عظیم خواہش! گواہ رہنا
کہ ہم نے کل فیصلے کی تکبیر پڑھ کے اپنا لہو
بہایا تھا راستوں پر
جہاں پہ ہریالیوں کا پرچم
مہ دستارہ کی اوج پر لہلہا رہا ہے
گواہ رہنا کہ
کل کی ظلمت کو ہم نے تسخیر کر لیا ہے
تمام اہرام اپنے سائے پہ آگرے ہیں
ہماری جانب سحر نے پھینکی ہیں مٹھیاں بھر کے روشنی کی
بلندیوں سے برستی کرنوں نے کر دیا ہے
زمیں کا سارا بدن سنہرا
جوان لڑکوں نے سر پہ باندھے ہوئے ہیں سہرے
گلی گلی بے حساب چاہت کی خوشبوؤں سے بھری ہوئی ہے
عظیم خواہش گواہ رہنا
کہ ہم نے تکمیل کے سفر پر
روانہ ہونے سے پیشتر عہد کر لیا ہے
کہ ہم کسی مصلحت کے آگے نہیں جھکیں گے
ہم اپنے منہ پر مفاہیم کی سیاہ کیچڑ نہیں ملیں گے
گواہ رہنا کہ عزم اپنا
ہمالیہ سے بلند تر ہے
ہماری آنکھوں میں ساری مشرق کی دھوپ سمٹی ہوئی ہے
پیشانیوں پہ خاکِ وطن کا سونا چمک رہا ہے
ہمارے جذبوں کا رہ نما ہے
لہو سے لکھا ہوا نوشتہ محبتوں کا
٭٭٭
نظم کی اقسام
♧ نظم کی اقسام پابند نظم، آزاد نظم، نظم معّریٰ، اور نثری نظم۔ ~ پابند نظم : پابند نظم میں...