزکلرکچھ نہیں تھا
مشرقی پاکستان کے بدلتے ہوئے حالات بھی اس پلٹن کے پایۂ ثبات میں لغزش نہ لاسکیں گے، اس کے کمانڈنگ افسر، صوبیدارمیجر اور جوان قسم کھا کر اپنی وفاداری کا یقین دلانے کی بے سود کوشش کریں گے، مگر اکہتر کے شک گزیدہ مارچ کی بے اعتباری تو ہر بنگالی کو نگلنے کو پھرتی تھی۔
تویہ کیسے ممکن تھا کہ شجاعت کے سترہ نشان سینے پر سجائے، مادرِ وطن پر 15 جانیں وار دینے والے بیدیاں کے غازی، جیسور کے باغی نہ بن جائیں ۔ ۔ ۔
ـــ
’میں نے دیکھا ہے انہیں مانندِ تیغِ بے نیام‘
اگرآپ میجر (ریٹائرڈ) آفتاب احمد کی ’مشرقی پاکستان کےمیدانِ جنگ سےآخری سلام‘ پڑھیں توکتاب کےعین مرکزمیں صفائی سےتہہ کیاہواچمکدارکاغذپریہ نفیس سکیچ نظرپڑتاہے
سکیچ میں دکھایاگیایہ مشرقی پاکستان میں جیسورسےمغربی سمت کاعلاقہ ہےجوبھارتی سرحدکولگتاہے۔ اوپرکچھ باغی کمپنیاں دکھائی گئی ہیں، جنوب میں بہتی بلونیاندی ہےاوروہیں فائربیس کےساتھ 25 بلوچ رجمنٹ کاہیڈکوارٹرہے۔
نقشےکی نفیس ڈرائنگ دیکھ کرہمیں شک پڑاکہ ہونہ ہویہ بھابھی کےہاتھ کاکمال ہے۔
غورسےدیکھنےپر نگہت آفتاب کےدستخط ہمارے گمان پرمہرتصدیق ثبت کرتےنظرآئے۔ اس گمان کاسیاق وسباق کچھ یوں ہےکہ ایک ایک جوبن پر آئی کپتانی اور نئی نئی شادی کےخمارمیں جب ہم نوشہرہ میں جونئیرسٹاف کورس کررہے تھے تو سکول آف آرٹلری میں میں ہماری بیگم بھی ہمارے ساتھ تھیں۔
نگہت آفتاب کابنایا سکیچ دیکھ کرہمیں اپنی میپ مارکنگ ایکسرسائزمیں مانی کے ہاتھ کے بنائےسکیچ بے اختیار یاد آگئے۔
بات کچھ یوں ہےکہ کورسزپرلائق افسروں کی مددکےلیےیونٹیں عموماً انٹیلی جنس حوالدارکوجو نقشہ سازی کےفن میں کامل ہوتاہےکچھ عرصےکےلیےسکول کےساتھ اٹیچ کردیتی ہیں۔
جن افسروں کےیونٹ کمانڈرسےتعلقات ٹھیک نہ ہوں یاکسی اور پیشہ ورانہ مصروفیت کی وجہ سےاِنٹ (Int) حوالدارنہ آسکےوہ یاتوخود نقشے مارک کرتےہیں اوراگرشادی شدہ ہوں توخوشخط بیویوں کی طرف ملتجیانہ نظروں سےدیکھتےہیں۔ صاحبو! اپنےجونیئرسٹاف کورس کے دوران مانی کی طرف ملتجیانہ نظروں سےدیکھنےکے ہمارےسارےکوائف پورےتھے۔
اس یادگارکورس پرمانی کےبنائےسکیچ اب بھی ایک ہجرت کی باقیات میں وطن میں چھوڑےسامان کےکسی ٹرنک میں حفاظت سےرکھے ہوں گے۔ دیکھیےبات ’مشرقی پاکستان کےمیدانِ جنگ سےآخری سلام‘ میں بیگم نگہت آفتاب کےبنائےسکیچ کی ہورہی تھی اورکہاں سےکہاں نکل گئی۔
میجر (اسوقت کے کیپٹن) آفتاب سقوط پاکستان کےپر آشوب دورمیں اپنی پلٹن 25 بلوچ کےساتھ مشرقی پاکستان میں جیسور کےمقام پرتعینات تھے۔ بیگم نگہت آفتاب کاکھینچا سکیچ مارچ 1971 کاطوفان گزرجانے کےبعد کےدنوں کاہےجب پلٹن بھارتی سرحدپرفرسٹ ایسٹ بنگال کےباغیوں سے برسرِپیکار تھی۔
یہ وہی سینیئر ٹائیگرز تھے جو ستمبر کی جنگ میں بیدیاں کے محاذ سے غازی بن کر لوٹے تھےاور جنکا ذکر ہم نے پچھلی قسط میں ایک تفصیل کے ساتھ کیا تھا۔
ہمارے پڑھنے والوں کو بی آر بی کےمورچوں پر سینہ تان کر لڑنے والا لانس نائیک ابوالہاشم یادہوگاجسے حکومتِ پاکستان سے تغمۂ جرأت عطا ہوا تھا۔
ابوالہاشم نے جب اسی پلٹن کے باغی ہونے کے بعد مغربی پاکستان کے اپنے پیٹی بھائیوں کے خلاف ہتھیار اٹھاکر بہادری کے جوہر دکھائے تو بعد ازاں ایک آزاد بنگلہ دیش کی حکومت نے اسے بہادری کے تیسرے بڑے اعزاز بیر بکرم سے نوازا۔
