(23جون:اقوام متحدہ کے عالمی یوم بیوگان پر خصوصی تحریر)
عالم انسانیت میں ”نکاح“ ایک ایسابابرکت ادارہ ہے جس کی تاسیس انبیاء علیھم السلام کے دست ہائے مبارک سے ہوئی۔”نکاح“کاعمل انسانیت اور حیوانیت میں ایک حدفاصل کھینچنے کا فریضہ بھی سرانجام دیتاہے۔قبیلہ بنی نوع انسان میں ”نکاح“سے ہی حلال اور غیرحلال کی حدود و مفاصلات ومتعارفات بھی مضبوطی سے منسلک ہیں۔نکاح کا تعلق ٹوٹنے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن جب زوج یعنی شوہر کو دست قدرت موت کی نیند سلادے تو زوجہ کو اصطلاح میں ”بیوگی“کامقام میسر آجاتاہے۔قرآن مجید نے کہا کہ ”خلق الانسان ضعیفا“یعنی انسان کو کمزورپیداکیاگیاہے۔بلاتخصیص مردوزن اس فطری کمزوری میں سب انسان مشترک ہی اوربحیثیت انسان زن و شودونوں اس میں شامل ہیں گویااللہ تعالی کی نظر میں دونوں کمزور ہیں،لیکن ایک ایک ہوتاہے اور دو گیارہ ہوتے ہیں کے مصداق جب ایک جیون ساتھی داغ مفارقت دے جائے تو دوسرا معاشرے کے رحم و کرم پررہ جاتاہے۔جانے والے کی کمی تو سارازمانہ مل کر بھی پوری نہیں کرسکتالیکن کم از کم حقوق و فرائض کی ادائگی میں تو تعاون کرنا انسانیت کے اعلی ترین تقاضوں میں سے ایک ہے۔بیوہ اکیلی ہوتوبھی،یااس کی معیت میں چند ذی روح مزید بھی ہوں تب بھی یمین و یساربسنے والوں پراور دیگر نفوس معاشرے پر جوان متاثرین سے کسی درجہ پر بھی قربت ومودت کا دعوی یاتعلق رکھتے ہوں ان کی ذمہ داریاں دوچندہوجاتی ہیں۔یہ ذمہ داریاں اس حقیقت کا ادراک دلاتی ہیں کہ عورت لذت نفسانی کے لیے پیدانہیں کی گئی کہ اس کے استحصال کے بعد اسے استعمال شدہ ورقہ فاضل کی مانند ردی کو ٹوکری نذر کردیاجائے۔ایک عورت کو عقد میں لانے کے بعد اس کے شوہر سمیت پورے خاندان پر اس کے حقوق و فرائض کا تعین کردیاجاتاہے اور اگر اس کا شوہر اس دارفانی سے کوچ کر جائے تو بھی وہ عورت اس خاندان کی اہم ترین ذمہ داریوں میں شمار کی جاتی ہے۔اوراگر اس عورت کے بچے بھی ہوں توبچے صراحتاََاسی خاندان کی ہی ذمہ داری ہیں۔
بیوہ کا سب سے اولین حق اس کا حق وراثت ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی نے حکم دیاہے کہ”َ وَ لَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ أَزْوَاجُکُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہُنَّ وَلَدٌ فَاِنْ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْ بَعْدِ َوصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بَہَآ أَوْ دَیْنٍ وَ لَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا َترَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌفَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِّنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِہَا أَوْ دَیْنٍ(۴:۲۱)ترجمہ:”اورتمہاری بیویوں نے جوکچھ چھوڑاہواس کا آدھاحصہ تمہیں ملے گا اگروہ بے اولاد ہوں،ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکے کاایک چوتھائی حصہ تمہارا ہے جب کہ وصیت جوانہوں نے کی ہو وہ پوری کردی جائے اور قرض جوانہوں نے چھوڑاہو وہ اداکردیاجائے۔