(Last Updated On: )
بھلا ہو گا کچھ اک احوال اس سے یا برا ہو گا مآل اپنا ترے غم میں خدا جانے کہ کیا ہو گا تفحض فائدہ ناصح تدارک تجھ سے کیا ہو گا وہی پاوے گا میرا درد دل جس کا لگا ہو گا کسو کو شوق یا رب بیش اس سے اور کیا ہو گا قلم ہاتھ آ گئی ہو گی تو سو سو خط لکھا ہو گا معیشت ہم فقیروں کی سی اخوانِ زماں سے کر کوئی گالی بھی دے تو کہہ بھلا بھائی بھلا ہو گا خیال اُس بے وفا کا ہم نشیں اتنا نہیں اچھا گماں رکھتے تھے ہم بھی یہ کہ ہم سا آشنا ہو گا قیامت کر کے اب تعبیر جس کو کرتی ہے خلقت وہ اُس کوچے میں اک آشوب سا شاید ہوا ہو گا نہ ہو کیوں غیرتِ گلزار وہ کوچہ خدا جانے لہو اس خاک پر کن کن عزیزوں کا گرا ہو گا بہت ہم سائے اس گلشن کے زنجیری رہا ہوں میں کبھو تم نے بھی میرا شور نالوں کا سنا ہو گا نہیں جُز عرش جاگہ راہ میں لینے کو دم اُس کے قفس سے تن کے مرغِ روح میرا جب رہا ہو گا کہیں ہیں میرؔ کو مارا گیا شب اُس کے کُوچے میں کہیں وحشت میں شاید بیٹھے بیٹھے اُٹھ گیا ہو گا