(Last Updated On: )
کسی گائوں میں ایک بے وقوف شخص رہتا تھا۔ شادی کے بعد جب وہ پہلی بار بیوی کو لینے اپنے سسرال جانے لگا تو اس نے اپنے دل میں سوچا۔
’’پہلی بار سسرال اس طرح جانا چاہیے کہ سب پر رعب جم جائے۔‘‘
اس خیال کے ساتھ ہی وہ اپنے ذہن میں مختلف ترکیبیں سوچنے لگا۔ لیکن اس کی سمجھ میں کوئی ایسا طریقہ نہ آیا جس سے اس کے سسرال والوں پر اس کا رعب پڑ جاتا۔اس کے پڑوس میں ایک جاٹ رہتا تھا۔ اس نے سوچا۔
’’کیوں نہ جاٹ سے کوئی مشورہ لوں؟ وہ یقینا کوئی اچھی ترکیب بتا دے گا۔‘‘
یہ سوچ کر وہ اپنے پڑوسی جاٹ کے پاس گیا۔ جاٹ اسے آتا دیکھ کر بولا۔
’’آئوبھئی آج ادھر کیسے آنا ہو گیا؟‘‘
بے وقوف نے اس سے کہا۔
’’میں تم سے ایک ضروری مشورہ کرنے آیا ہوں۔‘‘
’’کہو کیا بات ہے؟‘‘
جاٹ نے پوچھا جس پر بے وقوف کہنے لگا۔
’’دراصل بات یہ ہے کہ میں پہلی بار اپنے سسرال جا رہا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ سسرال والوں پر میرا رعب پڑ جائے۔ تم مجھے کوئی ایسا طریقہ بتائو جس سے میرے سسرال والے مجھ سے مرعوب ہو جائیں۔‘‘
جاٹ کو یہ تو معلوم تھا کہ وہ انتہائی بے وقوف ہے اور اس سے جو کچھ کہا جائے وہی کرے گا۔ اس لیے اس نے اس سے کہا۔
’’سسرال جا رہے ہو تو کسی بھی زیادہ بات چیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس تم پھُر پھُر کرتے چلے جائو۔‘‘
بے وقوف بولا۔
’’اچھا میں ایسا ہی کروں گا۔‘‘
چنانچہ بے وقوف جاٹ سے رخصت ہو کر پھُر پھُر کرتا ہوا اپنے سسرال کی طرف چل دیا۔ راستے میں ایک جگہ ایک شکاری اپنا جال بچھائے بیٹھا تھا۔ وہاں سے قریب ہی کچھ کبوتر دانہ دنکا چگ رہے تھے اور شکاری اس انتظار میں تھا کہ کب اس کا دائو چلے اور وہ کبوتروں کو جال میں پھنسا لے۔ اتنے میں بے وقوف اپنے منہ سے زور زور سے پھُر پھُر کی آوازیں نکالتا ہوا وہاں آ نکلا۔ اس کی پھُر پھُر سے سارے کبوتر اڑ گئے۔ شکاری نے یہ دیکھا تو اسے بڑا تائو آیا۔ اس کا پھنسا پھنسایا شکار ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ اس نے بڑھ کر بے وقوف کو پکڑ لیا اور غصہ میں اس کی ٹھکائی کر دی۔ پھر اس کو چھوڑتے ہوئے بولا۔
’’بے وقوف پھُر پھُر نہیں کیا کرتے بلکہ یوں کہتے ہیں۔ آتے جائو پھنستے جائو۔ آتے جائو پھنستے جائو۔‘‘
بے وقوف کہنے لگا۔
’’اچھا اب ایسا ہی کہوں گا۔‘‘
اور اب وہ آتے جائو پھنستے جائو کہتا ہوا اپنے سسرال کی طرف چل دیا۔
