(Last Updated On: )
اُس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا ہم رہروانِ راہِ فنا ہیں بہ رنگِ عمر جاویں گے ایسے کھوج بھی پایا نہ جائے گا پھوڑا سا ساری رات جو پکتا رہے گا دل تو صبح تک تو ہاتھ لگایا نہ جائے گا اپنے شہیدِ ناز سے بس ہاتھ اُٹھا کہ پھر دیوانِ حشر میں اُسے لایا نہ جائے گا اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا ہم بے خودانِ محفلِ تصویر اب گئے آئندہ ہم سے آپ میں آیا نہ جائے گا گو بیستُوں کو ٹال دے آگے سے کوہ کن سنگِ گرانِ عشق اُٹھایا نہ جائے گا یاد اس کی اتنی خوب نہیں میرؔ باز آ نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا