(Last Updated On: )
آگے جمالِ یار کے معذور ہو گیا گُل اک چمن میں دیدۂ بے نور ہو گیا اک چشمِ منتظر ہے کہ دیکھے ہے کب سے راہ جوں زخم تیری دوری میں ناسور ہو گیا پہنچا قریبِ مرگ کے وہ صیدِ ناقبول جو تیری صید گاہ سے ٹک دور ہو گیا اُس ماہِ چاردہ کا چھپے عشق کیوں کہ آہ اب تو تمام شہر میں مشہور ہو گیا شاید کسو کے دل کو لگی اُس گلی میں چوٹ میری بغل میں شیشۂ دل چور ہو گیا دیکھا جو میں نے یار کو وہ میرؔ ہی نہیں تیرے غمِ فراق میں رنجور ہو گیا