راستے میں ایک جگہ چند چور کہیں چوری کر کے آ رہے تھے۔ وہ جب بے وقوف کے قریب سے گزرنے لگے تو انہوں نے سنا، بے وقوف کہتا آ رہا تھا۔
’’آتے جائو پھنستے جائو۔ آتے جائو پھنستے جائو۔‘‘
ان کو بڑا غصہ آیا کہ یہ شخص کیا کہہ رہا ہے؟ ان کے لیے تو یہ بدشگونی تھی۔ انہوں نے قریب جا کر بے وقوف کو پکڑ لیا اور پھر تلے اوپر کئی ہاتھ لگا کر کہا۔
’’بے وقوف یہ نہیں کہا کرتے بلکہ یوں کہتے ہیں، لاتے جائو رکھتے جائو۔ لاتے جائو رکھتے جائو۔‘‘
بے وقوف بولا۔
’’اچھا اب ایسا ہی کہوں گا۔‘‘
اس کے بعد وہ لاتے جائو رکھتے جائو کہتا ہوا دوبارہ اپنے سسرال کی طرف چل دیا۔
راستے میں ایک گائوں آیا جہاں کچھ لوگ کندھوں پر جنازہ اٹھائے جا رہے تھے۔ مرنے والے کے سوگ میں لوگ افسردہ اور خاموش جا رہے تھے کہ اتنے میں بے وقوف آ کر کہنے لگا۔
’’لاتے جائو رکھتے جائو۔ لاتے جائو رکھتے جائو۔‘‘
لوگوں کو اس پر بڑا تائو آیا کہ یہ شخص اس سوگ اور غم کے موقع پر کیا بات کر رہا ہے؟ ایک دو گرم مزاج آدمیوں سے برداشت نہ ہو سکا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر بے وقوف کی پٹائی کر دی اور ڈانٹتے ہوئے کہا۔
’’بے وقوف اس طرح نہیں کہا کرتے بلکہ یوں کہتے ہیں۔ خدا یہ دن کسی کو نہ دکھائے۔ خدا یہ دن کسی کو نہ دکھائے۔‘‘
بے وقوف بولا۔
’’اچھا اب ایسا ہی کہوں گا۔‘‘
ا ب وہ خدا یہ دن کسی کو نہ دکھائے کی رٹ لگاتا ہوا پھر اپنے سسرال کے گائوں کی طرف سفر کرنے لگا۔
وہ جا رہا تھا کہ راستے میں ایک گائوں پڑا۔ وہ گائوں کی گلیوں سے گزرتا ہوا جا رہا تھا کہ اس ین دیکھا، ایک گھر میں سے ڈھولک بجنے اور گانے کی آواز آ رہی تھی۔ ایک طرف چند براتی نئے نئے کپڑے پہنے بیٹھے تھے اور دیگیں پک رہی تھیں۔ بے وقوف جب ان کے قریب سے گزرا تو کہنے لگا۔
’’خدا یہ دن کسی کو نہ دکھائے۔ خدا یہ دن کسی کو نہ دکھائے۔‘‘
اس کا اتنا کہنا تھا کہ دو ایک براتیوں نے اسے پکڑ لیا اور خوب مرمت کی۔ اس کے بعد انہوں نے اسے چھوڑتے ہوئے کہا۔
’’بے وقوف اس طرح نہیں کہا کرتے بلکہ یوں کہتے ہیں۔ گھر گھر اسی طرح ہو۔ گھر گھر اسی طرح ہو۔‘‘
بے وقوف بولا۔
’’اچھا اب میں ایسے ہی کہوں گا۔‘‘
اس نے پھر اپنے سسرال کا راستہ لیا اور گھر گھر اسی طرح ہو کہتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
راستے میں ایک ایسا گائوں آیا جہاں ایک گھر میں آگ لگی ہوئی تھی اور ادھر ادھر کے لوگ آگ بجھانے میں لگے ہوئے تھے۔ کوئی پانی بھر بھر کر لا رہا تھا، کوئی شعلوں پر مٹی پھینک رہا تھا اور کوئی گھر کا سامان بچانے میں لگا ہوا تھا۔ اس طرح وہاں اس وقت ایک افراتفری کا سماں تھا۔ اتنے میں بے وقوف کا بھی وہاں سے گزر ہوا۔ وہ جب جلتے ہوئے مکان کے قریب سے گزرا تو بولا۔
’’ گھر گھر اسی طرح ہو۔ گھر گھر اسی طرح ہو۔‘‘
پاس کھڑے کچھ لوگوں نے جب یہ سنا تو انہیں بہت غصہ آیا کہ ایک طرف چاروں کا گھر جل رہا ہے اور یہ کہتا ہے۔
’’گھر گھراسی طرح ہو۔‘‘
انہوں نے آگے بڑھ کر بے وقوف کو پکڑ لیا اور اچھی طرح ٹھکائی کر دی۔ جب وہ سب اپنا غصہ نکال چکے تو اسے چھوڑتے ہوئے بولے۔
’’بے وقوف اس طرح نہیں کہا کرتے بلکہ خاموش ہو جاتے اور کوئی بات نہیں کرتے۔‘‘
بے وقوف بولا۔
’’اچھا اب میں ایسے ہی کروں گا۔‘‘
چنانچہ وہ چپ چاپ اپنے سسرال کی جانب چل دیا۔ اب وہ نہ راستے میں کسی سے کچھ کہتا نہ سنتا،بس خاموشی سے سفر کرتا رہا۔
اسی طرح جب وہ اپنے سسرال پہنچا اور گھر میں داخل ہوا تو اس نے نہ کسی سے سلام دعا کی اور نہ کسی کا حال احوال دریافت کیا۔ بس خاموشی سے گیا اور چپ چاب ایک طرف کو جا کر بیٹھ گیا۔گھر والوں کو بڑا تعجب ہوا کہ۔
’’یہ کوئی بات کیوں نہیں کرتا۔‘‘
اس کی ساس نے اس سے پوچھا۔
’’بیٹا گھر میں خیریت ہے نا؟‘‘
آگے سے بے وقوف نے کوئی جواب نہ دیا اور ٹکر ٹکر بیٹھا دیکھتا رہا۔ سسرال والوں کو فکر ہوئی کہ :
’’کہیں اس کا دماغ تو چل نہیں گیا۔‘‘
اس کی ساس پھر پوچھنے لگی۔
’’کہو بیٹا طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری؟‘‘
مگر وہاں سے تو جواب میں صرف ایک چپ تھی۔ اس کی ساس پھر پوچھنے لگی۔
’’کیوں بیٹا بولتے کیوں نہیں؟ آخر بات کیا ہے؟‘‘
لیکن بیٹا تھا کہ بت بنا بیٹھا رہا۔ راستے میں کئی بار ٹھکائی ہونے کی وجہ سے اس کا جوڑ جوڑ درد کر رہا تھا اور وہ دل میں سوچ رہا تھا کہ:
’’راستے میں جہاں بھی بولا پٹائی ہو گئی۔ اب یہاں بھی بولا تو پٹ جائوں گا۔‘‘
اس کے سسر نے فکر مند ہوتے ہوئے کہا۔
’’آخر تم بولتے کیوں نہیں؟ کچھ تو بتائوتو، تمہیں کیا ہوا ہے؟‘‘
لیکن بے وقوف پھر بھی خاموش رہا۔
اس کے بعد گھر کے ہر فرد نے اپنی طرف سے پوری پوری کوشش کر دیکھی کہ کسی طرح وہ کوئی بات کرے مگر بے وقوف اسی طرح بت بنا بیٹھا رہا۔ یہ دیکھ کر اس کی ساس رونے لگی اور کہنے لگی۔
’’ہائے بیٹا تجھے کیا ہو گیا ہے؟‘‘
وہ سینے ر دو ہتڑ مار مار کر رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی۔
’’ہائے رے اب میری بیٹی کا کیا ہو گا؟‘‘
ساس کو روتا دیکھ کر اس کی بیوی بھی رونے لگی۔