نگہت بھابھی کے بنائے خوبصورت اور تفصیلی سکیچ پر بلونیا ندی اور پھول باڑی کی قربت میں لڑی جانے والی لڑائی کا احوال تو آپ میجرآفتاب کی کتاب میں پڑھیے گا۔ ہم یہاں کچھ برس پرانے واقعات کا ذکر کریں گے۔
پینسٹھ کے ستمبر کی جنگ میں پندرہ جانوں کا نذرانہ دینے والی سینیئر ٹائیگرز کی پلٹن کے غازی لاہورکے گنجِ شہیداں میں اپنےشہیدوں کی یادگار چھوڑ، سینوں پر بہادری کے تغمے سجائے جب اگلے سال جون کے مہینے میں سونار بنگلہ کو پلٹے تو ان کا شاندار استقبال ہوا۔
فوجی جریدےہلال کےمدیر نےاس موقعےپر ایک پرجوش ادارئیےمیں لکھاکہ مشرقی پاکستان کےان دلیروں نے مغربی پاکستان کی سرحدوں کا جس طرح دفاع کیا وہ ملک کے دونوں بازوؤں کے اتحاد و یک جہتی کا ثبوت و ضامن ہے۔ ان دلیروں نے انگریز کے پھیلائے ہوئے اس من گھڑت افسانے کی دھجیاں بکھیرکر رکھ دی ہیں
کہ بنگالی نوجوان فوج کے لیے موزوں نہیں۔ اس ادارئیے سے چند سالوں کی دوری پر ملک کے دونوں بازوؤں کے اتحاد و یک جہتی کو اپنی ہی نظر لگنے والی تھی اور انگریز سے ہی مستعار لیے مغربی پاکستانی کمانڈروں کے اس من گھڑت مفروضے کی دھجیاں بکھرنے والی تھیں کہ آپسی لڑائی میں بنگالی اپنے مغربی پاکستانی بھائیوں سے کمتر ثابت ہوں گے۔
سن چھیاسٹھ کے جون میں ہوئے ایک شاندار استقبال سے جو منظربدلتا ہے تو ہم خود کو ایک پرآشوب اکہتر کے مارچ میں جیسور میں پاتے ہیں۔ 25/26 مارچ کی درمیانی رات جب آپریشن سرچ لائٹ کا باقاعدہ آغاز ہوا تو فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ جیسور چھاؤنی میں نہیں تھی۔ سینیئرٹائیگرز بھارت کی سرحد پر جگدیش پور گاؤں کے اطراف جنگی مشق میں مصروف تھے۔
9 مارچ تک جب ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز باقاعدہ بغاوت کرچکی تھیں سینئیرٹائیگرز کی صفوں میں سکوت تھا۔ یہانتک کہ رجمنٹ میں تعینات مغربی پاکستانی افسر بھی جن میں اسوقت کے میجر اور بعد کے کراچی کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل لہراسب خان بھی شامل تھے محفوظ رہے۔ سینیئر ٹائیگرز وہ واحد پلٹن تھی جس کے تمام مغربی پاکستانی افسران بغیر کسی جانی نقصان یا مکتی باہنی کی قید کے جیسور چھاؤنی کے محفوظ حصار میں ’حلیف دستوں’ سے آملے تھے۔
29 مارچ کو فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ احکام کی بجا آوری میں محاذ سےجیسورواپس پلٹ آئی۔ ان کے راستے میں جیسور کےنواح میں 25 بلوچ کی لگ بھگ اڑھائی سو کی نفری بارکوں میں تعینات تھی۔ کیپٹن آفتاب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ سینیئر ٹائیگرز اگر چاہتے تو 25 بلوچ کی اس نفری کوتہ تیغ کرسکتےتھے
اور صرف یہی نہیں بلکہ کشتیا اور کھلنا میں بغاوت سے برسرپیکار یونٹوں کی بچی کھچی نفری پر ہلہ بول کر جیسور کا تغمہ اپنے سینے پر سجالیتے، مگراس پلٹن کی رگوں میں ابھی وطن سےمحبت کی رمق باقی تھی۔
