(Last Updated On: دسمبر 20, 2022)
کیا عجب پل میں اگر ترک ہو اُس سے جاں کا ہو جو زخمی کسو برہم زدنِ مژگاں کا اُٹھتے پلکوں کے گرے پڑتے ہیں لاکھوں آنسو ڈول ڈالا ہے مری آنکھوں نے اب طوفاں کا جلوۂ ماہ تہِ ابرِ تنک بھول گیا اُن نے سوتے میں دوپٹے سے جو منھ کو ڈھانکا لہو لگتا ہے ٹپکنے جو پلک ماروں ہوں اب تو یہ رنگ ہے اس دیدۂ اشک افشاں کا اُٹھ گیا ایک تو اک مرنے کو آ بیٹھے ہے قاعدہ ہے یہی مدت سے ہمارے ہاںکا چارۂ عشق بجز مرگ نہیں کچھ اے میرؔ اس مرض میں ہے عبث فکر تمہیں درماں کا