عرضی میر امن دلی والے کی
جو
مدرسے کے مختار صاحبوں کے حضور میں دی گئی۔
صاحبان والا شان نجیبوں کے قدر دانوں کو خدا سلامت رکھے۔ اس بے وطن نے حکم اشتہار کا سن کر چار درویش کے قصے کو ہزار جد و کد سے اردوئے معلا کی زبان میں باغ و بہار بنایا۔ فضلِ الٰہی سے سب صاحبوں کے سیر کرنے کے باعث سر سبز ہوا۔ اب امیدوار ہوں کہ اسکا پھل مجھے بھی ملے، تو میرا غنچۂ دل مانند گل کے کھلے۔ بقول حکیم فردوسی کے کہ شاہ نامے میں کہا ہے۔
بسے رنج بر دریں سال سی
عجم زندہ کردم بہ ایں پارسی
سو اردو کی آراستہ کر زباں
کیا، میں نے بنگالہ ہندوستاں
خداوند آپ قدر دان ہیں، حاجت غرض کرنے کی نہیں.
الٰہی تارا اقبال کا چمکتا رہے۔
مقدمہ ۔ میر امن دہلوی
سبحان اللہ، کیا صانع ہے کہ جس نے ایک مٹھی خاک سے کیا کیا صورتیں اور مٹی کی مورتیں پیدا کیں باوجود رنگ کے ایک گورا اور ایک کالا۔ اور یہی ناک، کان، ہاتھ پاؤں سب کو دیئے ہیں۔ تس پر، رنگ بہ رنگ کی شکلیں جدی، جدی بنائیں کہ ایک کی سج دھج سے دوسرے کا ڈیل ڈول ملتا نہیں۔ کروڑوں خلقت میں جس کو چاہیئے، پہچان لیجئے۔ آسمان اس کے دریائے وحدت کا ایک بلبلا ہے اور زمین پانی کا بتاشا، لیکن یہ تماشا ہے کہ سمندر ہزاروں لہریں مارتا ہے پر اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ جسکی یہ قدرت اور سکت ہو اسکی حمد و ثنا میں زبان انسان کی گویا گونگی ہے، کہیے تو کیا کہیے، بہتر یوں ہے کہ جس بات میں دم نہ مار سکے، چپکا ہو رہے۔
عرش سے لے کر فرش تک جس کا یہ سامان ہے
حمد اس کی اگر لکھا چاہوں تو کیا امکان ہے
جب پیمبر نے کہا ہو میں نے پہچانا نہیں
پھر جو کوئی دعویٰ کرے اس کا، بڑا نادان ہے
رات دن یہ مہر و مہ پھرتے ہیں صنعت دیکھتے
پر ہر اک واحد کی صورت دیدۂ حیران ہے
جس کا ثانی اور مقابل ہے نہ ہووے گا کھبو
ایسے یکتا کو خدائی سب طرح شایان ہے
لیکن اتنا جانتا ہوں خالق و رزاق ہے وہ
ہر طرح سے مجھ پر اس کا لطف اور احسان ہے
اور درود اس کے دوست پر جس کی خاطر، زمین و آسمان کو پیدا کیا اور درجہ رسالت کا دیا۔
جسم پاک مصطفیٰ، اللہ کا اک نور ہے
اس لئے پرچھائیں اس قد کہ نہ تھی، مشہور ہے
حوصلہ میرا کہاں اتنا، جو نعت اس کی کہوں
پر سخن گویوں کا یہ بھی قاعدہ دستور ہے
اور اس کی آل پر صلوٰۃ و سلام، جو ہیں بارہ امام
حمدِ حق اور نعتِ احمد کو یہاں کر انصرام
اب میں آغاز اس کو کرتا ہوں جو ہے منظور کام
یا الٰہی واسطے اپنے نبی کی آل کے کر یہ میری گفتگو مقبول طبع خاص و عام