اور وہ تمہارے ترکے میں سے چوتھائی کی حق دارہوں گی اگرتم بے اولاد ہو ورنہ صاحب اولاد ہونے کی صورت میں ان کاحصہ آٹھواں ہوگا،بعد اس کے کہ جووصیت تم نے کی ہووہ پوری کردی جائے اورجوقرض تم نے چھوڑاہو اداکردیاجائے“(سورۃ نساء،آیت12)۔قبل ازوبعداز بعثت نبویﷺ جاہلانہ معاشروں میں مرنے والا اپنی بیوہ کے لیے بے دین اورسیکولرنگاہوں میں حوس نفس کے سوا کچھ چھوڑ کر نہیں جاتا۔آج کی نام نہاد مہذب دنیائیں بھی بیوہ کوبیمہ کے ترازومیں ہی تولتی ہیں۔اگرزوجہ کوحق مہر ادانہیں کیاگیااور شوہر کاانتقال ہو گیاتو شریعت اسلامیہ میں اس بات کو لازم قراردیاگیاہے کہ ترکہ میں سے پہلے حق مہرکی ادائگی کی جائے گی جو قرض کی صورت اختیارکرچکے گا اور بقیہ ترکہ کوورثامیں تقسیم کیاجائے گا۔شوہرکی وفات کے بعد بیوہ پابندہے کہ شوہر کے گھرمیں ہی عدت گزارے کی اور باہر نکلنے سے اور بناؤ سنگھار،خوشبواور سرمہ وغیرہ سے پرہیز کرے گی جوکہ سوگ کی ایک شکل ہے۔اگر بیوہ عورت کوملازمت یاکسی اور معاشی سلسلے میں نکلناپڑے تو جائزہے اس لیے کہ دوران عدت بیوہ کانان نفقہ پسماندگان کی ذمہ داری نہیں ہے۔تاہم اس صورت میں بھی سادگی کادامن ہاتھ سے نکلنا نہیں چاہیے۔دوران عدت سفرکرنے کی بھی ممانعت ہے،سوائے مجبوری کے۔
شریعت اسلامیہ نے بیوہ کے لیے دوسرا ذاتی حق ”عدت“کے نام سے عائد کیاہے۔شوہراوربیوی کے درمیان کسی بھی صورت کی جدائی کے نتیجے میں عورت کے لیے عدت لازمی قراردی گئی ہے۔عدت وہ مدت ہوتی ہے جس میں عورت کو اگلے نکاح کی اجازت نہیں ہوتی،عدت ختم ہونے پر شریعت نے اجازت دی ہے کہ عورت اپنا عقد نوکرسکتی ہے۔بیوہ کی عدت چارماہ دس دن ہے۔ وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ أَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِہُنَّ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَّ عَشْرًا فَاِذَا بَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِی أُنْفُسِہُنَّ بِالْمَعْرُوْفٍ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(۲:۴۳۲)ترجمہ:”تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں،ان کے پیچھے ان کی بیویاں زندہ ہوں،تووہ اپنے آپ کو چارماہ اور دس دن کے لیے روکے رکھیں۔پھرجب ان کی عدت پوری ہوجائے توانہیں اختیار ہے اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے جوچاہیں کریں“(سورہ بقرہ،آیت24)جب کہ یہ اجازت کنواری خاتون کے لیے معدوم ہے کیونکہ وہ اس طرح کے کسی فیصلے کے لیے اپنے ولی کی پابندہے۔اللہ تعالی نے بیوہ کی عدت دیگر خواتین سے نسبتاََزیادہ رکھی ہے جس میں سوگ کاعنصرغالب نظرآتاہے کیونکہ اس دوران ان کے زیب و زینت کی بھی ممانعت کردی گئی ہے۔عدت کا شمار شوہر کی وفات والے دن سے ہوگااگرچہ اطلاع تاخیر سے ملی ہو۔شرم و حیاجیسی اقدارکے تحفظ کرنے والے باکردارمعاشرے میں یہ پابندیاں باعث برکت ثابت ہوتی ہیں جن سے انسانیت کی تکریم کا پہلو واضع طورپراجاگر ہوتاہے۔خالق نسوانیت نے عورت کے جذبات کااس حدتک خیال رکھاہے کہ دوران عدت اسے نکاح کے صریح پیغام دینے کی بھی ممانعت کر دی گئی ہے تاکہ بیوہ کی دل شکنی نہ ہو۔ وَ لَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا عَرَّضْتُمْ بِہٖ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَآءِ أَوْ أَکْنَنَتُمْ فِی أَنْفُسِکُمْ عَلِمَ اللّٰہُ أَنَّکُمْ سَتَذْکُرُوْنَہُنَّ وَ لٰکِنْ لَّا تُوْاعِدُوْہُنَّ سِرًّا اِلاَّ أَنْ تَقُوْلُوْا قَوْلًا مَّعْرُوْفًا وَ لَا تَعْزِمُوْا عُقْدَۃَ النِّکَاحِ حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتٰبُ أَجَلَہ‘ وَ اعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِیْٓ أَنْفُسِکُمْ فَاحْذَرُوْہُ وَ اعْلَمُوْٓا أَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ (۲:۵۳۲)ترجمہ:”(زمانہ عدت میں)خواہ تم ان بیوہ عورتوں کے ساتھ منگنی کاارادہ اشارے کنائے میں ظاہر کردو،خواہ دل میں چھپائے رکھو دونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔اللہ تعالی جانتاہے کہ ان کاخیال تو تمہارے دلوں میں آئے گاہی،مگردیکھو خفیہ عہدوپیمان نہ کرنا،اگرکوئی بات ہے تو معروف طریقے سے کرواورعقدنکاح باندھنے کا فیصلہ اس وقت تک نہ کروجب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے،خوب سمجھ لوکہ اللہ تعالی دلوں کاحال تک جانتاہے ۔لہذااس سے ڈرواوریہ بھی جان لو کہ اللہ تعالی بردبارہے اوردرگزرفرماتاہے“(سورہ بقرہ آیت 235)۔البتہ جن خواتین کے پیٹ میں انسانیت کی امانت ہو ان کی فراغت کے ساتھ ہی عدت ختم ہوجائے گی اگر چہ یہ فراغت مختصر ترین مدت میں ہوجائے یا طویل ترین مدت تک جاکر اختتام پزیر ہو۔َ وَ اَوْلَاتِ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہ‘ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا(۵۶:۴)ترجمہ”اورحاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ ان کاوضع حمل ہوجائے،جوشخص اللہ تعالی سے ڈرے اس کے معاملے میں وہ سہولت پیداکردیتاہے“(سورۃ طلاق،آیت4)۔
بیوہ کا حق ہے کہ اسے اگلا نکاح کرنے دیاجائے،اللہ تعالی نے سورہ نورمیں حکم دیاہے کہ اپنے بے نکاح مردوں اور عورتوں کا نکاح کردو۔بیوہ کے لیے اپنے ولی کی رضامندی ضروری توہے لیکن شرط نہیں ہے۔سورہ بقرہ میں اللہ تعالی نے حکم دیاہے کہ۔ وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ أَنْ یَّنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ اَذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَا نَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکُمْ أَزْکٰی لَکُمْ وَ اَطْہَرُ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ أَنْتُمْ لَا َتعْلَمُوْنَ(۲:۲۳۲)۔ترجمہ:”اورجب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکواور وہ اپنی عدت پوری کرچکیں توپھراس میں مانع نہ ہو کہ اپنے زیرتجویز شوہروں سے نکاح کرلیں،جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پرراضی ہوں،تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگزنہ کرنا،اگرتم اللہ تعالی اورروزآخرت پر ایمان والے ہو،تمہارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے بازرہو،اللہ تعالی جانتاہے تم نہیں جانتے“(سورہ بقرہ آیت232)۔اس آیت میں اگرچہ مطلقات کے لیے کہاگیالیکن بیوگان کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ایک حدیث کامفہوم ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایاکہ”تین کاموں میں جلدی کروجب نمازکاوقت ہوجائے تو اداکرنے میں جلدی کرو،جنازہ تیارہوجائے تودفن کرنے میں جلدی کرواورجب مناسب رشتہ مل جائے تو عورت کانکاح کرنے میں جلدی کرو“(سنن ترمذی)۔بخاری شریف اور مسلم شریف کی ایک روایت کے مطابق آپ ﷺنے فرمایا کہ”کنواری کانکاح نہ کروجب تک کہ اس کی رضامندی نہ لے لواوربیوہ کانکاح نہ کروجب تک کہ اس سے اجازت (حکم)نہ لے لو“۔اگرکوئی بیوہ کسی امرشرعی کے باعث اپنے عقد نکاح سے احتراز کرتی ہے توایسا کرناجائز اور پسندیدہ ہے۔
اللہ تعالی کے ہاں اس کی مخلوق کی خدمت کسی بھی اور عمل سے کہیں بڑھ کر ہے۔مخلوق میں جوجتناقریب اور جس قدر کمزورہواس کااتنازیادہ حق ہے اوراس کے حق اداکرنے پر اجروثواب بھی اتنازیادہ ہوتاہے۔آپﷺ نے فرمایاکہ ”بیوہ اور مسکین کی خبرگیری کرنے والا اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے“ایک اورروایت کے الفاظ ہیں کہ ”بیوہ اور مسکین کی خبرگیری کرنے والاایسے تہجد گزارکی طرح ہے جو سست نہیں ہوتا اور ایسے روزے دارکی طرح ہے جو ناغہ نہیں کرتا“۔اس سے بڑی اور کیابات ہو گی کی محسن نسوانیت ﷺکے عقد میں آنے والی ایک کے علاوہ سب بیوہ خواتین تھیں۔ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھاتودوشوہروں سے بیوہ تھیں۔آپ ﷺکی تعلیمات میں عورتوں کا عام طورپر اور مظلوم عورتوں کاخاص طورپر بہت اعلی مقام ہے۔بیوہ عورت کی خبرگیری کرنے والے کے لیے کتنے کتنے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔حضرت ابوبکرؓکادورحکومت ہے اور ایک نابینابیوہ خاتون کے گھرحضرت عمر بن خطاب جاتے تھے تاکہ اس کے خانگی ضروری امورنمٹادیے جائیں لیکن وہ حیران ہوتے تھے کہ ان کے آنے سے پہلے ہی اس بزرگ نابینابیوہ خاتون کے گھر کے کام کاج کوئی کر کے چلاجاتاتھا۔ایک دن علی الصبح منہ اندھیرے حضرت عمر اس کھوج میں لگے کہ کون یہ اعلی درجے والی فضیلت کاثواب حاصل کرنے کی سعادت حاصل کر تاہے تو وہ حیران رہ گئے کہ خلیفۃ الرسول حضرت ابوبکر صدیق تشریف لائے اور گھر کاکام کاج،صفائی،جانوروں کی دیکھ بھال اور دوسرے ضروری امور سرانجام دے کر نماز کے لیے مسجد کو سدھارگئے۔
دنیاکاقدیم ترین مذہب ہونے کادعوی ہندومت کاہے،اس مذہب نے بیوہ کی زندگی کا جواز ہی ختم کردیاہے اور ہندومت کی کتب میں لکھاہے کہ شوہر کے مرنے پر اس کی بیوہ سہاگ رات کی طرح تیارہوکر اورسونے چاندی کے زیورات سے آراستہ ہوکر گویا باردیگردلہن بن کر آئے اور اس جیتی جاگتی عورت کو شوہر کی مردہ لاش کے ساتھ باندھ کر زندہ نذرآتش کر دیاجائے۔