(Last Updated On: )
اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہو گا دشمن کے بھی دشمن پر ایسا نہ ہوا ہو گا ٹک گورِ غریباں کی کر سیر کہ دنیا میں ان ظلم رسیدوں پر کیا کیا نہ ہوا ہو گا ہے قاعدۂ کلی یہ کُوئے محبت میں دل گم جو ہوا ہو گا پیدا نہ ہوا ہو گا اس کہنہ خرابے میں آبادی نہ کر منعم اک شہر نہیں یاں جو صحرا نہ ہوا ہو گا آنکھوں سے تری ہم کو ہے چشم کہ اب ہووے جو فتنہ کہ دنیا میں برپا نہ ہوا ہو گا جز مرتبۂ کُل کو حاصل کرے ہے آخر اک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہ ہوا ہو گا صد نشترِ مژگاں کے لگنے سے نہ نکلا خوں آگے تجھے میرؔ ایسا سودا نہ ہوا ہو گا