(Last Updated On: )
فلک کا منہ نہیں اس فتنے کے اٹھانے کا ستم شریک ترا یار ہے زمانے کا بسانِ شمع جو مجلس سے ہم گئے تو گئے سراغ کیجو نہ پھر تُو نشان پانے کا چمن میں دیکھ نہیں سکتی ٹک کہ چبھتا ہے جگر میں برق کے کانٹا مجھ آشیانے کا سراہا ان نے ترا ہاتھ جن نے دیکھا زخم شہید ہوں میں تری تیغ کے لگانے کا شریفِ مکّہ رہا ہے تمام عمر اے شیخ! یہ میرؔ اب جو گدا ہے شراب خانے کا