’’ہائے میری قسمت پھوٹ گئی۔ میں تو زندہ درگور ہو گئی۔‘‘
جب بے وقوف نے دیکھا کہ ساس کے ساتھ بیوی بھی رونے لگی ہے تو وہ آہستہ سے بولا۔ ’’ایسے موقع پر ہمیشہ خاموش رہتے ہیں۔‘‘
اب تو گھر والوں کو یقین ہو گیا کہ ان کا داماد پاگل ہو گیا ہے اور اس قسم کے پاگل کے ساتھ اپنی بیٹی کو بھیجنا اسے زندہ درگور کرنا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس کے سامان کی گٹھڑی اور اس کی لاٹھی اس کے ہاتھ میں دی اور رخصت کرتے ہوئے کہا۔
’’ایسے داماد سے ہم ایسے ہی بھلے۔‘‘
اور بے وقوف جس طرح چپ چاپ گیا تھا اسی طرح خاموشی سے واپس اپنے گھر کی طرف چل دیا۔مار کھائی، لوگوں کی گالیاں بھی سنیں اور بیوی بھی ہاتھ سے گئی۔
اس واقعہ کو جگ بیت چکے ہیں مگر وہ دن اور آج کا دن، کوئی بے وقوف اس کے بعد اس طرح خاموش نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ بے وقوف ہمیشہ بولتے رہتے ہیں۔٭
( پنجابی لوک داستانیں ، شفیع عقیل ، ص:255نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد ، اشاعت پنجم 2016ء )
٭٭٭
چاچڑاں شریف
چاچڑاں شریف پاکستان کا ایک آباد مقام جو تحصیل خانپورضلع رحیم یار خان میں واقع ہے۔ یہ تحصیل خانپورکی ایک یونین کونسل بھی ہے۔ یہ شہر دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد ہے۔ چاچڑاں شریف کی وجہ ٔ شہرت عظیم صوفی بزرگ اور سرائیکی زبان کے عظیم شاعر خواجہ
غلام فریدؒ کی جائے پیدائش ہونا ہے۔ آپؒ کا مزار کوٹ مٹھن میں مرجع خلائق ہے۔
ماضی میں چچ نامی ایک بادشاہ گزرا ہے جس نے رائے خاندان کی حکومت ختم کر کے سیت پور داجل اور اروڑسندھ میں اپنی حکومت کی بنیاد رکھی۔ اس قصبے کا نام اسی چچ نامی بادشاہ کی مناسبت سے چاچڑاں رائج ہو گیا۔ بعض روایات کے مطابق اس قصبہ کی بنیاد چاچڑ قوم
کے ایک فرد نے رکھی۔
چاچڑاں شریف ایک تاریخی شہر ہے۔ یہاں کئی تاریخی عمارتیں ہیں، جن میں فرید محل اور
جامعہ فریدیہ کی عمارتیں بہت مشہور ہیں۔
فریدی محل:نواب آف بہاولپور نے خواجہ غلام فرید سے خراج عقیدت کے طورفریدی محل1894ء میں بنوایا۔ دو سال تعمیرات کے بعد 1896ء میں مکمل ہوا۔ فریدی محل کی پہلی
اینٹ حضرت فضل حق منگھیروی نے بسم اللہ پڑھ کر لگائی۔
اس عمارت کی تعمیر میں حفاظ کرام نے بھی حصہ لیا۔ تعمیر مکمل ہونے کے بعدخواجہ صاحب تشریف لائے۔ اس موقع پر وہاں موجود مصاحبین کے محفل ذکر کی صدارت کی اور مشکوۃ
شریف کا درس دیا۔
٭٭٭
شفیع عقیل
شفیع عقیل