(Last Updated On: )
تھا مستعار حسن سے اُس کے جو نور تھا خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا ہنگامہ گرم کن جو دلِ ناصبور تھا پیدا ہر ایک نالے سے شورِ نشور تھا پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم یک شعلہ برقِ خرمنِ صد کوہِ طور تھا مجلس میں رات ایک ترے پرتوے بغیر کیا شمع کیا پتنگ ہر اک بے حضور تھا منعم کے پاس قاقم و سنجاب تھا تو کیا اُس رند کی بھی رات گزر گئی جو غور تھا ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سپہر اُس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا