(Last Updated On: دسمبر 20, 2022)
مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا داغ ہوں رشکِ محبت سے کہ اتنا بے تاب کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تُو باہر نکلا جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا جو ستم دیدہ رہا جا کے سو مر کر نکلا دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھ جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر نکلا اشکِ تر قطرۂ خوں لختِ جگر پارۂ دل ایک سے ایک عدو آنکھ سے بہتر نکلا ہم نے جانا تھا لکھے گا تو کوئی حرف اے میرؔ پر ترا نام تو اِک شوق کا دفتر نکلا