(Last Updated On: )
ہے حال جائے گریہ جانِ پُر آرزو کا روئے نہ ہم کبھو ٹک دامن پکڑ کسو کا جاتی نہیں اُٹھائی اپنے پہ یہ خشونت اب رہ گیا ہے آنا میرا کبھو کبھو کا اپنے تڑپنے کی تو تدبیر پہلے کر لوں تب فکر میں کروں گا زخموں کے بھی رفو کا یہ عیش گہ نہیں ہے یاں رنگ اور کچھ ہے ہر گُل ہے اس چمن میں ساغر بھرا لہو کا بلبل غزل سرائی آگے ہمارے مت کر سب ہم سے سیکھتے ہیں انداز گفتگو کا گلیاں بھری پڑی ہیں اے یار زخمیوں سے مت کھول پیچ ظالم اس زلفِ مشک بُو کا وے پہلی التفاتیں ساری فریب نکلیں دینا نہ تھا دل اُس کو میں میرؔ آہ چُوکا