کتناظالمانہ اور غیرانسانی سلوک ہے جو ایک عورت کے ساتھ روارکھے جانے کاحکم دیاجارہاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بیوہ کو منحوس خیال کیاجاتاہے،اسے سبزقدم قراردیاجاتاہے،اس کے سسرال والے اس کے شوہر کے مرنے کا سبب اسی کوقراردیتے ہیں اور اگروہ کسی وجہ سے شوہر کی چتاکے ساتھ ستی ہونے سے بچ بھی جائے توساری عمر لعن،طعن،علیحدگی،محرومی اوراستحصال اس کا مقدر بنے رہتے ہیں اورعقد ثانی کاتوسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔یہودیت کی تعلیمات کے مطابق بیوہ پابندہے کی اپنے دیورسے شادی کرے اور اگردیور شادی سے انکارکردے عورت کو حکم دیاگیاہے کہ وہ خاندانی جرگوں میں جاکر اپنے دیورپر دباؤ ڈلوائے تاکہ وہ اس بیوہ سے شادی کرے کیونکہ یہودی مذہبی کتب کے مطابق شوہرکی وفات کے بعد بیوہ مرحوم کے بھائی کی ملک ہوجاتی ہے۔مذہب یہودیت میں بیوہ کو حق وراثت سے بھی محروم رکھاگیاہے۔مذہب عیسائیت میں تو جنت سے نکالے جانے کی ذمہ دار عورت،اماں حوا،کوقراردیاگیاہے۔اس سے بڑھ کر یہ کہ بیوگی تو پھر بھی نکاح کے بعد وقوع پزیر ہوتی ہے جب کہ مذہب عیسائیت میں تجرد کی زندگی کو پسند کیاجاتاہے اور خاص طورپر جو خواتین اپنے آپ کو یسوع مسیح کے سپرد کر دیں ان کے لیے نکاح کرنامطلقاََناجائز ہوتاہے اور وہ ”کنواری ماں“کی حیثیت سے فوت ہوجاتی ہیں۔
بیوہ عورتوں کے لیے جس طرح کی قانون سازی اسلام نے کی ہے وہ صرف وحی کو ہی سزاوارہے۔اس قانون کی ایک ایک شق پکارپکارکر بتاتی ہے کہ یہ قوانین کسی طرح کی انسانی عقل سے کہیں باہر ہیں۔اس قانون پر عمل کرنے والے معاشرے ہر طرح کے نسوانی استحصال سے محفوظ رہتے ہیں کیونکہ یہ خالق کائنات کے بھیجے ہوئے اصول و ضوابط ہیں۔اس کے مقابلے میں ماضی بعید سے تاحال نسوانی مسائل کے جتنے حل بھی پیش کیے گئے تاریخی تجربے نے انہیں منہ پر دے ماراہے۔آج کے سیکولرازم نے تو عورت پر ظلم و ستم اور زوروزبردستی کی ساری حدیں پھلانگ ماری ہیں۔مورخ جب کبھی بھی قلم اٹھائے گاتونسوانیت پر ننگ انسانیت رویوں کی فرد جرم سیکولرازم پر ثبت کردے گا۔نکاح جیسے ادارے کو ثبوتاژکر کے نسل انسانی کو مشکوک کرنا اور جنگل کے جانوروں سے بڑھ کر نسائیت کے دامن عصمت کوتارتارکرکے انسانیت کی کمر میں چھراگھونپنے کامکروہ دھندے کاسہرا اسی سیکولرازم کے سر پر ہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بیوہ کے لیے سیکولرازم کے ہاں کوئی نرم گوشہ نہیں ہے سوائے تسکین ہوس نفس کے۔اس سیکولرازم نے آزادی نسواں کے نام پر بدکاری کی آزادی کابازارگرم کررکھاہے اور محتاج نسواں معیشیت آج کے سرمایادارانہ نظام کے ماتھے پر کلنک کاٹیکہ بن چکاہے۔سیکولرازم نے عورت سے پیٹ کافطری بوجھ چھین کر مردانہ امور دنیاداری کاغیرفطری بوجھ اس کے خوبصورت جسم پر لاددیاہے جس کے نتیجے میں خاندانی نظام کی بساط لپٹتی چلی جارہی ہے اورانسانیت پیچھے اس سیکولرازم کے اجتماعی خود کشی کی طرف صف آرا ہے۔بہترتھاکہ یومنون باالغیب کی بنیادپر انسان اپنے رب کی طرف پلٹ آئے لیکن چاہتے ہوئے یانہ چاہتے ہوئے بھی بالآخرانسان کو اپنے حقیقی الہ کی طرف پلٹنا ہی ہے۔اب وہ وقت آن پہنچاہے کہ انسان اپنے مالک حقیقی کو پہچان لے اورباقی تمام شریکوں کو خیرآباد کہ دے۔
علی پور کا ایلی ناول پر تبصرہ
"علی پور کا ایلی، مُمتاز مُفتی کا شاہ کار ناول ہے جو 1961ء میں زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر...