(Last Updated On: )
بارہا گور دل جھکا لایا اب کے شرطِ وفا بجا لایا قدر رکھتی نہ تھی متاعِ دل سارے عالم میں مَیں دکھا لایا دل کہ اک قطرۂ خوں نہیں ہے بیش ایک عالم کے سر بَلا لایا سب پہ جس بار نے گرانی کی اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا دل مجھے اُس گلی میں لے جا کر اور بھی خاک میں ملا لایا ابتدا ہی میں مر گئے سب یار عشق کی کون انتہا لایا اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ پھر ملیں گے اگر خدا لایا