(Last Updated On: دسمبر 20, 2022)
پھوٹا کیے پیالے لنڈھتا پھرا قرابا مستی میں میری تھی یاں اک شور اور شرابا وے دن گئے کہ آنکھیں دریا سی بہتیاں تھیں سوکھا پڑا ہے اب تو مدت سے یہ دوآبا ان صحبتوں میں آخر جانیں ہی جاتیاں ہیں نے عِشق کو ہے صرفہ نے حسن کو محابا ہر چند ناتواں ہیں پر آگیا جو جی میں دیں گے ملا زمیں سے تیرا فلک قلابا اب شہر ہر طرف سے میدان ہو گیا ہے پھیلا تھا اس طرح کا کاہے کو یاں خرابا دل تفتگی کی اپنی ہجراں میں شرح کیا دوں چھاتی تو میرؔ میری جل کر ہوئی ہے تابا