(Last Updated On: )
آیا تھا خانقہ میں وہ نور دیدگاں کا تہ کر گیا مصلیٰ عزلت گزید گاں کا آخر کو خاک ہونا درپیش ہے سبھوں کو ٹک دیکھ منھ کدھر ہے قامت خمیدگاں کا جو خار دشت میں ہے سو چشم آبلہ سے دیکھا ہوا ہے تیرے محنت کشید گاں کا تیرِ بَلا کا ہر دم اب میرؔ ہے نشانہ پتھر جگر ہے اُس کے آفت رسیدگاں کا