جب وہ ہسپتال سے باہر نکلا تو اس کی ٹانگیں کان رہی تھیں اور اس کا سارا جسم بھیگی ہوئی روئی کا بنا معلوم ہوتا تھا اور اس کا جی چلنے کو نہیں چاہتا تھا وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ جانے کو چاہتا تھا۔ قاعدے سے اسے ابھی تک ایک ماہ اور ہسپتال میں رہنا چاہئیے تھا مگر ہسپتال والوں نے اس کی چھٹی کر دی تھی، ساڑہے چار ماہ تک وہ ہسپتال کے پرائیوٹ وارڈ میں رہا تھا اور ڈیڑھ ماہ تک جنرل وارڈ میں اس اثناء میں اس کا گردہ نکال دیا گیا تھا اور اس کی آنتوں کا ایک حصہ کاٹ کے آنتوں کے فعل کو درست کیا گیا تھا، ابھی تک اس کے کلیجے کا فعل راست نہیں ہوا تھا اسے ہسپتال سے نکل جانا پڑا، کیونکہ دوسرے لوگ انتظار کر رہے تھے، جن کی حالت اس بھی بتر تھی۔ ڈاکٹر نے اس سے کے ہاتھ میں ایک لمبا سے نسخا دے دیا اور کہا یہ ٹانک پیو اور مقوی غذا کھاؤ، بالکل تندرست ہو جاؤ گے، اب ہسپتال میں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مگر مجھ سے چلا نہیں جاتا، ڈاکٹر صاحب؟ اس نے کمزور آواز میں احتجاج کیا، گھر جاؤ چند دن بیوی خدمت کرے گی بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے، بہت ہی دھیرے دھیرے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے فٹ پاتھ پر چلتے اس نے سوچا گھر؟ میرا گھر کہاں ہے ؟ چند ماہ پہلے ایک گھر ضرور تھا، ایک بیوی بھی تھی،جس کے ایک بچہ ہونے والا تھا، وہ دونوں اس آنے والے بچے کے تصور سے کس قدر خوش تھے، ہو گی دنیا میں زیادہ آبادی، مگر وہ تو ان دونوں کا پہلا بچہ تھا۔ دلاری نے اپنے بچے کیلئے بڑے خوبصورت کپڑے سئیے تھے اور ہسپتال میں لا کر اسے دکھائے تھے اور ان کپڑوں کی نرم سطح پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس ایسا محسوس ہوا جیسے وہ اپنے بچے کو بانہوں میں لے کر اسے پیار کر رہا ہوں ، مگر پھر اگلے چند مہینوں میں بہت کچھ لٹ گیا، جب اس کے گرد کا پہلا آپریشن ہوا تو دلاری نے اپنے زیور بیچ دئیے کہ ایسے ہی موقعوں کے لئے ہوتے ہیں ، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زیور عورت کے جسن کی افزائش کے لئے ہوتے ہیں ، وہ تو کسی دوسرے درد کا مداوا ہوتے ہیں ، شوہر کا آپریشن، بچے کی تعلیم، لڑکی کی شادی، یہ بینک ایسے ہی موقعوں کے لئے کھلتا ہے اور خالی کر دیا جاتا ہے، عورت تو اس زیور کی تحویل دار ہوتی ہے اور زندگی میں مشکل سے پانچ چھ بار اسے اس زیور کو پہننے کی توفیق حاصل ہوتی ہے۔ گردے کے دوسرے آپریشن سے پہلے دلاری کا بچہ ضائع ہو گیا، وہ تو ہو تو ہی دلاری کو دن رات جو کڑی مشقت کرنا پڑ رہی تھی، اس میں یہ خطرہ سب سے پہلے موجود تھا، ایسے لگتا جیسے دلاری کا یہ چھریرا سنہرا بدن اس قدر کڑی مشقت کے لئے نہیں بنایا گیا، اس لئے وہ دانا فرزانہ بچہ ہی میں سے کہیں لٹک گیا تھا، ناسازگار ماحول دیکھ کر اور ماں باپ کی پتلی حالت بھان کر اس نے خود ہی پیدا ہونے سے انکار کر دیا، بعض بچے ایسے ہی عقلمند ہوتے ہیں ، دلاری کئی دنوں تک ہسپتال نہیں آ سکی، اور جب اس نے آ کے خبر دی تو وہ کس قدر رویا تھا، اگر اسے معلوم ہوتا کہ آگے چل کر اسے اس سے کہیں زیادہ رونا پڑے گا، تو وہ اس حادثے پر رونے کے بجائے خوشی کا اظہار کرتا۔ گردے کے دوسرے آپریشن کے بعد اس کی نوکری جاتی رہی، طویل علالت میں یہی ہوتا ہے، کوئی کہاں تک انتظار کر سکتا ہے، بیماری انسان کا اپنا ذاتی معاملہ ہے،اس لئے اگر وہ چاہتا کہ اس کی نوکری قائم رہے تو اسے زیادہ دیر تک بیمار نہ پڑنا چاہئیے، انسان مشین کی طرح ہے، اگر ایک مشین طویل عرصے کے لئے بگڑی رہتی ہے تو اسے اٹھا کے ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ نئی مشین آ جاتی ہے کیونکہ کام رک نہیں سکتا، بزنس بند نہیں ہو سکتا اور وقت تھم نہیں سکتا، اس لئے جس سے معلوم ہو کہ اس کی نوکری بھی جاتی رہی ہے تو اسے شدید دھچکا سا لگا، جسیے اس کا دوسرا گردہ بھی نکال لیا گیا، اس دھچکے سے اس کے آنسو بھی خشک ہو گئے، اصلی اور بڑیمصیبت میں آنسو نہیں آتے، اس نے محسوس کیا صرف دل کے اندر ایک خلا محسوس ہوتا ہے، زمین قدموں کے نیچے سے کھسکتی معلوم ہوتی اور رگوں میں خون کے بجائے خوف دوڑتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ کئی دنوں تک وہ آنے والی زنگی کے خوف اور دہشت سے سو نہیں سکا تھا، طویل علالت کے خرچے بھی طویل ہوتے ہیں ، اور زیر بار کرنے والے ہولے ہولے گھر کی سب قیمتی چیزیں چلی گئیں ، مگر دلاری نے ہمت نہیں ہاری، اس نے ساڑہے چار ماہ تک ایک ایک چیز بیچ دی اور آخر میں نوکری بھی کر لی، وہ ایک فرم میں ملازم ہو گئی تھی، اور روز اپنی فرم کے مالک کو لے کر ہسپتال بھی آئی تھی، وہ ایک دبلا پتلا، کوتاہ قد، ادھیڑ عمر کا شرمیلا آدمی دکھائی دیتا تھا، کم گو اور میٹھی مسکڑاہٹ والا، صورت شکل سے وہ کسی بڑی فرم کا مالک ہونے کے بجائے کتابوں کی کسی دکان کا مالک معلوم ہوتا تھا،دلاری اس کی فرم میں سو روپے مہینے پر نوکر ہو گئی تھی، چونکہ وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی، اس لئے اس کا کام لفافوں پر ٹیکٹس لگانا تھا۔ یہ تو بہت آسان کام ہے ؟ دلاری کے شوہر نے کہا۔ فرم کا باس بولا کام تو آسان ہے، مگر جب دن میں پانچ چھ سو خطوں پر ٹیکٹس لگان پڑیں تو اسی طرح کا کام بہت آسان کام کے بجائے بہت مشکل کام ہو جات ہے۔ اور وہ اس منزل سے گز چکا تھا جس وہ کسی کو قصور وار نہیں ٹھہرا سکتا تھا، اتنی چوٹیں پے در پے اس پڑی تھیں کہ وہ بالکل بولا گیا، بالکل سناٹے میں آگیا وہ باطل دم بخور تھا، اب اس کی مصیبت اور تکالیف میں کسی طرح کا کوئی جذبہ یا آنسو نہیں رہ گیا تھا، بار بار ہتھوڑے کی ضربیں کھا کھا کراس کا دل دہات کے ایک پترے کی طرح بے جس ہو گیا، اس لئے آج جب اسے ہسپتال سے نکال گیا تو اس نے ڈاکٹر سے کسی ذہنی تکلیف کی دور کرنے کی شکایات نہیں کی تھی، اس نے اس سے یہ نہیں کہا تھا کہ اب وہ اس ہسپتال سے نکل کر کہاں جائے گا؟اب اس کا کوئی گھر نہیں تھا،کوئی بیوی نہیں تھی،کوئی بچہ نہیں ،کوئی نوکری نہیں ، اس کا دل خالی تھا، اس کی جیب خالی تھی، اور اس کے سامنے ایک خالی اور سپاٹ مستقبل تھا۔ مگر اس نے یہ سب کچھ نہیں کہا تھا،اس نے صرف یہ کہا تھا؟ ڈاکٹر صاحب مجھ سے چلا نہیں جا رہا ہے، بس یہی ایک حقیقت تھی جو اسے اس وقت یاد تھی، باقی ہر بات اس کے دل سے مجو ہو سکتی ہے، اس وقت چلتے چلتے وہ صرف یہ محسوس کر سکتا تھا کہ اس کا جسم گیلی روئی کا بنا ہوا ہے،اس کی ریڑھ کی ہڈی کسی پرانی شکستہ چارپائی کی طرح چٹخ رہی ہے، دھوپ بہت تیز ہے، روشنی نشتر کی طرح چبھتی ہے، آسمان پر ایک میلے اور پیلے رنگ کا وارنش پھرا ہوا اور فضا میں تاریک تر کرتے اور چستیاں سی غلیظ مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہی ہیں اور لوگوں کی نگاہیں بھی گندے لہو اور پی کی طرح اس کے جسم سے چسپا کر رہ جاتیں ، اسے بھاگ جانا چاہئیے، کہیں ان
سید زیارت حسین جمیل ۔۔۔ کمزوراں، ماڑیاں تے لسیاں دا انکھی شاعر
جیہڑی وچ زیارت دے گئی مینوں میری ماں میں پنجابی چھڈ نہیں سکدا ، میرے ادب دی تھاں . ....