پاکستانی نارویجئن ڈائریکٹر، کہانی نویس اور اداکار ٹونی عثمان پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے بارے میں اسی عنوان سے ایک اسٹیج ڈرامہ پیش کرنے والے ہیں۔ پروگرام کے مطابق اس ڈرامہ کا پریمئم 9 اکتوبر کو اوسلو کے ایک تھیٹر میں ہوگا۔ 4 اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر ’کاروان‘ نے بھٹو کو سزائے موت کے موضوع اسٹیج ڈرامہ پیش کرنے کے حوالے سے ٹونی عثمان سے بات چیت کی اور ان سے استفسار کیا کہ وقوعہ کے 46 سال بعد اس موضوع پر اسٹیج پر ڈرامہ پیش کرنے کا کیا مقصد ہے۔ ان سے یہ استفسار بھی کیا گیا کہ یہ ڈرامہ اوسلو کے ایک تھیٹر میں نارویجئن زبان میں پیش کیا جائے گا۔ اس کے ناظرین بھی یہی زبان سمجھنے والے لوگ ہوں گے جو عام طور سے پاکستانی سیاست، تاریخ اور شخصیات سے آگاہی نہیں رکھتے تو اس سے کیا مقصد حاصل ہوگا۔ ٹونی عثمان کا کہنا تھا کہ سزائے موت پر عمل سے پہلے کال کوٹھری میں ذوالفقار علی بھٹوکے آخری دن انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ پہلو اب بھی پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی سیاسی تناظر میں بھی اہم ہے کہ اس دوران بھٹو صاحب کیا سوچتے تھے اور وہ کس جذباتی و نفسیاتی کیفیت سے گزر رہے تھے۔ ٹونی عثمان کا کہنا تھا کہ اس ڈرامہ میں صرف سزائے موت کا انتظار کرنے والے ایک قیدی کی کیفیت ہی کو پیش نہیں کیا جائے گا بلکہ اس میں ذوالفقار علی بھٹو کی ساری زندگی، نظریات اور سیاسی کردار پر بھی نگاہ ڈالی جائے گی۔ کوشش کی گئی ہے کہ بھٹو صاحب کو کوئی دیوتا بنا کر پیش نہ کیا جائے بلکہ یہ دکھایا جائے کہ وہ کون تھے، ان کا ماضی کیا تھا اور وہ مختلف حالات سے گزرتے ہوئے کیسے اس دوراہے تک پہنچ گئے جہاں موت سے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں تھا۔ ٹونی عثمان کا کہنا ہے کہ بھٹو صاحب کو خود بھی اندازہ تھا کہ فوجی آمر ضیا الحق انہیں پھانسی دے کر رہے گا کیوں کہ خود اپنی ذات کو لاحق خوف کے علاوہ اس وقت بین الاقوامی حالات بھی یہی تقاضہ کرتے تھے کہ انہیں راستے سے ہٹا دیا جائے۔ امریکہ افغان مجاہدین کے ذریعے افغانستان میں سوویٹ یونین کے خلاف جنگ کی تیاری کررہا تھا۔ اس جنگ جوئی میں ذوالفقار علی بھٹو جیسا سوشلسٹ خیالات رکھنے والا لیڈر پاکستان کو ملوث ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔ بھٹو اپنی سیاسی فہم اور عالمی امور پر نگاہ رکھنے کی وجہ سے جانتے تھے کہ اس جنگ سے پاکستان کن مشکلات کا سامنا کرسکتا ہے۔ ایک محب وطن لیڈر کے طور پر بھی وہ کبھی اس جنگ کا حصہ نہ بنتے جبکہ ضیاالحق اس کام میں امریکہ کی مدد کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ بھٹو کو سزائے موت سے پہلے پورا یقین ہوچکا تھا کہ ان کا آخری وقت آچکا ہے۔ اسی لیے اس ڈرامہ میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایسی جذباتی کیفیت کا شکار شخص کیسے سوچتا ہے اور ان دنوں میں بھٹو صاحب پاکستان کے مستقبل اور عوام کی بہبود کے بارے میں کن تفکرات میں مبتلا تھے۔ ڈرامہ ’سزائے موت‘ کے تخلیق کار اور ڈائیریکٹر ٹونی عثمان ڈرامہ و فلمی اداکاری اور ڈائریکشن کا تیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی قد و قامت اور عالمی و قومی تناظر میں بھٹو کی اہمیت سے قطع نظر بطور ڈائیریکٹر ان کے خیال میں بھٹو کی شخصیت انتہائی ڈرامائی تھی۔ وہ اسٹیج ڈرامہ کا ایک دلچسپ اور منفرد کردار تھے۔ ان کی بول چال و حرکات و سکنات میں ڈرامہ تھا جس کا مشاہدہ ان کی زندگی کے مختلف ادوار میں بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ اس پہلو سے بھی ان پر اسٹیج ڈرامہ پیش کرنا ایک دلچسپ اور پیشہ وارانہ طور سے بڑا چیلنج تھا۔ اس کے علاوہ ذولفقار علی بھٹو پاکستانی معاملات کے علاوہ عالمی امور میں گہری بصیرت رکھتے تھے۔ انہوں نے 1974 میں فلسطین کو خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا تھا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ خود مختار فلسطین کے سوا مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعہ کا کوئی حل نہیں ہے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ نارویجئن حکومت نے پچاس سال بعد 2024 میں فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی سے بھٹو کی ذہانت اور معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اوسلو میں نارویجئن زبان میں ذوالفقار علی بھٹو پر اسٹیج ڈرامہ پیش کرنے کے بارے میں ٹونی عثمان کا کہنا تھا کہ ایک تو بھٹو کی عالمی اپیل اور بین الاقوامی معاملات میں ان کی خدمات کے تناظر میں وہ نارویجئن ناظرین کے لیے بھی کوئی اجنبی شخصیت نہیں ہیں۔ پھر جن حالات میں انہیں سزائے موت دی گئی، ان میں دنیا کا ہر شہری دلچسپی رکھتا ہے۔ کسی فنکارانہ پیش کش میں اس بات کی اہمیت نہیں ہوتی کہ کوئی تخلیق کتنے لوگوں تک رسائی پاتی ہے بلکہ یہ اہم ہوتا ہے کہ کیا بتانے یا دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے ناروے کی مقامی زبان میں اس پیش کش میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ ٹونی عثمان نے کہا کہ یورپ میں عام طور سے مختلف النسل لوگوں و فنکاروں سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہلے سے قائم کیے گئے اسٹیریو ٹائپ ہی کو قبول کرکے اسی فورمیٹ میں اپنی کہانی سنائیں۔ لیکن بطور فنکار یہ فیصلہ مجھے کرنا ہے کہ میں کون سی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔ اس کی خوبی و کمزوری کا اندازہ اس پیش کش کے تکنیکی پہلوؤں کو دیکھ کر ہی ہونا چاہئے۔ اس حوالے میں سمجھتا ہوں کہ نارویجئن تھیٹر میں مرضی کی کہانی سنانے کا حق حاصل کرنے کی بحث ضروری ہے۔ یہ ڈرامہ بھی میری انہی کوششوں کے سلسلہ کی کڑی ہے۔ ٹونی عثمان کا کہنا تھا کہ بھٹو کی زندگی اور ان کی موت سے ہم پچاس سال بعد بھی یہ سیکھ سکتے ہیں کہ آج بھی بڑی طاقتیں کمزوروں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتی ہیں جو بھٹو کی زندگی میں کیا جاتا تھا۔ اسی رویہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے دسمبر1971 میں مشرقی پاکستان کے حوالے سے پولینڈ کی قرارداد کو مسترد کیا تھا۔ اس وقت بڑی طاقتوں نے پاکستان کو پیغام دیاتھا کہ ہم نے ایک فیصلہ کرلیا ہے، اب آپ اسے مان کرعمل کریں۔ عالمی طاقتوں کے اسی رویہ کا مظاہرہ اس سال 2 مارچ کو وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کے صدر ذیلنسکی کے ساتھ روا رکھا۔ اب بھی یوکرین کو یہی پیغام دیا گیا کہ ہم نے ایک فیصلہ کرلیا ہے اور کمزور فریق کے طور آپ اسے قبول کرلیں۔ یوں دیکھا جائے تو عالمی سیاست میں معاملات طے کرانے کے حوالے سے عالمی طاقتوں کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ’کاروان‘ کے سوال کے جواب میں ٹونی عثمان نے بتایا کہ ناروے میں یہ ڈرامہ پیش کرنے کے بعد ان کی خواہش ہوگی کہ اسے انگریزی یا اردو میں بھی پیش کیا جاسکے لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ ان زبانوں میں پیشکش کے لیے کیسے لوگ یاادارے دستیاب ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں کسی کردار کا ڈرامائی طور سے پیش کرنے کے لیے اس کی شخصیت کے منفی و مثبت ہر طرح کے پہلوؤں کو سامنے لانا ضروری ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں ایسے متوازن رویہ کو تسلیم کرنے کا رجحان کم ہے۔ تحریر : سید مجاہد علی