کمانڈر جیسور بریگیڈیئردرانی کےاحکام کی بجا آوری میں 25 بلوچ کے کرنل ڈین 30 مارچ کی صبح ہتھیار رکھوانے سینیئر ٹائیگرز کے کمانڈنٹ آفس پہنچ گئے۔ کیپٹن آفتاب بتاتے ہیں کہ اس حکم پر کمانڈنٹ فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کرنل ضیاء الجلیل سناٹے میں آگئے۔ یونٹ کے صوبیدار میجرعظیم خان ستارۂ جرات نے شدید احتجاج کیا۔ جب مغربی پاکستانی کمانڈر اپنی مجبوری کی داستان سنا چکے تو فرط جذبات میں کرنل ضیاء نےاپنےشولڈر رینک اور صوبیدار میجرنے چھاتی کےوہ تغمے جن میں لاہور کے محاذ پر جوانمردی کی گواہی دیتا ستارۂ جرات جھلملا رہا تھا اتار پھینکے۔
یہاں پراگر آپ جنرل شوکت رضا کی کتاب پڑھیں تو وہ بتائیں گےکہ یہ پہلےسےطےشدہ اشارے تھےجن پر رجمنٹ نے فائر کھول دیا
اور 22 فرنٹئیرفورس اور 25 بلوچ کو جوابی فائر کرنا پڑا۔ مگر وہاں موجود 25 بلوچ کے کیپٹن آفتاب گواہی دیں گے کہ کرنل ضیاء الجلیل کے دفتر سے نکل کر جیپ میں سوارہوتے ہی کمانڈنگ آفیسر نے وائرلیس پربریگیڈ کمانڈر کو فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کی بغاوت کی خبر دی اور جیپ میں ساتھ بیٹھے اپنے کمپنی کمانڈر کو بغاوت کچلنے کا حکم۔ بغاوت کا علم بلند نہ کرنے پاداش اور حکم کی تعمیل میں ایک کٹھن مارچ سے پلٹتے سینیئر ٹائیگرز کو 25 بلوچ کے مارٹر اور 55 فیلڈ رجمنٹ کی توپوں کے گولوں نے آدبوچا۔ ایک افراتفری کی دھکم پیل میں جو بچے وہ مشین گن کی گولیوں سے بھون دیئے گئے۔
ستمبر 1965 میں بیدیاں کے دفاع میں 15 جانوں کا نذرانہ دینے والی فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ سے 1971 کے جیسور میں اس کی اپنی فوج کی گولیوں نے ایک سو پچاسی جوانوں کو نگل لیا تھا۔ بچی کھچی رجمنٹ تو لیفٹیننٹ حفیظ الدین کی نگہداشت میں ہندوستانی سرحد کی طرف پسپا ہوئی مگر فرسٹ ایسٹ بنگال کے کرنل ضیاء الجلیل کی حمیت نے یہ بھی گوارا نہ کیا۔
انہوں نے خود کو جیسور کی سپاہ کے حوالے کردیا۔ اپنی جان خطرے میں ڈال کر ’باغیوں کی سرکوبی‘ کرنے کے اعتراف میں بلوچ رجمنٹ کے کرنل ڈین کو تمغۂ قائدِ اعظم سے سرفراز کیا گیااور بریگیڈ کمانڈر بریگیڈیئر درانی حالات پر قابو پاکر ’بروقت‘ مشرقی پاکستان سے نکل آئے تو کچھ عرصے بعد بلوچستان کی گورنری کی مسند پر فائز ہوئے۔
ممکن ہے ہمارے پڑھنے والوں کو میجر(ریٹائرڈ) آفتاب کے اسلوب میں تلخی اور شکایت کا تعصب نظر آئے مگرصاحبو جب ’مشرقی پاکستان کےمیدانِ جنگ سےآخری سلام‘ لکھنےوالا آفتاب احمد یہ کہتا ہےکہ کیا ہی اچھاہوتااگر ہم نےاپنے ہتھیارباہمی رضامندی سےبنگال کےلوگوں کےدل کی آوازشیخ مجیب، بنگلہ دیش کی آزادی کااعلان کرنےوالےمیجرضیاء الرحمٰن اورمکتی باہنی کےکرتادھرتاکرنل عثمانی کےسامنےڈالے ہوتے تو اس کی بات میں وزن تو ہے۔ شاید ہم جگجیت سنگھ ارورہ اور جے ایف آر جیکب کے حصار میں ایک دستاویزی دستخط کی ذلت سے بچ جاتے۔
ـــ
لاہور میں رائل آرٹلری بازار کی قربت میں گنجِ شہیداں کی ایک یادگار بیدیاں کے محاذ پر لڑنے والے سینیئرٹائیگرز کو یاد کرتی ہے۔ سب سےاوپرشہیدوں کوحیاتِ جاودانی کی بشارت دیتافرمانِ ربی ہے اورنیچےایک دو کالمی کتبےپرنفیس انگریزی رسم الخط میں پندرہ نام درج ہیں۔ بیدیاں کےمحاذپرکام آئےیہ نام اب بیگانےہوچلےہیں مگر آج بھی مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کی محبت میں میجر(ریٹائرڈ) آفتاب احمد یہاں سُرخ گلاب رکھ جاتےہیں۔
کتنی ہی برساتیں آئیں اور بیت گئیں مگر ایک اجنبی زمین پر گرے خون کے یہ دھبے ہیں کہ دُھل کے ہی نہیں دیتے۔
ـــ